انسان کی اصل

انسان نے ہزاروں سال اپنی اصل پر غور کیا ہے۔ دورِ جدید کی آمد تک انسانی علم کا واحد ذریعہ مذہبی تعلیمات اور فلسفے کا سلسلہ رہا ہے۔ دورِ جدید میں مختلف اقسام کے ڈیٹا کی آمد کے بعد اُسے اپنی اصل کا مسئلہ سمجھنے کے لیے نیا زاویہ میسر آیا ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جب ’’عقل‘‘ اور سائنس کی کامیابیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ انسانی ذہانت کو درپیش سارے سوالوں کے منطقی جواب دے دیے گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح، انسان کی اصل کا مسئلہ بھی ابتدائی طور پر یوں پیش کیا گیا ہے جیسے ’’سیکولرعلم‘‘ سے حل کرلیا گیا ہو۔ ڈارون کی “On the Origin of Species” (اصل الانواع) جو 1859ء میں انگلینڈ میں منظرعام پر آئی، بہت کامیاب ہوئی، لوگوں میں بڑی مقبول ہوئی۔ یہ واضح تھا کہ انسان کی اصل پر ایک ایسے نظریے نے جس کی حیثیت تجاویز سے فقط کچھ ہی بڑھ کر تھی، گہرا اثر ڈالا تھا۔ دینی تعلیمات کے خلاف دشمنی کی فضا پہلے ہی ہموار ہوچکی تھی، اُس پر ڈارون کا نظریہ لوگوں کو فیصلہ کُن دلیل معلوم ہوئی: اُس منطق کے ذریعے، جو معقول سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لی گئی، یہ فرض کرلیا گیا کہ انسان بندروں کی نسل سے ہے۔
بات ڈارون کے نظریے سے آگے نکل گئی، ان لوگوں نے حیثیت سے ماورا اندازے لگائے، یہ کہنے لگے کہ کیونکہ دیگر انواع بھی لازماً مختلف انواع سے موجودہ حالتوں تک پہنچی ہیں، اس لیے انسان بھی جانوروں کی دنیا کے ایک سلسلے کا نتیجہ ہے۔
انسان کی اصل پر یہ بیان اُن کے لیے گہرا صدمہ ثابت ہوا جو انجیلِ مقدس کی تعلیمات پر ایمان رکھتے تھے، اُن کا ایمان تھا کہ انسان کو خدا نے خلق کیا ہے۔ مزید برآں، انواع کے ارتقا کا خیال براہِ راست انجیل مقدس کے الفاظ سے متضاد تھا، جو واضح طور پر کہتے تھے کہ انواع غیر تغیر پذیرہیں۔ سیکولر نظریہ اور دینی تعلیمات ہم آہنگ نہیں تھے، اور اس محاذ آرائی کے دوررس اثرات پڑے۔ یہ کہا گیا کہ اُس وقت تک انجیل مقدس کو ’’قولِ خدا‘‘ باور کیا گیا تھا، جوقطعی غلط تھا۔ لوگوں کا اعتماد دینی تعلیمات پرنہ رہا، بہت سوں کے لیے یہ انجیل کے پورے متن کا استرداد تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈارون کے نظریے نے قدم جما لیے۔
سیکولر کلیہ اور دینی تعلیمات کے اس ٹکراؤ کے انتہائی دوررس نتائج سامنے آئے۔ اُس وقت تک انجیل کو ’’وحیِ الٰہی‘‘ سمجھا جاتا تھا، اور یہ بات غلط ثابت ہوئی تھی۔ اب اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا، اور بہت سوں کے لیے اس کا مطلب انجیل مقدس کے سارے متن کا رد تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارتقا کے نظریے نے زمین میں جڑیں پکڑلیں اور سائنسی ڈیٹا نے خدا پر ایمان متزلزل کیا۔
