(محمد طارق غازی صاحب انگریزی کے مشہور صحافی ہیں۔’’عرب نیوز‘‘ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ’’مدینہ‘‘ بجنور کے مشہور مدیر حامداللہ انصاری غازی کے فرزند ہیں۔آپ کے دادا منصور غازی ریشمی رومال تحریک کے رُکن تھے۔ پردادا علی گڑھ یونیورسٹی کے پہلے ناظمِ دینیات مولانا عبداللہ انصاری تھے، اور نانا قاری محمد طیب صاحب، مہتمم مدرسۂ دیوبند تھے۔ ’فرائیڈے اسپیشل‘ کے شمارہ نمبر۳۰ (۲۳ تا۲۹ جولائی۲۰۲۱ء) میں شائع ہونے والے کالم’’غلطی ہائے مضامین‘‘ پر طارق غازی صاحب نے کینیڈا سے اپنے تاثرات ارسال کیے ہیں، جو نذرِ قارئین ہیں)
ابونثر صاحب! آپ نے اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر دہرا کر دشتِ ماضی کی راہ لی۔ اکبرؔ بے چارے کی تب کسی نے نہ سنی جب وہ ایسے شعر کہہ رہا تھا، اسے دنیا سے گزرے ۱۰۷ سال ہوچکے ہیں، اب اس کی کیا اوقات رہ گئی۔ دیکھتے دیکھتے کیا کچھ نہیں بدل گیا۔ اس کا الٰہ آباد بھی اب ’شرک برباد‘ ہوگیا۔ آگے آگے دیکھیے… آپ کے یہ فقرے دہراتا ہوں: ’’حروف و اعداد کی تبدیلی سے ذہن بھی بدل گئے۔ اب ہمیں اپنی کوئی چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ غیروں کی ہر ادا پر فریفتہ ہیں۔ شاید ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس کے اپنے لوگ اپنے عقائد، اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنے حروف اور اپنے اعداد پر آپ ہی طنز و تعریض کے تیر برساتے ہیں۔ یہ نفسیاتی اور قلبی تبدیلی دیکھ کر ہمیں اکبرؔ مرحوم کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘
اب دل خون ہوگیا۔ آنکھ خون کے آنسو بہاتی ہے مگر دنیا سے انہیں چھپاتی ہے۔ آپ نے بھی بس شعر دہرا دیا۔ اس سے آگے کی بات گناہِ کبیرہ ہے۔ زبان کھولنے کا یارا نہیں رہا۔ میں بھی مزید کچھ عرض کرنے کے بجائے اپنے ایک ناخواندہ مضمون کا ایک حصہ نقل کردیتا ہوں اگرچہ کسی توجہ کا سزاوار نہیں ہے۔ اس کے بعد کا دوسرا سچ بولنے کی ہمت کون کرے۔
یوں تو حقیقتِ الست روح کے اندروں میں ہے
قلب یقیں میں ہے مگر وہم سا کچھ گمان سا
یہ اڑھائی ارب سادہ دل سادہ لوح مسلمان اس تعلیمی فلسفے کا شکار ہیں جس کی شرح ایک جملہ میں ترکی کے سلطان عبدالحمید خان ثانی کے مخالف، یونانی ماسونی یہودی، اور نوجوان ترک/ انجمن اتحاد وترقی / کے ایک بانی لیڈر عمانویل قرہ سو(Emmanuel Karasso)[۱۸۶۲۔۱۹۳۴] نے صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl)[۱۸۶۰-۱۹۰۴]سے کی تھی کہ
’’سلطنتِ عثمانیہ کی بربادی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ترکوں کے دین کی روح کو ان کے دلوں سے نکال دو۔ اس مقصد کے لیے اوّل ان کے ذہنوں کو بدلو، پھر ان کے افکار کو بدل دو۔ اس قوم کو دین سے غافل کردو، اس کے پیروں تلے سے اس کی دینی علمی اساس کھینچ لو تو اس پر قابو پانا مشکل نہیں ہوگا۔ [سلطان] عبدالحمید سے ہماری دشمنی صرف اس لیے ہے کہ اس نے مسلمانوں کو متحد کررکھا ہے‘‘۔
آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کو ختم ہوئے ایک صدی گزر چکی ہے، اور دنیائے اسلام کہلانے والی دنیا کے اور ہندستان کے مسلمان علمی، تہذیبی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی طور پر تتربتر ہیں۔ دنیا کے مسلمانوں پر قابو پالیا گیا ہے۔
کبھی ایک اور شعر کہا تھا۔ سن لیجیے، کسی کے کام تو آئے گا نہیں:
نئی تعلیم کا سب فیض ہے یہ
یقیں سے آگئے ہم پھر گماں تک
بندہ ٔبے مقدار
محمد طارق غازی(کینیڈا)