بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں طویل عرصے سے یہ بحث چل رہی تھی کہ سوویت یونین کا فلسفہ سوشلزم مستقبل کا خواب ہے، پوری دنیا میں کمیونزم پھیل جائے گا اور ایک بین الاقوامی سوشلسٹ ریاست قائم ہوجائے گی۔ ہیگل کے فلسفے سے متاثر لینن نے سابقہ روس میں انقلاب برپا کیا اور روس پر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد سوشلزم کے فلسفے کو رائج کردیا اور اپنی ہمسایہ مسلم ریاستوں کو آہستہ آہستہ ہڑپ کرلیا، اور نیا نام سوویت یونین رکھ لیا۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے اپنے فلسفے کو منظم طریقے سے افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پھیلانے کا منصوبہ بنالیا اور مختلف ملکوں کی فوجوں میں نفوذ کیا، اور فوجی بغاوتوں کے ذریعے حکومتوں کے تختے الٹ دیے۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ہم اس کا مطالعہ گزشتہ تاریخ میں کرسکتے ہیں۔ مشرق بعید میں بھی یہ کام کیا گیا۔ سوویت یونین کے بعد چین کے رہنما مائوزے تنگ نے چین میں لانگ مارچ کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور اقتدار ان کے ہاتھ میں آگیا۔ چین نے بھی افریقہ میں کمیونزم کے حوالے سے کام کیا اور بعض حکومتوں کے تختے الٹے گئے اور وہاں چین نواز سوشلسٹ ریاستیں قائم ہوگئیں۔ چین نے سب سے منظم کام انڈونیشیا میں کیا۔ چین کے بعد سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی انڈونیشیا کی تھی۔ سوئیکارنو نے انڈونیشیا میں بادشاہت ختم کی اور اقتدار پر قابض ہوگیا۔ انڈونیشیا میں سوشلسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد 22 لاکھ تھی، اور سوئیکارنو کے دورِ حکومت میں اقتدار پر کمیونسٹ پارٹی نے قبضے کے لیے اچانک آغاز کیا۔ انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی بھی منظم تھی، اور اس کے اثرات بھی فوج میں تھے۔ طلبہ کے اندر مضبوط قوت موجود تھی۔ کمیونسٹ پارٹی نے حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس کی اطلاع مسجومی پارٹی کو ہوگئی اور فوج کے اندر بھی خبر ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ کمیونسٹ پارٹی اقتدار پر قبضہ کرتی، اسلامی پارٹی اور فوج کے اندر حامی جنرلوں نے بغاوت کردی اور راتوں رات چین نواز پارٹی کے دفتر پر ہلہ بول دیا، اس میں اسلامی ذہن کے طلبہ نے بھی ساتھ دیا، اور فوجی جنرل سوہارتو نے سوئیکارنو کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ چین نواز سوشلسٹ پارٹی اور مسجومی پارٹی کے ورکروں اور طلبہ نے مسلح جھڑپوں میں حصہ لیا۔ چند دنوں میں لاکھوں لوگ قتل کیے گئے، کمیونسٹ پارٹی کے اہم لیڈروں کو مار دیا گیا۔ یہ تاریخ کا ایک خونیں باب تھا۔ چین کو اس کا شدید صدمہ ہوا۔ اس ناکامی کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی اس روش کو ترک کردیا اور سیاسی پیش رفت کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد جنرل سوہارتو نے چین نواز پارٹی کا ہی خاتمہ کردیا۔ چین کے لیے یہ بڑا گہرا صدمہ تھا، لیکن چین نے اپنی جارحانہ پالیسی تبدیل کرکے سیاسی روش اختیار کرلی، لیکن سوویت یونین نے جارحانہ اور سازشی پالیسی کو ترک نہیں کیا، اس نے مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں حکومتوں کے تختے الٹنے کا کام کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے جاری رکھا۔
سوویت یونین کے طاقتور صدر برزنیف نے مشرق وسطیٰ کے اہم ملک سعودی عرب، کویت اور تیل سے مالامال دیگر ممالک میں تختے الٹنے کا منصوبہ ترک نہیں کیا۔ افغانستان پر اس کی نظر تھی، بلوچستان کے 900 میل طویل نیلگوں سمندر پر اس کی نظر تھی۔ اس کی منصوبہ بندی زارِ روس کے دور میں بھی تھی، لیکن وہ پیش رفت نہ کرسکا، اس لیے خاموش رہا۔ لیکن روس میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد لینن نے افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان سے دوستی کرلی اور افغانستان میں کمیونسٹ پارٹی کے لیے خفیہ کام شروع کردیا۔ امان اللہ خان اور لینن کے درمیان دوستی کی وجہ سے خط کتابت بھی ہوتی رہی۔ برطانوی سامراج نے امان اللہ خان کے دورِ حکومت میں پشاور کے محاذ پر شکست کھائی اور امان اللہ خان کو KING تسلیم کرلیا۔ 1842ء میں شاہ شجاع برطانوی فوج کے ذریعے سندھ سے ہوتا ہوا کوئٹہ پہنچا۔ اس کے ہمراہ اپنی فوج بھی تھی۔ کوئٹہ سے برطانوی فوج اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے قندھار پہنچی، اس پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد کابل اس کے ہاتھ میں آگیا۔ شاہ شجاع کو تھوڑے عرصے بعد افغانوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس موقع پر تاریخ کا ایک اور اہم حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ اب یہ باب تاریخ کے صفحات پر رقم ہوگیا ہے، اس کو کوئی نہیں نکال سکتا، جس طرح ہم گزرے ہوئے کل اور تاریخ کو نکال سکتے ہیں نہ ماضی کو لوٹا سکتے ہیں۔ روس نے جنرل دائود کا تختہ الٹا اور اس کے بعد کمیونسٹوں نے کابل پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے ہی کامریڈوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ دائود قتل ہوا، اس کے بعد استاد نور محمد ترہ کئی کو اقتدار پر بٹھادیا گیا۔ نور محمد ترہ کئی کو جنرل حفیظ اللہ امین نے موت کے گھاٹ اتارا اور ایک گڑھے میں دفن کردیا۔ کمیونسٹوں نے بھی سردار دائود کو قتل کرنے کے بعد جس طرح دفن کیا تھا، بالکل اسی طرح حفیظ اللہ امین کو سوویت یونین کی فوج نے قتل کیا اور صدارتی محل پر قبضہ کرلیا۔ جنرل حفیظ اللہ امین کے بعد روسی فوج افغانستان میں داخل ہوگئی۔ جب مجاہدین نے سوویت یونین کو شکست دی اور آپس میں اقتدار کے لیے خونریزی کی تو اس دوران امریکہ نے افغانستان پر قبضے کا فیصلہ کیا، اور حامد کرزئی کو کوئٹہ سے امریکی فوج کے سائے میں قندھار اور اس کے بعد کابل پہنچادیا۔
یہ ایک بہت ہی مختصر سا تجزیہ کیا ہے، تاکہ افغانستان اور اس کی جغرافیائی سرحد کی اہمیت کا اندازہ کرسکیں۔ اس موقع پر ایک اور سرسری سا جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں اور اپنے طالب علمی کے دور کے مباحثوں کو بھی تاریخ کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ یہ بڑی دلچسپ بحث تھی جو کالج کے زمانے میں روس نواز دوستوں سے ہوتی تھی۔ ان کا تعلق B.S.O سے تھا۔ چین نواز کمیونسٹ بھی موجود تھے، مگر وہ تعداد میں تھوڑے تھے اور ان کے اثرات بھی کم تھے۔ہم یہ بحث ہیگل کے فلسفے کے تحت کرتے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد تضاد پھوٹتا ہے اور قدیم ختم ہوجاتا ہے۔ نیا تضاد پرانے کو ختم کردیتا ہے۔ میری بحث اس نکتہ پر تھی کہ کمیونزم میں تضاد پھوٹے گا اور نیا تضاد پرانے کو ختم کردے گا۔ جبکہ اُن دوستوں کی رائے تھی کہ پوری دنیا پر کمیونزم کا غلبہ ہوجائے گا جبکہ میری رائے اس کے برعکس تھی۔ یہ کالج کے زمانے کی بحث تھی۔ بی ایس او کے نوجوان قوم پرستی کا شکار تھے حالانکہ کمیونزم میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ یہ بحثیں طالب علمی کے دور کی تھیں۔ جب سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتاریں تو پھر دوبارہ نئے نکات سامنے آگئے اور ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔ افغانستان پر کمیونسٹوں کے قبضے کے بعد صورتِ حال بالکل ہی بدل گئی تھی، اور پاکستان کے کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کا خیال تھا، یا بعض دفعہ وہ تجزیہ کرتے تھے کہ پاکستان ایک کمیونسٹ ریاست بن جائے گا
اوراس کے حصے بخرے ہوجائیں گے، بلوچستان آزاد ہوجائے گا۔ اور ایک خیال یہ تھا کہ پشتونستان بن جائے گا۔ ان نکات پر بڑی گرما گرم بحثیں ہورہی تھیں۔ میری رائے تھی کہ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوگی، لیکن پاکستان کا بایاں بازو اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا تھا اور قوم پرست رومانوی دنیا میں چلے گئے تھے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہرحال یہ ایک تاریخی دلچسپ بحث تھی۔ اس موقع پر چند اہم شخصیات کے حوالے دے کر ہم اپنے اصل موضوع پر آجائیں گے۔
29 دسمبر 1978ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو اس کے مقدم نے نواب کو اطلاع دی اور ان کی بیٹھک کا دروازہ کھولا۔ چند لمحوں کے بعد نواب صاحب آگئے۔ وہ سفید کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ ابھی وہ کمرے کے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ کھڑے کھڑے مجھ سے کہا ’’ملاّ مبارک ہو، آپ کے دوست افغانستان میں داخل ہوگئے ہیں، اپنا بندوبست کرلیں‘‘۔ ان سے کہا کہ ’’کمیونزم میں تو نواب، جاگیردار، سرمایہ دار مارے جاتے ہیں، آپ اپنا بندوبست کرلیں، میرا نمبر بعد میں آئے گا، تھوڑا بہت مقابلہ بھی کرلوں گا‘‘۔ نواب بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔ کھانا لگنا شروع ہوگیا تھا۔ اب جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا وہ نواب شہید کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ میں نے بڑے آرام سے کہا کہ ’’نواب صاحب افغانستان کوئی چیکوسلواکیہ یا ہنگری نہیں ہے کہ چند دنوں میں سرخ فوج نے جہاں قبضہ کرلیا۔ یہ افغانستان ہے، مقابلہ ہوگا، افغان قوم بہت مزاحمت کرے گی اور سوویت یونین کو شکست ہوگی‘‘۔ یہ سنتے ہی نواب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور چہرے پر سخت تنائو اور غصے کے آثار نمایاں ہوگئے۔ انہوں نے غصے میں کہا ’’تم پاگل ہو، جنونی ہو، تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تمہارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ روس کو کون شکست دے سکتا ہے! میں نے پھر کہا کہ روس شکست کھائے گا۔ وہ مزید غصہ میں آگئے اور کہا ’’Rubbish، خاموش ہوجائو اور کھانا کھائو‘‘۔ نواب صاحب کو احساس ہوگیا تھا کہ انہیں غصہ آگیا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ پُرسکون ہوگئے اور ہم کھانا کھانے لگے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے رخصت کیا۔
جب تک سوویت یونین افغانستان میں موجود تھا، میری بحث اُن سے چلتی رہتی تھی۔ وہ اپنے مؤقف پر قائم تھے اور میں اپنے مؤقف پر۔ اس موقع پر نواب بگٹی کے ایک اہم انٹرویو کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے بھارت کے ممتاز صحافی راجندر سرین کو کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر دیا۔ اُس کی کتاب 1984ء میں نئی دہلی سے شائع ہوئی جس میں پاکستان کی 24اہم شخصیات کے انٹرویو شائع ہوئے ہیں، ان شخصیات میں جنرل ضیا الحق، صاحبزادہ یعقوب علی خان، غوث بخش بزنجو،
(باقی صفحہ 41 پر)
نواب اکبر بگٹی، جنرل ٹکا خان، جنرل نصیر اللہ بابر، ولی خان، فاروق لغاری، محمود علی قصوری، ممتاز بھٹو، سردار شیرباز مزاری اور شوکت حیات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ایک اہم کتاب ہے۔ مذکورہ انٹرویو (جو نواب صاحب نے 8 اپریل 1982ء کو بگٹی ہائوس میں دیا) میں افغانستان سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نواب صاحب نے کہا: ’’افغانستان سیکورٹی اور اسٹرے ٹیجک حوالے سے سوویت یونین کے لیے اہم تھا، اس لیے وہ داخل ہوگیا‘‘۔ اور کہا ’’ایران میں اسلامی انقلاب تھا اور افغانستان میں ایک سوشلسٹ اور بائیں بازو کا انقلاب تھا‘‘ ۔ ایران کے بارے میں کہا کہ ’’وہ نہ روس کا حامی تھا اور نہ امریکہ کا، اس کا اپنا انقلاب تھا‘‘۔ ایران کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ اسلامی انقلاب دراصل پہلا قدم ہے، جو بالآخر آہستہ آہستہ ایک سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس تبدیلی میں 4 یا 5 سال لگیں گے، اس کا فائدہ سوویت یونین کو ہوگا، اور ایران سوویت یونین کے زیر اثر چلا جائے گا اور کمیونسٹ بن جائے گا‘‘۔ افغانستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ افغانستان میں کوئی جدوجہد نہیں ہورہی ہے، یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے ،آپ کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرے گا اور انقلاب کو ناکام کردے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہم سوویت یونین کے زیادہ قریب ہیں، ہم جغرافیائی طور پر اس کے قریب ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دار ممالک سوشلسٹ بن رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام لپیٹا جارہا ہے۔ جنگِ عظیم دوم سے پہلے صرف ایک کمیونسٹ ملک تھا اور وہ روس تھا، اور جنگ ِعظیم کے بعد روس کا شکریہ کہ کئی ممالک سوشلسٹ بن گئے۔ ہر دو سال کے بعد تیسری دنیا کے ممالک سوشلسٹ بن رہے ہیں۔ اور ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی سوشلسٹ ملک دوبارہ سرمایہ دار ملک بن گیاہو۔‘‘
بزنجو مرحوم کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں، انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا:
’’آپ سوویت یونین کو نہ طاقت کے ذریعے افغانستان سے باہر نکال سکتے ہیں، نہ جنگ کے ذریعے نکال سکتے ہیں ،اور نہ سبوتاژ کے ذریعے نکال سکتے ہیں، اور نہ آپ روس کی سرخ قوم کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی احمقانہ خیال ہے۔ اس طریقے سے آپ تلخیاں پیدا کریں گے۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا:
’’میرے نزدیک افغانستان کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے اور یہ باب اب بند ہوگیا ہے۔ افغانستان کبھی بھی مغربی دائرے میں نہیں جائے گا۔‘‘
ہم ایک سرسری جائزہ سوویت یونین کے حوالے سے لے رہے ہیں، کہ کس طرح ایک سپر پاور کا خاتمہ افغانستان کی سرزمین پر ہوگیا۔