حامد عبدالرحمٰن المکافؒ

حامد عبدالرحمان الکاف صاحبؒ بھی رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ عمر کے جس پڑاؤ پر تھے اور لمبے عرصے سے جسمانی ضعف اور بیماریوں کی جس طرح زد میں تھے، اس کے پیش نظر یہ غیر متوقع خبر نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود غم و اندوہ کی شدید لہر نے دیر تک ذہن و قلب کو متاثر کیے رکھا۔ اللہ تعالیٰ جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
میری نظر میں مرحوم کی شخصیت اس پہلو سے نہایت منفرد تھی کہ اس میں اسلامی تحریک کا ماضی، حال اور مستقبل ایک تسلسل کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ وہ جتنا ماضی کی اعلیٰ ترین روایتوں کے امین تھے، اتنا ہی مستقبل کے تقاضوں سے باخبر، اور ان کی تکمیل کے پُرزور وکیل بھی تھے۔ کسی رسالے کی پیشانی پر میں نے یہ طغرہ دیکھا تھا: ”شجر سلف سے پیوستہ، فضائے عہد سے وابستہ“۔۔ مرحوم کی شخصیت ان الفاظ کا بہترین عملی پیکر تھی۔ جہاں ان کی یادوں کی محفل مولانا مودودیؒ اور تحریک اسلامی کے دورِ اوّل کی عظیم شخصیتوں سے آباد تھی، وہیں حقیقی مجلس میں ہم نے اُن کو ہمیشہ تابناک پیشانیوں اور چمکتی آنکھوں والے نوجوانوں بلکہ نوعمروں کے جمگھٹ ہی میں دیکھا۔ مجھے اور مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو وہ قرآن، عربی زبان، اور کلاسیکل اسلامی مراجع کی طرف متوجہ کرتے رہے، تو علماء اور تحریکی بزرگوں کی محفل میں ہم نے ہمیشہ اُن کو اجتہادِ فکر کے وکیل اور فکری جمود کے ناقد کے طور پر دیکھا۔
عثمانیہ یونیورسٹی سے اُس زمانے میں انہوں نے معاشیات میں تخصص کی ڈگری حاصل کی جب وہاں ملک کے چنیدہ ترین ماہرین، بطور اساتذہ موجود تھے اور یونیورسٹی کا شمار دنیا کی ممتاز جامعات میں ہوتا تھا۔ اس کے بعد ثانوی درس گاہ اور مدرستہ الاصلاح میں وقت کے معتبر علماء سے علمِ دین حاصل کیا۔ مولانا مودودی سمیت کئی بزرگوں کی صحبت میں وقت گزارنے اور ان سے علمی و عملی استفادے کے مواقع ان کو کثرت سے ملے۔ کئی عالمی اسلامی بینکوں سے وابستہ رہے۔ خصوصًا رسک مینجمنٹ کے شعبے میں برسوں خدمات انجام دیں، اور اسلامی معاشیات کے میدان میں کئی بلند پایہ مقالے بھی لکھے۔ لیکن بعد میں ان کی اصل پہچان قرآن کے ایک مخلص خادم کی بنی۔ قرآن کی خدمت کا ایک میدان تو علم و تحقیق کا میدان تھا۔ اس میں بھی انہوں نے خوب کام کیا۔ لیکن جس کام کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا وہ نئی نسل، خصوصاً جدید تعلیم یافتہ ذہین نوجوانوں میں قرآن پر غور و فکر اور تحقیق کا ذوق پیدا کرنا تھا۔ انجینئرنگ، میڈیسن، مینجمنٹ جیسے علوم کے طلبہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والے ہنرمند نوجوان اُن کے گرد پروانوں کی طرح جمع رہتے، اور چند سالوں میں عربی زبان، تفسیر اور قرآنیات کا صاف ستھرا ذوق پیدا کرلیتے۔ صرف اکیڈمک سطح پر نہیں بلکہ خالص تحریکی سطح پر، حالات و مسائل کو دیکھنے کا ٹھیٹھ تحریکی زاویہ نگاہ بھی پیدا کرلیتے اور ساتھ ہی جذبہ عمل سے بھی سرشار ہوتے۔ انہوں نے حیدرآباد میں اپنی انفرادی کوششوں سے کئی مفروضوں کو غلط ثابت کیا۔ ایک یہ مفروضہ کہ نوجوانوں میں اب مطالعے کا ذوق نہیں رہا، یہ مفروضہ کہ نوجوان بزرگوں سے استفادہ نہیں کرتے، اور ایسے کئی مفروضے۔
مرحوم کے تمام بچے ان کے وطن یمن میں آباد ہیں، اور چاہتے تھے کہ ان کے والد بھی وہیں رہیں۔ لیکن ان کا وہاں کبھی دل نہیں لگا۔ ان کا بڑا وقت حیدرآباد ہی میں گزرتا۔ جب تک ویزا اجازت دیتا وہ یہاں محفلیں آباد کیے رہتے۔ پھر کچھ وقت یمن جاتے اور لوٹ کر پھر حیدرآباد آجاتے۔ جب میں ایس آئی او کی ذمے داریوں سے فارغ ہوکر حیدرآباد پہنچا تو اُن سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ ”ترجمان القرآن“ اور ”زندگی نو“ میں ان کے مضامین پڑھ چکا تھا۔ ان کے قابلِ رشک ماضی کے بارے میں بھی معلوم تھا۔ اس تعارف کے بیگیج کے ساتھ، پہلی بار ان کو تلاش کرتے ہوئے ایک اجتماع میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسٹیج سے دور، سیدھے سادے لباس میں ملبوس، ایک گوشے میں، زمین پر آلتی پالتی مارکر، نوجوانوں کے درمیان بیٹھے ہوئے بزرگ الکاف صاحب ہیں۔ جس قلندرانہ شان کے ساتھ وہ بیٹھے تھے، اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ لیکن چند ملاقاتوں ہی میں معلوم ہوگیا کہ
مہرو مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
پہلی محفل میں ہی ان کی زندہ دلی اور بے تکلفی نے تمام حجابات ختم کردیے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے بھی وہ کمپیوٹر کی اساسیات جانتے تھے۔ اکنامسٹ، فارن افیئرز، فوربس وغیرہ جیسے عالمی رسالوں کے تازہ ترین حوالے ان کی زبان پر رہتے۔ عالمی معاشیات، وائے ٹو کے بحران، ماحولیاتی بحران جیسے مسائل پر قرآن کی روشنی میں گفتگو کرتے۔ نئی چیزیں برابر سیکھتے رہتے۔ 2007ء کے عالمی معاشی بحران کے زمانے میں روزانہ اُن سے ملاقات ہوتی۔ وہ معاشی حالات، عالمی بازاروں کے اعداد و شمار وغیرہ کے بارے میں آج جو پیشین گوئیاں کرتے، دوسرے دن ہم انہیں اخباروں میں پڑھتے۔
میں بہت کم شخصیتوں سے متاثر ہوتا ہوں، لیکن اُن کی ہمہ پہلو شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ جلد ہی اُن سے بے تکلفانہ تعلق قائم ہوگیا۔ کئی بار انہوں نے میرے غریب خانے کو رونق بخشی۔ گھنٹوں نرم گرم بحثیں ہوتی رہیں۔ اُن سے بات کرنے میں کبھی عمروں کا فرق مانع نہیں ہوا۔ ہر موضوع پر ہر عمر کے نوجوان، اُن سے بے تکلف بات کرسکتے تھے۔ ویسے ہی جوش سے گرماگرم بحث کرسکتے تھے جیسے ہم عمروں سے کرتے ہیں۔ بے تکلف محفلوں میں وہ نفیس علمی ذوق، انقلابی تحریکی مزاج اور جہاد و اجتہاد سے عبارت تحریکی روح نوجوانوں میں پروان چڑھاتے۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ قرآن اور اسلامی علوم کی بہت سی گرہیں اُن کی صحبت میں کھلیں۔ معاشیات و مالیات اور عالمی سیاست کے کئی ایسے گوشے اجاگر ہوئے جو شاید محض کتابوں سے کبھی نہیں ہوتے۔ سب سے بڑھ کر زندگی بھر سیکھتے رہنے کا جذبہ اور سلیقہ اُن کی ذات سے حاصل ہوا۔ وہ اپنی شہریت کی وجہ سے جماعت کے رکن نہیں بن سکے، لیکن تحریک سے جو تعلق، جو کمٹمنٹ، اس کے مستقبل کو لے کر جو حساسیت اور مستقبل کی ضرورتوں اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے جو تڑپ اُن کے اندر پائی جاتی تھی، وہ نایاب نہ سہی کم یاب ضرور ہے۔ ہر طرح کے حالات میں اپنے حصے کا چراغ زندگی کی آخری سانس تک جلاتے رہنے کا جو درس اُن سے مجھے ملا وہ بہت قیمتی تھا۔ آخری زمانے میں ان کی بینائی تقریباً ختم ہوگئی تھی، (باقی صفحہ 41 پر)
قویٰ بھی جواب دے چکے تھے، لیکن کام کا جذبہ اور مستقبل بینی و مستقبل سازی کی امنگ ویسے ہی جوان تھی۔ اس زمانے میں بھی وہ اپنے شاگردوں کو مضامین املا کراتے رہے۔ نوجوانوں کی محفلیں کبھی ٹھنڈی نہیں ہوئیں۔ آنکھوں کی روشنی جاتی رہی لیکن علم و فضل کی روشنی کا فیض برابر جاری رہا۔
آخری ملاقات دو سال پہلے اُس وقت ہوئی جب میں جماعت اسلامی ہند کی امارت کے انتخاب کے بعد پہلی بار حیدرآباد پہنچا تھا، اور وہ یمن جانے کی تیاری کررہے تھے۔ بیماری اور عذرات کی وجہ سے وہ حیدر گوڑہ میں اپنی بہن کے گھر مقیم تھے۔ جس طرح دعائیں دیتے ہوئے اور روتے ہوئے انہوں نے گھر سے رخصت کیا، وہ منظر بار بار نگاہوں کے سامنے آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کی خدمات کا اجر عظیم انہیں عطا فرمائے، آمین۔