’’آزاد کشمیر کا ایکشن ری پلے پاکستان میں ہوگا؟‘‘

کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر معروف تجزیہ نگار اللہ بخش راٹھور نے بروز پیر 26 جولائی 2021ء کو آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے جو خامہ فرسائی کی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ مترجم یا ادارے کا تحریر کے تمام مندرجات سے اتفاق ضروری نہیں ہے۔
……………………
’’آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں نواز لیگ کے جلسہ ہائے عام دیکھ کر، اور الیکشن نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یقین نہیں آتا کہ صورتِ حال اس طرح کی ہوگی! پیپلزپارٹی جس کے لیے تاثر یہ تھا کہ اس کا آزاد کشمیر کے الیکشن میں نام و نشان بھی ظاہر نہیں ہوسکے گا، وہ ابتدائی نتائج میں دوسرے نمبر پر دکھائی دی (اور بعدازاں حتمی نتائج میں بھی، مترجم)۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں جو گڑبڑ رپورٹ ہوئی اور تینوں پارٹیوں کے رہنمائوں نے جو الزامات اور جوابی الزامات عائد کیے اُس سے یہ بات سمجھ میں آرہی تھی کہ الیکشن آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوپائیں گے۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر کے الیکشن کمشنر کے بارے میں ریٹائرڈ جسٹس سلہریا نے دو مرتبہ میڈیا کے سامنے بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں زیادہ گڑبڑ نہیں ہوئی ہے اور اتنے واقعات تو بہرحال ہر انتخاب میں ہی ہوتے ہیں۔ یہ بات تو یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اِس مرتبہ آزاد کشمیر کے الیکشن ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ گڑبڑ پر مبنی تھے۔ جانی اور مالی نقصان جتنا زیادہ اِس بار ہوا ہے اور سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف جس طرح سے ذاتی دشمن جیسا برتائو کیا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن اتنا زیادہ بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیا، اور اُس کی جانب سے امورِ کشمیر کے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے کشمیر میں داخلے پر جو پابندی لگائی گئی اُس پر کوئی بھی عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ اگر ملک کا وزیراعظم ہی الیکشن کمیشن کے احکامات کو تاراج کرڈالے، اور جس شخص پر الیکشن کمیشن نے پابندی عائد کی ہو اُسے اپنے پہلو میں پناہ دے، اور جلسہ ہائے عام میں بھی اُس سے خطاب کرواتا رہے تو پھر بھلا قانون کی حکمرانی کس طرح سے قائم رہ سکتی ہے؟ اب ایسا وزیراعظم جس نے الیکشن کمیشن کے احکامات کو عملاً ٹھکرا دیا ہو اُس کے خلاف اب کون کارروائی کرے گا؟ یہ ابھی دیکھنا ہے۔
اس امر پر تو تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اتفاق تھا کہ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج سے معلوم ہوسکے گا کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان سے کتنی دوری اختیار کی ہے؟ اس دوران بلاول بھٹو کو طاقتور ہائوس سے اہم فون آیا۔ حالانکہ یہ کال ذاتی نوعیت کی تھی، لیکن پی ٹی آئی کے جھنڈے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں پر لگے ہوئے نظر آنا متعدد شکوک و شبہات کو جنم دے سکتے ہیں۔ اس بارے میں مریم نواز نے تو سوالات بھی اٹھائے، لیکن تادم آخر ان کے جوابات کہیں سے بھی نہیں ملے۔ نواز لیگ کو اشاروں ہی اشاروں میں بتایا گیا کہ وہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں فتح یابی سے ہم کنار نہیں ہورہی ہے۔ روایتی طور پر یہ صحیح ہے کہ جو پارٹی پاکستان میں اقتدار میں ہوتی ہے وہی آزاد کشمیر میں بھی حکومت سازی کرتی ہے۔ لیکن عمران خان کے جلسوں سے تو یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ مقابلے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ عام حلقوں کا خیال یہ تھا کہ آزاد کشمیر کے الیکشن میں مقابلہ نواز لیگ اور پی ٹی آئی میں ہوگا، اور ممکنہ طور پر نواز لیگ اپنی حکومت تشکیل دے گی۔ پی ٹی آئی کو عوامی حمایت کم میسر آنے کے باوجود کس طرح سے کامیابی حاصل ہوئی؟ اس سوال کا جواب بھی جلد ہی عوام کے سامنے آجائے گا۔ تاحال چیف الیکشن کمشنر کے رویّے سے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ دھاندلی کی شکایت پر کوئی سخت قدم اٹھائیں گے۔ جسٹس (ر) سلہریا نے یہ کہہ کر اپنی کھال بچانے کی کوشش کی ہے کہ امن و امان قائم کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، لیکن انہوں نے یہ امر فراموش کردیا کہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کرانا اُن کی ذمہ داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈسکہ کی طرح الیکشن کمیشن کیسے اور کتنے حلقوں کے انتخابی نتائج کو معطل کرے گا؟ انتظامیہ کے اسکریو Tight کرنا بھی تو بہرکیف الیکشن کمیشن ہی کی ذمہ داری ہے۔ آزاد کشمیر کا الیکشن ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ اس سے صاف عیاں ہے کہ مقتدر حلقوں نے اب بھی عمران خان ہی کی پشت پناہی کی ہے۔ وہ تاحال ان کے پیچھے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں اور نہیں چاہتے کہ عمران خان سیاسی منظرنامے سے دور ہوں۔ اگر وہ یہ چاہتے تو سارے معاملات کو اپنی نہج پر دوسرے طریقے سے بھی استوار کرسکتے تھے، اور الیکشن بقول سیاسی جماعتوں کے، صاف اور شفاف ہوسکتے تھے۔ حالیہ الیکشن سے یہ اور بھی واضح ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے، اور عوامی سطح پر بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کو دوبارہ سرگرم کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ اگر اسی رفتار کے ساتھ ملک کے اندر پی پی کے ووٹ بینک کو سرگرم اور متحرک کرنے کی کوشش کی گئی تو مستقبل میں ہونے والے الیکشن میں پی پی بہتر پوزیشن میں ہوگی۔ کراچی میں پی پی کو زیادہ پذیرائی ملی۔ لاہور جیسے شہر میں جو نواز لیگ کا گڑھ ہے، وہاں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہوئی ہے۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ پیشین گوئیاں پہلے بھی کی گئیں کہ اگر پی ٹی آئی کے سر سے مقتدر حلقوں کا دستِ شفقت ہٹ گیا تو اس کے متبادل کے طور پر پی پی نہیں بلکہ نواز لیگ سامنے آئے گی۔ لیکن حالیہ نتائج اور رجحانات اس کی نفی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مقتدر قوتوں اور نواز لیگ میں معاملات جتنی تیزی کے ساتھ طے ہونے کے اشارے دیئے گئے وہ درست ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ نواز لیگ کا وہ حصہ جو مقتدر حلقوں کے قریب سمجھا جاتا ہے اور اس کی باگیں میاں شہبازشریف کے ہاتھوں میں ہیں، کا بیانیہ (Narrative) ناکام ہونے کے اشارے مل رہے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف کو سیاسی منظرنامے سے ہٹاکر مریم نواز کو آزاد کشمیر میں بھیجا گیا، اور ممکن ہے کہ مستقبل میں مریم نواز ہی کو فرنٹ سیٹ پر بھی بٹھا دیا جائے۔ تاہم اس طرح سے مقتدر حلقے رام نہیں کیے جاسکے، یا باالفاظِ دیگر وہ موصوفہ سے خوش نہیں ہیں اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کو ایک مرتبہ پھر سے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ممکن ہے آئندہ عام انتخابات تک اس نوع کی تبدیلیاں رونما ہوجائیں کہ سارے معاملات تبدیل ہوجائیں، اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اُس وقت تک ایک طاقت ور ادارے کا سربراہ ریٹائر ہوجائے۔ اگر اسے آگے چل کر ایک آدھ سال کی سروس میں ایکسٹینشن نہیں ملی تو پھر شاید ’اسٹیٹس کو‘ بھی برقرار نہیں رکھا جاسکے گا۔ تاہم چین آف کمانڈ کی تبدیلی کے ساتھ منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مقتدر قوتوں کے رویّے میں تبدیلی کا تعلق صرف اُن کے سربراہ کی تبدیلی یا ریٹائرمنٹ سے نہیں ہے وہ کسی حد تک درست ہیں۔ کیوں کہ اصل حکمران سیاست دانوں سے شخصی بنیادوں کے بجائے ادارتی طور پر Behave کرتے ہیں، اور ابھی تک تو یہی کچھ ہوا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ ہماری ماضی کی ساری تاریخ بھی اس امر کی گواہی دیتی ہے، لہٰذا اب بھی اسی Perspective میں معاملات کو دیکھنا چاہیے۔
اِس بار آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کا افغانستان سمیت بیرونی معاملات سے زیادہ واسطہ نہیں ہوگا، لیکن جس قسم کی صورتِ حال جنم لے رہی ہے اُس میں عمران خان جیسے رہنما کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ اس بات کے امکانات کہیں زیادہ ہوں گے کہ جس طرح سے خارجہ پالیسی، خارجہ وزارت یا آفس نہیں چلاتے، یہ بھی اصل اور مقتدر قوتوں کے ہاتھوں میں ہے، اس لیے وہ کسی ہیوی ویٹ سیاست دان یا پارٹی کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے کسی Puppet یا کٹھ پتلی کو ہی فرنٹ سیٹ پر بٹھائیں گے، تاکہ معاملات کو اپنے طور پر صحیح انداز سے چلا سکیں، تاکہ اگر عالمی نوعیت کے Trouble Spots میں خود کو بچاکر نکلنا ہے تو پھر کسی بھی کٹھ پتلی یا طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی ختم ہوجائے گا۔ وہاں پر تو ایسے طاقتور رہنمائوں کی ضرورت پڑے گی جنہیں عوام کی حقیقی حمایت حاصل ہو۔ اِس مرتبہ نواز لیگ نے شکست کی صورت میں جس احتجاج کا اعلان کیا ہے اُس کو ہلکا یا معمولی نہیں لینا چاہیے۔ اگر پی پی بھی اسی نوعیت کا اعلان کرتی ہے تو اسلام آباد سے لے کر آزاد کشمیر تک صورتِ حال مقتدر حلقوں کے خلاف ہوجائے گی، جس کی وجہ سے مستقبل کے ممکنہ خطرات میں مزید اضافہ ہوجائے گا، اور اس کے نتیجے میں عمران خان کا وجود محض آزاد کشمیر تک ہی دکھائی دے گا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ مقتدر حلقے اپنے دل میں جو سوچے ہوئے ہیں، نتائج بھی اسی طرح کے برآمد ہوں۔ سیاسی عمل سیاسی جماعتوں کا کام ہے، اور ایسا عمل کسی کمانڈ کا محتاج نہیں ہوتا، اس لیے دنیا کے طاقتور فوجی آمر بھی ایک سائیڈ پر ہوتے رہے ہیں، اور وہ عوامی طاقت کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکے ہیں۔ اِس مرتبہ آزاد کشمیر میں جو کچھ ہوا ہے اُس سے حزبِ مخالف کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے، اور اگر عوامی غم و غصے کو بھی اس میں شامل کردیاگیا تو اس صورت میں عمران خان کی بھی سیاسی عمر گھٹ جائے گی، یہی نہیں بلکہ مقتدر حلقوں سے لمبی لڑائی کی شروعات بھی ہوجائے گی، جو اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی عالمی ریفری درمیان میں نہیں آجاتا۔ اس حوالے سے بیرونی قوتوں کی مداخلت ہی سامنے آئے گی۔ افغانستان کا معاملہ بھی کئی قوتوں کو مداخلت پر مجبور کردے گا اور پڑوسی ممالک کو اس طرح سے رہنے نہیں دیا جائے گا جس طرح سے مقتدر قوتیں یا طالبانی سوچ رکھنے والے خواب دیکھ رہے ہیں۔‘‘