میرا پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت (جو کچھ عرصے بعد شعبۂ ابلاغِ عامہ، پھر ادارۂ علومِ ابلاغیات، اور اب اسکول آف ماس کمیونی کیشن بن چکا ہے) داخلہ ہوا تو صحافت اور صحافیوں کے بارے میں میرا کُل علم ایک عام طالب علم جیسا تھا۔ ہمیں نہ عالمی میڈیا کا کوئی واضح تصور تھا، نہ ہر خبر کی طاقت کے بارے میں گہرائی سے جانتے تھے، اور نہ نامور صحافیوں کے بارے میں کوئی وسیع معلومات تھیں۔ البتہ صحافت کے میدان میں اترنے کی ایک سرشاری ضرور تھی۔ میں ذاتی طور پر اپنے دور کے دو صحافیوں اور ایک صحافتی ادارے کو اُس وقت بھی آئیڈیالائز کرتا تھا، اور آج بھی میری ذہنی کیفیت تقریباً یہی ہے۔ یہ دو صحافی جناب عبدالکریم آغا شورش کاشمیری اور محمد صلاح الدین تھے، جن کے ساتھ کام کرنے کا شوق دماغ پر سوار تھا، جبکہ تیسرا ادارہ نوائے وقت تھا۔ بدقسمتی سے مجھے یہ تینوں مواقع میسر نہ آسکے جس کا آج بھی قلق ہے۔ شورش کاشمیری کی خطیبانہ تحریریں، صلاح الدین کا اسلوبِ تحریر، اور دونوں کی جرأتِ رندانہ بے طرح متاثر کرتی تھی۔ نوائے وقت کی نظریاتی اساس اور آزادیِ اظہار کے لیے جرأت و استقامت ہمارے جوان جذبوں کے لیے مہمیز کا کام کرتی تھی۔ آغا شورش کے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘، صلاح الدین کے روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور نوائے وقت کا میں مستقل قاری تھا۔ شعبۂ صحافت میں بہترین اساتذہ کی ٹیم جناب ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی سربراہی میں کام کرتی تھی، جن میں پروفیسر مسکین علی حجازی، پروفیسر وارث میر، پروفیسر مہدی حسن، اور پروفیسر شفیق جالندھری شامل تھے۔ ڈاکٹر روشن آرا رائو ریسرچ اسکالر تھیں۔ جس روز یونیورسٹی میں ہمارا پہلا دن تھا اُسی روز ڈاکٹر اے آر خالد بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ صحافت سے منسلک ہوئے کیا۔ انہوں نے ہماری ہی کلاس سے اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ ہمیں نیوز ایڈیٹنگ کا مضمون پڑھاتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آغا شورش کاشمیری کی بیٹی صوفیہ شورش بھی بطور ریسرچ اسکالر شعبے میں آگئی تھیں۔ ان ماہر، محنتی اور شفیق اساتذہ کے علاوہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات سے وابستہ نامور صحافی بطور وزیٹنگ پروفیسر لیکچر دینے آتے تھے، جن میں جناب ایم ارشد، فاروق نثار، جی ایم نقاش، رفیق گورائیہ، احمد عزیز ضیا، ایم یوسف، میڈم نائلہ عزیز جیسی نابغۂ روزگار شخصیات شامل تھیں۔
ہم سالِ آخر میں پہنچے (اُس زمانے میں سمسٹر سسٹم نہیں تھا) تو میڈیا مینجمنٹ کا مضمون پڑھانے کے لیے جناب عارف نظامی تشریف لائے۔ بانیِ نوائے وقت حمید نظامی کے بیٹے، روزنامہ نوائے وقت کے انتظامی و ادارتی ستون، اور نامور صحافی… وجیہ، بارعب، خوش شکل اور خوش لباس عارف نظامی صاحب ہمیشہ بروقت کلاس میں آجاتے۔ وہ صبح سب سے پہلے پیریڈ لیتے، اور کلاس ختم کرتے ہی تیزی سے شعبۂ صحافت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے نکل جاتے۔ انہیں بہت کم کسی استاد کے کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ کلاس میں داخل ہوتے ہی نوٹس کی مدد سے اپنا لیکچر دیتے جو زیادہ تر انگریزی میں ہوتا۔ لیکچر کے دوران ایک آدھ سوال کا جواب دیتے، اور لیکچر کے سوا ہر قسم کے سوالات کی حوصلہ شکنی کرتے۔ آخر میں حاضری لگاتے ہوئے، اور رجسٹر چاچا شریف کے حوالے کرکے دفتر کے لیے روانہ ہوجاتے، جہاں انہیں جاتے ہی ایک آدھ میٹنگ بھگتنا ہوتی، اور پھر سارا دن اخبار کے انتظامی، ادارتی اور پیشہ ورانہ فرائض نمٹانا ہوتے۔ عارف نظامی طلبہ و طالبات کے ساتھ زیادہ گھلنے ملنے سے گریز کرتے۔ ان کی مارکنگ کا انداز بھی تھوڑا سخت تھا۔
ہمارے جو عامل صحافی شعبہ صحافت کے طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہیں اُن میں سے اکثر کلاس میں صرف اپنی خبر، مضمون، کالم یا اداریے پر بات کرکے پیریڈ مکمل کرلیتے ہیں۔ ایک کالم نگار اپنے کالم کی فوٹو کاپیاں کلاس میں تقسیم کرکے بچوں کو اپنا کالم پڑھنے پر مجبور کرتے، اور اس پر کچھ بات کرکے کلاس ختم کردیتے۔ موصوف نے پورا سمسٹر بلکہ کئی سمسٹر اسی طرح گزار دیئے۔ اس کے برعکس عارف نظامی نہ کبھی اپنی خبر پر بات کرتے، نہ کالم یا اداریے پر۔ وہ اپنے اداریے کے بارے میں اور ملکی سیاست پر بھی کلاس میں بات کرنے سے گریز کرتے۔
میں صحافت کی ڈگری لے کر نکلا تو اپنے ذہنی پس منظر کے باعث چٹان، جسارت، یا نوائے وقت میں کام کرنا چاہتا تھا۔ جسارت کے لیے کراچی جانا پڑتا جو میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ چٹان میں برادرم مسعود شورش نے مجھے 500 روپے ماہوار پر رکھ لیا، اور اگلے ماہ سے آنے کا کہہ دیا۔ اُن ہی دنوں میں اپنی خواہش پر جناب مجید نظامی سے ملا۔ انہوں نے مجھے جناب عارف نظامی کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے مختصر سے سوال جواب کے بعد گارڈین کی ایک خبر ترجمہ کرنے کے لیے دی، جو میں نے اُن کے کمرے میں بیٹھے بیٹھے ترجمہ کرکے اُن کے حوالے کردی۔ انہوں نے چند روز بعد اس سلسلے میں اطلاع کرنے کو کہا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ شاید دوسرے یا تیسرے روز ہی استادِ محترم جناب ایم ارشد مجھے اپنے ساتھ روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر لے کر آئے۔ وہ جنگ لاہور کے پہلے چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔ ان کے حکم پر میں جنگ سے منسلک ہو گیا، جہاں سے 26 سال بعد ہی باہر آسکا۔ کچھ عرصے بعد عارف نظامی صاحب کسی تقریب میں ملے تو انہوں نے پوچھا کہ تم اپنا نتیجہ معلوم کرنے نہیں آئے؟ انہیں بتایا کہ میں نے جنگ جوائن کرلیا ہے۔ اس پر انہوں نے فراخ دلی سے کہاکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔
حمید نظامی جیسے بڑے صحافی کے بیٹے اور نوائے وقت کے مالکان میں شامل ہونے کے باوجود جناب عارف نظامی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اپنے ہی اخبار میں اپرنٹس ،سب ایڈیٹر اور ٹرینی رپورٹر کے طور پر کیا۔ وہ عام رپورٹر کی طرح خبروں کے لیے بھاگ دوڑ کرتے، اور عام سب ایڈیٹر کی طرح خبروں کی کاٹ چھانٹ کرتے۔ انہوں نے کبھی اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی، لیکن ان کی اسی ریاضت نے انہیں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک باخبر اور معتبر صحافی بنائے رکھا۔ اپرنٹس شپ کے دوران اُن کے ساتھ بعض ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جن میں ایک واقعہ تو خاصا تکلیف دہ تھا، مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ وہ اس ملک کے اُن معدودے چند صحافیوں میں شامل تھے جو مالکِ اخبار، مالکانِ اخبارات کی تنظیم اے پی این ایس، اور کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر اور وفاقی وزیر اطلاعات ہونے کے باوجود ہمیشہ متحرک اورفعال صحافی رہے۔ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کی صحافت میں نام کمایا۔ رپورٹر، ایڈیٹر، اداریہ نویس اور ایگزیکٹو ایڈیٹر (انتظامی ایڈیٹر) کے طور پر بھرپور انداز میں کام کیا۔ پرنٹ کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی صحافت بھی کی۔ مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کے تجزیے حکمرانوں اور عوام دونوں کی رہنمائی کا باعث بنتے رہے۔ ان کے قلم سے سینکڑوں Exclusive Stories اور زبان سے سیکڑوں ”بریکنگ نیوز“ اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنیں۔ بے نظیر کے پہلے دورِ حکومت کے خاتمے کی تاریخ اور دن کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے بشریٰ بی بی سے نکاح جیسی سیکڑوں خبریں اُن ہی کے ذریعے عوام تک پہنچیں۔ ان کے تعلقات کا حلقہ وسیع، خبروں کے ذرائع قابلِ اعتبار، اور مشاہدہ عمیق تھا۔ وہ متعدد بار اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر، ویج بورڈ ایوارڈ اور پریس کونسل کے رکن، اقبال اکیڈمی کے چیئرمین اور نگراں وزیر اطلاعات رہے۔ پنجاب یونیورسٹی جرنلزم اسٹوڈنٹس ایلومنائی ایسوسی ایشن کے انتخاب میں وہ صدارت کے ایک مضبوط امیدوار تھے، لیکن ازخود رضاکارانہ طور پر حامد میر کے حق میں دست بردار ہوگئے۔
عارف نظامی اگرچہ ایک ایسے نظریاتی اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے جو تحریکِ پاکستان کا پُرجوش ترجمان… پاکستان، اسلام اور نظریۂ پاکستان کا علَم بردار تھا۔ وہ تمام عمر اس پر کاربند رہے۔ ذاتی طور پر وہ ترقی پسند اور لبرل نظریات کے حامی اور جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے وکیل تھے۔ اُن کے اور اُن کے چچا مجید نظامی مرحوم کے درمیان نظریات اور خیالات کے اعتبار سے ایک فاصلہ موجود تھا۔ چنانچہ جب انہیں انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ نکالنے کا موقع ملا تو اس اخبار اور نوائے وقت کی پالیسی میں ایک فرق سب نے محسوس کیا۔ مجید نظامی سے اختلاف کے بعد انہوں نے اپنا اخبار ’’پاکستان ٹوڈے‘‘ نکالا، جو بوجوہ نہ چل سکا۔ اس دوران وہ روزنامہ جنگ اور 92 میں کالم لکھتے رہے، اور 92 چینل پر ہی آخری وقت تک تجزیاتی پروگرام کرتے رہے۔
ذاتی طور پر میرے اور اُن کے درمیان ایک دلچسپ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی جب میں ایک قومی اخبار میں کام کررہا تھا، اور اس اخبار کے ہتھے نوائے وقت کا دو روز بعد شائع ہونے والا سنڈے میگزین چڑھ گیا۔ مجھے اس مسروقہ میگزین میں سے ایک اہم اسٹوری بناکر اپنے اخبار میں شائع کرنے کا حکم ملا، جس کی میں نے فوراً تعمیل کردی۔ اگلے روز عارف نظامی نے تھانہ سول لائنز میں مقدمہ درج کرادیا۔ جاننے والے دوست اُن دنوں مجھے ڈراتے کہ اس مقدمے میں تمہاری گرفتاری ہوسکتی ہے، مگر عارف نظامی کی عدم پیروی کے باعث ایسا نہ ہوا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ایک شاگرد اپنے استاد اور مدعی کے سامنے ایک ملزم کے طور پر کھڑا ہوتا۔ وہ جہاں کہیں ملتے، محبت سے ملتے۔ ان کی موت صحافتی برادری کے ساتھ ساتھ میرے لیے بطور شاگرد ایک ذاتی صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ نوائے وقت ورکرز یونین نے ان کی موت پر اپنے تعزیتی پیغام میں انہیں غریب اور لاچار ورکرز کا ساتھی قرار دیا ہے جو انہیں دیگر مالکانِ اخبارات سے ممتاز کرتے ہوئے ان کی بخشش کا ذریعہ ہے۔
