خفتگانِ جنت البقیع

نام کتاب: خفتگانِ جنت البقیع
مصنف و محقق: حاجی فقیر محمد سومرو
صفحات: 416، قیمت: موجود نہیں
ناشر: اریبا پبلی کیشنز، کراچی
رابطہ نمبر: 03062023321
جنت البقیع، مدینہ منورہ کا وہ عدیم النظیر قبرستان ہے جس کے ریگ زاروں میں لاتعداد قدسی نفوس اور اسلام کے درخشندہ ستارے آسودہ ٔخاک ہیں۔ جہاں مدفون ہونے کی خواہش ہر مسلمان اپنے دل میں رکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم السلام یہاں دفن ہونے کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ بالالتزام یہ دعا مانگا کرتے تھے: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صلى الله عليه وسلم. (یا اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما، اور مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر میں موت عطا فرما۔)
صحیح بخاری کی ایک حدیث ِ مبارکہ کے مطابق: ”جنت البقیع سے دس ہزار صحابہ کرام ؇کے ساتھ ستّر ہزار لوگ قیامت کے دن اٹھیں گے، جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے، اور یہ لوگ بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“
حضور ﷺ کے ارشادِ گرامی: ”جو شخص مدینہ طیبہ میں مرسکتا ہو، اسے مدینہ ہی میں مرنا چاہیے، کیوں کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت کروں گا“ (ترمذی شریف) کے پیشِ نظر امام مالک ؒبن انس مدینہ منور ہ سے قدم باہرہی نہیں نکالا کرتے تھے۔
اس بابرکت شہرِ خموشاں کا اصل نام ”بقیع الغرقد“ ہے۔ غرقد ایک کانٹے دار درخت کو کہتے ہیں۔ یہ درخت چونکہ بقیع میں بکثرت موجود تھے لہٰذا اس جگہ کو بقیع الغرقد کہا جانے لگا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اللہﷺ نے ارادہ فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے کوئی مناسب جگہ تدفین کے لیے متعین ہوجائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جگہ (بقیع الغرقد) تشریف لائے تو ارشاد فرمایا: ”مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے“(مستدرک امام حاکم)۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تدفین کے لیے اس جگہ کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
جنت البقیع کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سرورِ دوعالم، نبی ٔ محتشمﷺ اس (قبرستان) کی زیارت کیا کرتے اور یہ دعا مانگا کرتے: ”اے اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما۔“ (مسلم شریف)
صالحینِ امت کی ہمیشہ یہ تمنا رہی ہے کہ انھیں جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہو۔ کتنے ہی افراد نے اس نیت سے ہجرت کی اور حیات ِ مستعار کے لمحات پورے ہونے کے انتظار میں برسوں مدینہ طیبہ میں قیام کیا۔ یہاں تک کہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے جنت البقیع میں آسودۂ خاک ہوئے۔
پیش نظر کتاب ”خفتگانِ جنت البقیع“ ایسے ہی چند خوش نصیب افراد کے تذکرے پر مشتمل ہے، جنھیں جنت البقیع میں آسودہ ٔخاک ہونا نصیب ہوا۔ ابتدا میں فاضل مصنف و محقق حاجی فقیر محمد سومرو صاحب نے مدینہ منورہ کی خصوصیات، جنت البقیع کا مختصر تعارف اور احادیث طیبہ میں وارد جنت البقیع کے فضائل پر گفتگو کی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کو درجِ ذیل گیارہ مشہد (ابواب) میں تقسیم کیا ہے:
1۔ خاندانِ نبوتﷺ کے چشم و چراغ، 2۔ حضور انور ﷺ کی کلیاں، 3۔ حضورِ انور ﷺ کی ازواجِ مطہرات، 4۔ حضورِ انور ﷺ کے صحبت یافتہ، 5۔ ائمہ دین کی قبریں، 6۔ جگر گوشہ ٔرسول ﷺ، 7۔ شہدائے حرہ، 8۔ دامادِ مصطفیٰ ﷺ ،9 حضورِ انور ﷺ کی رضاعی والدہ،11 ۔ حضور انور ﷺ کے ستارے، 11۔ حضورِ انور ﷺ کی پھوپھیاں۔ علاوہ ازیں جنت البقیع میں مدفون صحابہ کرام و صحابیات؇، مشائخ نقشبند اور علمائے اہلسنت کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کہ آخر میں جنت البقیع میں مدفون علمائے دیوبند کے ناموں کی فہرست دینے پر اکتفا کیا گیا ہے، جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جنت البقیع میں مدفون علمائے دیوبند کے مفصل تذکروں پر پہلے ہی کتابیں موجود ہیں۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں240 مدفونین ِ جنت البقیع کا تذکرہ ہے۔ جنت البقیع میں مدفون مشائخ نقشبند اور علمائے اہلسنت پر غالباً یہ پہلی کتاب ہے۔ فاضل مصنف نے خفتگانِ جنت البقیع کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض شخصیات کو حاصل امتیازات، انفرادیت یا اوّلیت کے ضمن میں قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ مثلاً:
٭مہاجرین میں سے سب سے پہلے حضرت عثمانؓ بن مظعون اور انصارِ مدینہ میں سے حضرت اسعدؓ بن زرارہ کو جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔
٭حضرت لبابہ بنت ِحارثؓ، حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بعد ایمان لانے والی دوسری خاتون ہیں۔
٭حضرت ابی بن کعب انصاریؓ، وہ صحابی ٔ رسول ہیں، جنھیں اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے حکم سے قرآن پڑھ کر سنایا۔
٭حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ، اصحابِ رسول میں وہ آخری صحابی ہیں، جو باقی رہ گئے تھے۔
٭حضرت ہندبن حارثہ الاسلمی ؓوہ صحابیٔ رسول ہیں، جو بیعت رضوان میں سات بھائیوں کے ساتھ شریک ہوئے۔
٭حضرت ابن ام مکتومؓ کو 31 مرتبہ رسول اللہﷺ کی نیابت کا شرف حاصل ہوا۔
٭حضرت براء بن معرورؓ، وہ صحابی ٔرسول ہیں، جنھوں نے بیعتِ عقبہ اولیٰ کی شب سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی۔
٭حضرت شفا بنتِ عوفؓوہ خوش نصیب خاتون ہیں ،جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی ولاد ت باسعادت کے بعدسب سے پہلے آپ ﷺ کو اپنی گود میں لیا۔
٭ قطب ِمدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی ؒکے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن مدنی ؒ (پ: دسمبر1925ء)ان خوش نصیب بچوں میں سے آخری بچے تھے، جنھیں حجرہ ٔمقدسہ میں داخل کیا گیا۔اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔(آلِ سعود کی حکومت قائم ہونے سے قبل یہ روایت تھی کہ مدینہ طیبہ میں پیدا ہونے والے بچے کو چالیس دن پورے ہونے کے بعدنہلا دھلا کر، نئے کپڑے پہنا کر، عطر لگا کر ، حرم شریف لے جایا جاتا اور حرم شریف میں جو اغوات ہوتے (اغوات آغا کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ افراد ہیں ،جنھوں نے خود کو مسجد نبوی اور مسجد حرام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہوتا تھا ) ان کے سپرد کردیا جاتا، آغا اس نومولود کو حجرہ ٔمقدسہ میں لے جاتا اور کچھ وقت تک حجرہ ٔمقدسہ کے غلاف شریف کے نیچے لٹادیتا، اور حجرہ شریف کا غبار ِمبارک اس کے منہ پر مَل کر باہر لے آتا۔)
فاضل مصنف حاجی فقیر محمد سومرو کا تعلق سندھ کے ایک علمی خانوادے سے ہے۔ تصنیف و تالیف کا ذوق ِ فراواں رکھتے ہیں۔ اردو اور سندھی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ اس سے قبل ان کی درجِ ذیل دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں: 1۔ روح پرور سفرنامہ( سفرنامۂ حرمین شریفین)، 2۔ سومرن جو شجر نامو (سندھی)۔
خفتگانِ جنت البقیع کے اس ایمان افروز اور تاریخی تذکرے کی اشاعت پر فاضل مصنف اور ان کے جملہ معاونین لائقِ تحسین و قابلِ مبارک باد ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فاضل مصنف کو اور ہم سب کو بھی جنت البقیع میں آسودہ ٔخاک ہونا نصیب فرمائے۔ آمین
ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد