دھنیا جس کو طبی زبان میں کشنیز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، انگریزی میںکوری اینڈر (Coriander) کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس کا تعلق نباتاتی لحاظ سے فیملی ام بیلی فیری (Umbelliferae) سے ہے، اور اس کا نباتاتی نام کوری اینڈرم سیٹی وم (Coriandrum Sativum) ہے۔ دھنیا کو ادویاتی اور غذائی طور پر 5000 قبل از مسیح سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس پودے کے پتّے اور بیج دونوں استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ یہ سالانہ پودا ہے۔ اس کے بیج ہلکے زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ جب یہ پک جاتے ہیں تو اس کی خوشبو مصالحہ جاتی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ اس پودے کو صدیوں سے بطور دوا اور غذا استعمال کیا جارہا ہے۔
دھنیا سب سے پرانا پودا ہے جو بطور مصالحہ استعمال کیا گیا۔ اس کو یونانی اور رومن کلچر میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسے گوشت محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پرانے اطبا میں بقراط اس کو بطور دوا استعمال کرواتے تھے۔
روس، انڈیا، مراکو اور ہالینڈ میں تجارتی پیمانے پر اس کی کاشت کرتے ہیں۔ اسے بطور سلاد استعمال کرنے کا بہت پرانا رجحان ہے۔ اس پودے کو مندرجہ ذیل چار حالتوں میں استعمال میں لایا جاتا ہے۔ تیل یا لیکویڈ، تازہ پودا، خشک بیج اور پتے۔ رومن طبیب پلانی دی ایلڈر (Pliny The Elder) نے بھی بیجوں کو بطور دوا استعمال کیا ہے۔ رومیوں نے اس کو برطانیہ میں متعارف کروایا۔
غذا کے لحاظ سے اس کو دنیا کی بہت اچھی غذائوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دھنیا کے بیجوں سے تیل عملِ کشید کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، جس کو بطور خوشبوئی علاج (Aroma Therapy) استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل بہترین طریقہ Critical Extraction ہے۔ یہ تیل غیر زہریلا، خارش نہ پیدا کرنے والا خیال کیا جاتا ہے۔ بعض حالتوں میں حساس جلد پر خارش پیدا کرسکتا ہے۔ اس کو بطور خوشبوئی علاج مندرجہ ذیل امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خالص تیل استعمال کرنا ضروری ہے: ذہنی محرک، تھکاوٹ، سر درد، آدھے سر کا درد، ذہنی تنائو (Depression) اور اعصابی درد (Neuralgia)۔
اس کی خوشبو کیڑے وغیرہ کو دور بھگاتی ہے۔ بعض حالتوں میں دل کی دھڑکن کو تیز کرتی ہے۔ دافع تشنج خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ اس کا تیل زیادہ پسینہ آنے کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دھنیا کا تیل گرم، خوشبودار، رنگت سفید اور Viscosity پانی کے برابر ہے۔
اندرونی طور پر یہ تیل دافع درد، دافع تکسید، مشتہی (بھوک لگانے والا)، دافع درد، محلل اورام، دافع تشنج، لبلبہ کے فعل کو مدد دیتا ہے۔ اینٹی بیکٹیریل، دافع پھپھوندی، کرم شکم، چکنائی کو توڑتا، تقویت دیتا، محرک دورانِ خون و قلب، مسکن، ٹانک، محرک نظام انہضام، محلل ریاح، مقوی معدہ، محرک، شکر کی مقدار کو کم کرتا ہے۔
Galenical Preparation:
چین، انڈیا، یونان اور یورپ میں دھنیا کے بیجوں کو بطور Carminative، معدے کے درد کو دور کرنے اور نظام انہضام بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ آیورویدک سسٹم آف میڈیسن میں اس کو Carway اور الائچی کے ساتھ ملاکر استعمال کیا جاتا ہے، اور یورپ میں اسے سونف سوئے میں ملاکر استعمال کرنے کا رواج ہے۔
جرمن میں دھنیا کے بیجوں کو ایک ادویاتی چائے کے طور استعمال کیا جاتا ہے اور یہ محلل ریاح اور مسہل ادویہ میں شمار کی جاتی ہے۔ دھنیا کے الکحل والے محلول کو قطروں کی شکل میں استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جرمن دھنیا کے معیار کو اس کے اندر تیل کی مقدار سے جانچتے ہیں۔ یعنی ان کے مطابق تیل کی مقدار کم از کم 0.5 فیصد ہونی چاہیے۔
دھنیا کے بیجوں کی ادویاتی خصوصیات:
ذیابیطس میں مفید ہیں، سوزش کو ختم کرتے ہیں، خون میں کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں، اینٹی تکسیدی، اینٹی بیکٹیریل، عملِ انہضام کی خرابی، ماہواری کی زیادتی، مہاسوں کے خاتمے کے لیے مخرج بلغم، نشہ آور، محرک، ہاضم، بدبودار سانس کو ٹھیک کرنے والا، کھانسی، چھاتی کے درد، بھوک کم لگنا، انفلوائنزا۔
سبز دھنیا کی خصوصیات:
دھنیا کے پتوں کو مزاج کے لحاظ سے سرد خشک گردانا گیا ہے۔ معدہ کو قوت دیتا ہے، پیاس بجھتی ہے، قے رک جاتی ہے، سوزش کم کرتاہے، صفرا کو تسکین ہوتی ہے، پیٹ کی بادی مٹاتا ہے، پیشاب آور ہے، تازہ پتوں سے بڑی اچھی خوشبو آتی ہے، تازہ پتوں میں 0.012 فیصد اوگزالک ایسڈ (Oxalic Acid) اور 0.172 فیصد کیلشیم ہوتا ہے۔ سبز دھنیا کو صرف چند ہفتوں تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ دھنیا کے پتوں میں بھی بہت کم مقدار تیل کی ہوتی ہے، جس کو فراری تیل کہتے ہیں اور اس کی وجہ سے اس میں خوشبو پائی جاتی ہے۔
دھنیا کا بیرونی استعمال
سر درد، منہ اور گلے کی خرابی، بدبودار سانس، وضع حمل کے بعد کی پیچیدگیاں۔
اطریفل کشنیز کی خصوصیات:
نزلہ حار (گرمی سے نزلہ) کے لیے
٭گرمی کے باعث سر چکرانے، نزلہ اور آشوبِ چشم میں مفید ہے۔
٭ تبخیر معدہ اور اس سے پیدا شدہ سر درد، آنکھ کے درد اور کان کے درد میں مفید ہے۔