nn
بقیہ:آزاد کشمیر کے انتخابات/سلمان عابد
ہے کہ کوئی بھی ہارنے والا امیدوار یا جماعت انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تو انتخابی دھاندلی کا ماتم بے جا ہے، کیونکہ بہت سی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر، جبکہ پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ انتخابی اصلاحات واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اور اگر حکومت، حزبِ اختلاف اور الیکشن کمیشن نے ان معاملات پر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو انتخابی دھاندلی کی گونج سے ہم باہر نہیں نکل سکیں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں بداعتمادی بہت زیادہ ہے، حالانکہ وزیراعظم سمیت وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری حزبِ اختلاف کو انتخابی اصلاحات کی مسلسل دعوت دے رہے ہیں، لیکن معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ گیا ہے۔
بہت سے سیاسی تجزیہ نگار آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج کو بنیاد بناکر پاکستان میں 2023ء کے انتخابات کی منظرکشی کررہے ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے عام انتخابات کا موازنہ درست نہیں، اور نہ ہی ان انتخابات کو بنیاد بناکر پاکستان کا، مستقبل کا سیاسی یا انتخابی منظر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نے اُسے اپنے سیاسی مخالفین پر برتری دی ہے، اور اس کا یقینی طور پر سیاسی فریقین میں اثر بھی ہوگا، اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پی ٹی آئی کمزور ہوگئی ہے۔
پاکستان کے آئندہ عام انتخابات سے قبل بہت کچھ بدلنا ہے، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس برس اور اگلے برس پی ٹی آئی اپنی گورننس کو عام آدمی کے مفاد کی سیاست سے کیسے جوڑ پاتی ہے۔ اصل مقابلہ پنجاب میں ہی ہوگا جہاں مسلم لیگ (ن) اورپی ٹی آئی میں ایک بڑی سیاسی جنگ ہوگی جو مستقبل کی حکمرانی کا بھی فیصلہ کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کو اب اپنے سیاسی کارڈ درست طور پر کھیلنا ہوں گے، کیونکہ اس کی مزاحمتی سیاست کا جادو اپنا رنگ نہیں دکھا سکا، اور خود شہبازشریف کا بھی یہ امتحان ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں پارٹی کی انتخابی سیاست کو کیسے بچا سکیں گے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے، اور ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ اس بیانیے کے ساتھ ہم ووٹرز اور طاقت کے مراکز میں قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔
اہم سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ اگرچہ سردار الیاس تنویر اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری کا نام گونج رہا ہے، لیکن ممکن ہے کوئی نیا نام سامنے آجائے، اور وزیراعظم عمران خان اس طرح کے فیصلے کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