پاکستان کے حکمران اور عظیم تصورات کی تذلیل

اصول ہے ’’بڑا سوچو، بڑے بن جائو‘‘۔ لیکن انسان کو بڑا سوچنے کے لیے عظیم تصورات کی ضرورت ہوتی ہے۔ عظیم تصورات انسان کو بڑا سوچنے اور بڑا بننے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کی ایک غیرمعمولی مثال پاکستان کی تاریخ ہے۔ اسلام ایک ماورائے تاریخ حقیقت یا Meta Historical Reality ہے۔ اس نے ایک عظیم الشان تہذیب اور عظیم الشان تاریخ کو جنم دیا۔ اس نے ہزاروں عظیم الشان شخصیات کو پیدا کیا۔ یہ اسلام کی طاقت تھی جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا۔ یہ اسلام کی طاقت تھی جس نے پاکستان کو عدم سے وجود میں لاکر دکھایا۔ یہ اسلام کی طاقت تھی جس نے ایک ہجوم کو پاکستانی قوم بنا کرکھڑا کیا۔ قائداعظم دو قومی نظریے یا اسلام سے پہلے صرف افراد کے وکیل تھے، مگر اسلام نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ لیکن پاکستان اور پاکستانی قوم کی بدقسمتی دیکھیے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو عظیم الشان تصورات فراہم ہوئے، مگر انہوں نے ان عظیم الشان تصورات سے نئی دنیا خلق کرنے کے بجائے ان تصورات کی تذلیل کرڈالی۔
اسلامی کائنات ایک خدا مرکز کائنات ہے۔ اس لیے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست بھی خدا مرکز ہے۔ اسلام میں خدا کا تصور ایک انقلابی تصور ہے۔ اس انقلابی تصور کو کلمۂ طیبہ پوری قوت سے بیان کرتا ہے۔ کلمۂ طیبہ اعلان کرتا ہے ’’نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے اللہ کے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ اس کلمے کا آغاز’لا‘ یعنی ’نہیں‘ سے ہوتا ہے۔ کلمۂ طیبہ اپنے آغاز ہی میں دنیا کے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کرکے انہیں منہ کے بَل گرا دیتا ہے۔ کلمۂ طیبہ نہ سیکولرازم کی خدائی کو تسلیم کرتا ہے، نہ لبرل ازم کی خدائی کو مانتا ہے۔ وہ دولت کے خدا کا بھی انکار کرتا ہے، اور رنگ، نسل اور جغرافیے کے بتوں کو بھی پاش پاش کرتا ہے۔ وہ اَنا کی خدائی کا بھی انکار کرتا ہے اور نفسِ امّارہ کی خدائی کو بھی مسترد کرتا ہے۔ جب کلمۂ طیبہ کا ’لا‘ تمام جھوٹے خدائوں کو گرا دیتاہے تب وہ ایک حقیقی اور واحد خدا کا اثبات کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک خدا مرکز ریاست ہونا تھا، مگر پاکستان کے حکمرانوں کے لیے خدا ’’حقیقت‘‘ تو کیا، ایک ’’تصور‘‘ بھی نہیں ہے۔ ہوتا، تو وہ اس تصور کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کو چلاتے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا خدا امریکہ ہے، یورپ ہے۔ مسلمانوں کی دنیا خدا مرکز ہوتی ہے تو اس دنیا پر قرآن کی حکمرانی ہوتی ہے، اس لیے کہ قرآن مسلمانوں کا دستورِ حیات ہے۔ قائداعظم سے ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہوگا؟ قائداعظم نے فرمایا کہ ’’ہمیں آئین کی ضرورت کیا ہے! ہمارے پاس قرآن موجود ہے، وہی پاکستان کا آئین ہوگا‘‘۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ قرآن کے جلال سے استفادہ کیا، نہ اس کے جمال سے فیض اٹھایا، نہ اس کی معنویت کو اہمیت دی۔ قرآن صرف دستورِ حیات نہیں ہے، وہ کتابِ انقلاب بھی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قرآن کی انقلابیت کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ پاکستان کو قائم ہوئے 74 سال ہوگئے مگر قرآن ہمارے تعلیمی نصاب تک کا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران نہ قرآن کے مطابق سوچتے ہیں، نہ عمل کرتے ہیں۔ ان کی رال ٹپکتی ہے تو مغربی مفکرین کے ارشادات پر۔ ان کی نظر میں مغربی مفکرین کے خیالات وحی اور الہام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور قرآن جو اوّل و آخر وحی ہے، اس کی ہمارے حکمرانوں کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ کلمۂ طیبہ کا پہلا حصہ جھوٹے خدائوں کے انکار کے بعد ایک سچے خدا کا اثبات کرتا ہے۔ کلمۂ طیبہ کا دوسرا حصہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات پر مشتمل ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسوۂ حسنہ کو سب سے بڑے نمونۂ عمل کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ مگر ایک سطح پر ہمارے معاشرے کا نمونۂ عمل فوجی آمر ہیں، دوسری سطح پر ہمارے معاشرے کا نمونۂ عمل نوازشریف یا عمران خان اور الطاف حسین جیسے لوگ ہیں، تیسری سطح پر ہمارے معاشرے کا نمونۂ عمل اداکار ہیں، گلوکارہیں، ماڈل گرلز ہیں، چوتھی سطح پر ہمارے معاشرے کا نمونۂ عمل کرکٹرز ہیں، پانچویں سطح پر ہمارے معاشرے کا نمونۂ عمل دولت مند لوگ ہیں خواہ وہ اسمگلر اور رشوت خور ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا معاشرہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اسوۂ حسنہ کے مطابق اسے ہونا چاہیے، بلکہ ہمارا معاشرہ ٹھیک ویسا ہے جیسا کہ ہمارے حکمرانوں نے اسے بنانا چاہا ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویزمشرف تو خیر سیکولر اور لبرل تھے، مگر جنرل ضیاء الحق مردِ مومن مردِ حق کہلاتے تھے، لیکن اسلام کے حوالے سے اُن کا حال بھی یہ تھا کہ اسلام اُن کی صرف ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھا۔ وہ اُن کے لیے ’’وجودی مسئلہ‘‘ یا Existential Problem نہیں تھا، وہ ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں تھا۔ چنانچہ انہوںنے گیارہ برسوں میں اسلام کو کبھی معاشرے اور ریاست کی غالب قوت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نےاسلامی بینکاری متعارف کرائی، مگر اس کا صرف نام ہی اسلامی تھا۔ اسلامی بینکاری کی آڑ میں سودی بینکاری ہی اصل کاروبار تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک کے تعلیمی نظام کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کچھ نہ کیا۔ انہوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں، مگر اصل عدالتی نظام کو اپنی جگہ باقی رہنے دیا۔ اِس وقت ہمارے سامنے عمران خان موجود ہیں جو ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، مگر انہیں ریاست مدینہ کی ہوا بھی نہیں لگی۔ وہ جس سانس میں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اسی سانس میں وہ چین اور اسکینڈے نیوین ملکوں کے نظام کی بات بھی کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ ایک کنفیوژ آدمی ہیں اور صرف نعرے بازی کررہے ہیں۔ ان کا حال غالب کے اس شعر کی طرح ہے ؎
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
عمران خان خط تو نہیں لکھتے بلکہ وہ بیان دیتے ہیں، مگر ان کے بیانات میں معنی نہیں ہوتے۔ وہ صرف ’’مشہوری‘‘ کے لیے ریاست مدینہ، ریاست مدینہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں اسلام اتنا یتیم ہے کہ لاکھوں لوگ ریاست مدینہ کے سلسلے میں عمران خان کی بیان بازی سے بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ اسلام نے پاکستان کو عدم کے اندھیرے سے وجود کی کہکشاں میں لاکر کھڑا کیا تھا، چنانچہ اگر اسلام کی قوت کو بروئے کار لایا جاتا تو اسلام پاکستان کو دنیا کی دس بڑی طاقتوں میں سے ایک طاقت بھی بنا سکتا تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کی قوت، اس کے جلال و جمال، اور اس کی معنویت سے استفادہ ہی نہیں کیا۔ چنانچہ پاکستان روحانی، اخلاقی یا سیاسی اور معاشی اعتبار سے دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ہم صرف معاشی غربت میں مبتلا نہیں۔ ہم روحانی، اخلاقی، علمی اور تخلیقی غربت میں بھی مبتلا ہیں۔ عظیم الشان تصورات کی تذلیل کے نتیجے میں یہی ہوسکتا تھا۔
اسلام کے عظیم الشان تصورات کے ساتھ باطل نظریات کا ذکر کرنا مناسب نہیں، مگر دنیا میں باطل نظریات کی پیروی سے بھی انقلابات آئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام ہی کا منکر نہیں، اور اس نے صرف اسلام کے عظیم الشان نظریات و تصورات ہی کی تذلیل نہیں کی بلکہ انسانی ساختہ عظیم تصورات کی بھی تذلیل کی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے بڑے سیاست دان اور کامیاب حکمران تھے۔ انہوںنے چھے سال تک بلا شرکتِ غیرے حکومت کی، مگر بدقسمتی سے وہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے حامل تھے۔ حالانکہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان کا نام ایک ساتھ لیا ہی نہیں جا سکتا۔ اسلام حق ہے، سوشلزم باطل ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھٹو صاحب کو نہ اسلام کا کچھ پتا تھا، نہ سوشلزم کی کچھ خبر تھی۔ جس طرح اسلام ایک لمحے کے لیے بے خدا سوشلزم کو قبول نہیں کر سکتا، اسی طرح سوشلزم ایک لمحے کے لیے بھی ’’باخدا‘‘ اسلام کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔ سوشلزم جہاں آیا اُس نے اسلام کا ہی نہیںبلکہ ہر مذہب کا صفایا کردیا۔ مگر بھٹو صاحب آخری دم تک اسلامی سوشلزم کا چکر چلاتے رہے، اور اس طرح وہ اسلام ہی کی نہیں سوشلزم کی بھی توہین کرتے رہے۔ ویسے خیر سے بھٹو صاحب سوشلسٹ ہو بھی نہیں سکتے تھے، اس لیے کہ وہ ’’جاگیردار‘‘ تھے اور سوشلزم میں جاگیرداری کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ سوشلزم دنیا میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو ختم کرنے آیا تھا۔ بلاشبہ سوشلزم ایک باطل نظریہ تھا، مگر سوشلزم نے روس اور چین میں انقلابات برپا کیے۔ یہ انقلابات آدھی دنیا کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔ مگر بھٹو صاحب کی زندگی پرسوشلزم کا کوئی اثر نہ تھا۔ انہوںنے زرعی اصلاحات کیں مگر بھٹو خاندان کی جاگیرداری پر اس سے کوئی فرق نہ پڑا۔
جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل پرویزمشرف سیکولر اور لبرل تھے، مگر انہیں مغرب کے سیکولرازم اور لبرل ازم کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ سیکولرازم اور لبرل ازم تنہا کچھ نہیں، یہ ایک ’’پیکیج‘‘ کا نام ہے۔ سیکولرازم میں فرد کی آزادی کا تصور بنیادی اہمیت رکھتا ہے، مگر ہمارے سیکولر فوجی آمروں نے معاشرے میں فرد کی آزادی کو پروان نہ چڑھنے دیا۔ جنرل ایوب دس سال تک کالے قوانین کے ذریعے پریس کو کنٹرول کیے رہے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ جنرل پرویزمشرف بھی آزادیِ اظہار کے قائل نہ تھے، اور انہوں نے بھی ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آئین پرستی لبرل ڈیموکریسی کا ایک بنیادی تصور ہے، مگر ہمارے کسی حکمران، بالخصوص فوجی حکمران نے آئین کو وہ عزت نہیں دی جو سیکولر اور لبرل روایت میں آئین کا حق تھا۔ ہمارے سیکولر اورلبرل حکمرانوں کے سیکولرازم اور لبرل ازم کو دیکھا جائے تو وہ امریکہ پرستی، شراب نوشی اور عورت بازی سے آگے نہیں جاتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کی مذہب پرستی بھی جھوٹی ہے اور اُن کا سیکولرازم اور لبرل ازم بھی جھوٹا ہے۔
ہمارے حکمران مغرب سے بہت متاثر ہیں، مگر مغرب کا سیاسی نظام جمہوریت پر کھڑا ہوا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق بھی جمہوریت کے سخت خلاف تھے، جنرل پرویزمشرف کو بھی صرف وہ جمہوریت اچھی لگتی تھی جسے وہ “Manage” کرسکیں۔ جو جمہوریت “Manage” نہ ہوسکے وہ جمہوریت جنرل پرویز کو درکار نہ تھی۔ لیکن جمہوریت دشمنی صرف فوجی آمروں ہی کا مسئلہ نہیں۔ جمہوریت سول آمروں یعنی ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور عمران خان کو بھی درکار نہیں ہے۔ چنانچہ پیپلزپارٹی کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے مگر اُس میں آج تک جمہوریت داخل نہیں ہوئی۔ میاں نوازشریف 30 سال سے نواز لیگ کی سواری کررہے ہیں، مگر نواز لیگ آج تک شریف خاندان کی ’’باندی‘‘ ہے۔ عمران خان نے پارٹی میں انتخابات کرائے مگر ان میں بدترین دھاندلی ہوئی۔ جسٹس(ر) وجیہ الدین پارٹی انتخابات کے نگران تھے، انہوں نے رپورٹ دی کہ انتخابات میں بہت بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے چنانچہ انتخابات دوبارہ کرائے جائیں۔ عمران خان جمہوریت پسند ہوتے تو وہ جسٹس (ر) وجیہ کے مشورے کے مطابق پارٹی میں دوبارہ انتخابات کراتے، مگر انہوں نے دوبارہ انتخابات کرانے کے بجائے جسٹس (ر) وجیہ ہی کو برطرف کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا

جائے تو پاکستان کا حکمران طبقہ 1970ء سے اب تک جمہوریت کی مسلسل تذلیل کررہا ہے اور اس نے جمہوریت کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔
اسلام میں قوم پرستی کی گنجائش نہیں، مگر قوم پرستی مغرب کا ایک بہت اہم تصور ہے اور اس تصور کے زیراثر امریکہ میں ’’امریکیت‘‘ کو پوجا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ’’ہندوستانیت‘‘ کی پوجا کی جاتی ہے۔ اسرائیل میں ’’اسرائیلیت‘‘ کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ معاشرے میں ’’اسلامیت‘‘ تو کیا پیدا کرتا، وہ 74 سال میں معاشرے کے اندر ’’پاکستانیت‘‘ بھی پیدا نہیں کرسکا۔ پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت کے لیے اہم ہے تو پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت، بلوچیت۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اسلامیت یا پاکستانیت پیدا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا تو 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