ایک نظر میں یہ دلیل منطقی معلوم ہوتی ہے، مگر آج یہ بے جان ہوچکی ہے، کیونکہ انجیل کے متون کے بارے میں یہ اب معلوم حقائق ہیں کہ یہ مستند نہیں ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ حقیقت عام ہوئی کہ انجیل مقدس کے متن فانی انسانوں نے مختلف اوقات میں لکھے تھے، اور یہ متون اپنے وقتوں کے نظریات کے زیراثر تھے۔ ان میں اپنے وقتوں کی روایات جھلکتی تھیں۔ جن ادوار میں بیشتر متن لکھا گیا، وہ دیو مالائیت اور اوہام پرستی کے تھے۔ مسیحی عالمJean Guitton (1978) کہتا ہے کہ ’’انجیل مقدس کی سائنسی غلطیاں انسانی غلطیاں ہیں۔ یہ انسان بالکل بچوں کی طرح تھے، سائنس سے یکسر نابلد۔‘‘ ظاہر ہے، اس سچائی کے سامنے آنے کے بعد انجیل کے متون پر زاویۂ نگاہ وہ نہیں رہا جو کبھی ذہنوں پر غالب تھا۔
اسی طرح چھٹی صدی قبل مسیح میں، وہ جسے کتاب پیدائش کہا جاتا ہے، اور جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لکھی ہے، دراصل چھٹی صدی قبل مسیح کے یہودی علما کا کام تھا۔ یہ سب جاننے کے بعد اس بات کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ دینی تعلیمات اور سائنس میں بالادستی یا مخاصمت تراشی جائے۔ لہٰذا مذہب اور سائنس کی قدیم دشمنی کا تاثر اب قابلِ جواز نہیں رہا۔
اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ بہت سے سائنس دان مابعد الطبیعات حقیقت کو اہمیت نہیں دیتے، اور اُن کا یہ رویہ گزشتہ چند دہائیوں سے زیادہ سخت ہوگیا ہے (وہ یقین رکھتے ہیں): سائنس ہر چیز کی شاہ کلید ہے، جلد یا بدیر یہ ہم پر وہ حقائق آشکار کردے گی جو زندگی کی اصل کی مکمل تصویر واضح کردیں گے۔ زندہ اجسام کی تشکیل اور کارگزاری ہم پرنمایاں ہوجائے گی۔ انسان کی اصل کی بنیادی اور پیچیدہ ترین گتھیاں بھی سلجھا لی جائیں گی۔
اس نکتہ نظر کے مطابق ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آیا سائنسی ترقی نے مذہبی تعلیمات پر برتری حاصل نہیں کرلی؟ جدید سائنسی دریافتوں نے بلاشبہ متاثر کیا ہے، خاص طور پر مولیکیولر بائیولوجی اور علم جینیات میں، کہ جب ان شعبوں میں اکتشافات نے ہمیں حیرت انگیز طور پر سیلولر فزیالوجی میں ٹھیک ٹھیک درک دیا ہے۔ نئے سائنسی محققین کا جوش قابلِ فہم ہے۔ یہ بھی صاف ہے کہ وہ نئی دریافت اور عمل کے لیے کس قدر مواقع دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ انھوں نے مستقبل کے انسان سے متعلق بڑے منصوبے تشکیل دے دیے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ انسان کی خاصیتوں کو مرضی کی ’سمت‘ دی جاسکے گی۔ آج یہ بات کلیاتی طور پر ایک امکان ہے۔ بہت سے سائنسی محققین جو جینیاتی تجربات کررہے ہیں، بلاشبہ ان نتائج کے امکانات پرانتہائی متجسس ہیں، جو شاید حقیقتیں بن کر سامنے آجائیں۔
اسی طرح بہت سے سائنس دان بڑے پُراعتماد ہیں کہ ایک دن زندہ اجسام لیبارٹری میں تیار کیے جارہے ہوں گے۔ ان کے کام کی عظمت یہ ہے کہ انتہائی اہمیت کا بہت بڑا ڈیٹا ہمیں مہیا کردیا ہے کہ جو زندگی کے بارے میں ہمارے علم میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔
مگر یہ لوگ شدید غلطی پر ہیں، کہ جب یہ تصور کرتے ہیں کہ اپنی لیبارٹری سے اور صرف اپنی لیبارٹری سے (اضافی ریاضیاتی مطالعات کے ساتھ) زندگی کی اصل تک پہنچ پائیں گے۔ حقیقت میں آدمی کی اصل اور ارتقا کا پہلو انتہائی درجے کا پیچیدہ معاملہ ہے: یہ بہت سے قواعد کی رو سے قابلِ استفسار ہے کہ ایک آدمی ضخیم ڈیٹا، مفروضات، اور اُن سے حاصل ہونے والے نتائج میں باہم ٹکراؤ کی کوئی قابلِ فہم صورت پیدا کرسکتا ہے۔ ان حالات میں جب ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس محدود مطالعے سے حاصل نتیجہ ہمیں درپیش سوال کا واضح جواب مہیا کرتا ہے، یقیناً یہ اشتباہ پیدا کرتا ہے۔ واضح طور پر ایک نظریے کے لیے اس قسم کا جوش، جو محض ایک مفروضے یا طے شدہ نتیجے پر تشکیل دیا گیا ہو، کیسے اس موضوع پر ہمارے علم کا احاطہ کرسکتا ہے؟
چند محققین گمراہ کُن خواہشات کے زیراثر اس قسم کے نظریات کا دفاع کرتے محسوس ہوتے ہیں، جن کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حقیقت معروف ماہر حیوانیات P.P. Grass، جوتیس سال Sorbonne میں Chair of Evolutionary Studies رہے ہیں، کتاب Man Stands Accused میں neo Darwinismپر کڑی تنقید کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ارتقا پرہمارا علم بڑے تعطل کا شکار ہے، اور اس کی کوئی درست وضاحت موجود نہیں ہے۔ جین میں موجود بے ربط تغیرات ارتقا میں کوئی منظم کردار ادا نہیں کرتے۔ انسان کے معاملے میں دماغ کی ترقی جواسّی ہزار نسلوں میں ہوئی، نیو ڈارونزم کی اصطلاحوں میں ناقابلِ فہم ہے۔ انسانی ارتقا میں ایک عظیم اسرار پیدائشی رجحانات کی عدم توضیح ہے، ایک ایسی خاصیت جوبندروں میں باقی اور سرگرم ہے۔ حیوانات اورانسانی ارتقا کا قدم بہ قدم موازنہ ممکن نہیں۔
اس سب کے باوجود ہمیں مسلسل ایسا غلط ڈیٹا مہیا کیا جاتا ہے جس سے یکسر متضاد کلیہ کی تائید سامنے آسکے۔ کچھ عرصہ پرانی بات ہے، میں نے ایک انٹرویو سنا، یہ ایک تحقیقاتی ادارے کے ایک اہم رکن کا تھا۔ یہ انٹرویو ایک مرکزی خبر پروگرام (main news) کے طور پر نشر ہوا، اور ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اسے سنا۔ دورانِ انٹرویو مہمان معتبر سائنس دان نے بڑے محکم لہجے میں یہ کہا کہ تجربوں سے ثابت ہوچکا کہ انسان اور بندر میں تعلق ہے، اور ایسا ہائبرڈ جین کی تخلیق کے مشاہدے میں سامنے آیا ہے: ایک ایسا نیا کیمیائی مرکب مالیکیول کی سطح پر تشکیل دیا گیا ہے، جس میں آدمی اور بندر دونوں کے اجزا شامل کیے گئے ہیں۔
یہ نظری طور پر ہوسکتا ہے قابلِ فہم معلوم ہوتا ہو، مگر یہ کچھ بھی سامنے نہیں لاتا۔ اس کا نقص اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ جین کو ایسے پیغام بر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو معلومات سمیت نئی زندہ بافت (tissue)خلق کرتا ہے۔ یہ وہ بیان ہے جس کی تائید میں شمہ بھر بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جب سنسنی خیز مگر ناقص معلومات لوگوں کے ذہنوں پر چھا جاتی ہیں، جبکہ محتاط محقق نتائج اور وہ تحفظات جو حقائق کے وجود پرسوال اٹھا رہے ہوں، نامعلوم ہی رہتے ہیں۔
جدید سائنس کا علم ہمارے سامنے یقین اور مفروضات دونوں لاتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے نظریات کا استرداد بھی کرتا ہے جو درست ظاہر نہ ہوں۔ اس ضمن میں مقدس صحیفوں پر گفتگوکا مقصد کیا ہے؟
سب سے پہلے وہ جو اپنی سائنسی معلومات کو ایک چیز اور مذہبی عقائد کو دوسری چیز سمجھتے ہیں، یہ وہ گروہ ہے جو حالیہ دہائیوں میں خاصا نمایاں ہوا ہے۔ جبکہ ملحد کے لیے مابعدالطبیعات کا ذکر بے محل معلوم ہوتا ہے، یہاں تک کہ اُن معاملات میں بھی یہ عبث معلوم ہوتا ہے جہاں سائنس جینیاتی کوڈ کے معموں سے ٹکراتی ہے۔ مابعد الطبیعاتی اصطلاحات میں کسی بھی سوال کی تحقیق ملحدین کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اگرچہ انہیںکوئی متبادل جواب یا حل سُجھائی بھی نہ دے رہا ہو۔
سائنس اور مذہب کی علیحدگی کا وجود جدید ذہن کی فکر پرکئی عقلی راستوں سے براجمان ہے۔ یہ ’’علیحدگی پسند‘‘ وہ مذہبی بھی ہیں جو ہر وقت یہ خوف پال کر رکھتے ہیں کہ اگر سائنس اُن کے مذہبی عقائد پر سوال اٹھائے اور موازنہ کرے تو یہ خطرناک بات ہے۔
عیسائی ملکوں میں قرآن کے بارے میں زمانوں سے غلط تصورات عام رہے ہیں۔ تاریخی مغالطے اور قرآن کے سیاق و سباق میں، یہ تصورات آج بھی قائم ہیں۔ قرآن میں آدمی کی اصل پر موجود ڈیٹا کا بیان خود انسان سے گفتگوکرتا نظر آتا ہے۔ آدمی کی اصل پر یہ بیان بلاشبہ میرے بہت سے لوگوں (اہلِ مغرب) کو ششدر کردینے والا ہے، جیسا کہ اس نے پہلی بار مجھ کو، کہ جب یہ پہلی بار منکشف ہوا، حیران کردیا تھا۔ انجیلی اور قرآنی متون میں موازنے کا مطالعہ اس ضمن میں مزید انکشافاتی ثابت ہوتا ہے: دونوں خدا اور خالق کی بات کرتے ہیں، مگر تخلیق کے باب میں سائنسی طور پر ناقابلِ قبول انجیلی تفصیل ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی۔ درحقیقت، قرآن آدمی کے بارے میں جو کچھ بیان کرتا ہے، وہ حیرت انگیز ہے: جس وقت قرآن نازل ہوا، انسانی علم اور اصطلاحات میں ممکن ہی نہ تھا کہ یہ بیان وجود میں آجاتا، اس کی کوئی توضیح پیش کی ہی نہیں جاسکتی۔ یہ ناممکن ہے۔ انسان کی تخلیق اور اس کے ابتدائی مراحل کے باب میں، مغرب میں قرآن کے بیان کی تفہیم بیسویں صدی میں جاکر ہوسکی ہے، کہ جب میں نے 9 نومبر1976ء کو پہلی بار فرنچ نیشنل اکیڈمی آف میڈیسن کے سامنے پیپر پیش کیا تھا، جس میں قرآن کے physiological (عضویاتی) اور embryological(جنینیاتی) ڈیٹا کی تفصیل پیش کی گئی تھی، جو ان موضوعات پرجدید دریافتوں سے چودہ صدیوں پیچھے کی حقیقت ہے۔
جب آپ فطرت کے دیگر مظاہر اور آدمی کی اصل پر قرآن کے بیان کا جائزہ لیتے ہیں، تفصیل میں جاتے ہیں، سائنس اور مذہب کی قدیم بحث پر بطور عامل عنصر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے: انیسویں صدی کے بعد سے، مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کا مخالف دکھایا گیا ہے۔ دلیل اس کی انجیل کے متون اور سائنسی حقائق میں اختلاف کو بنایا گیا ہے۔ اگر ہم سختی سے صرف حقائق پربات کریں، جب سے انجیلی متون کا انسانی ساختہ ہونا ثابت ہوچکا ہے، مذہب اور سائنس کی یہ ’’علیحدگی‘‘ اپنے معنی کھوچکی ہے۔
آدمی کے معاملے میں، اُس کی تخلیق اور اُس کی تاریخ کے ابتدائی مراحل کے بارے میں مقدس صحیفوں کے موازنے اور تقابلی مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب اور جدید سائنسی اکتشافات میں کہیں کوئی عدم مطابقت نہیں پائی جاتی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدا خود کو سائنسی طور پر ظاہر نہیں کرتا، گوکہ یہ بھی کاملاً ممکن ہے کہ اُس کی سائنسی تفہیم کی جائے۔