چین اور روس بہت تیزی سے ابھر کر ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ مغرب کی جمہوریتوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ ان دونوں، قدرے آمرانہ مملکتوں کو ایک خاص حد تک محدود کرنے میں کیوں کر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی الجھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔
چین اور روس جیسے ممالک سے نپٹنے کے لیے بہترین حکمتِ عملی کیا ہوسکتی ہے؟ انہیں چیلنج کرنا، ان سے ٹکرانا، انہیں ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش کرنا؟ کیا صرف معاشی معاملات میں کوئی بڑا قدم اٹھاکر ان دونوں طاقتوں کو دبایا جاسکتا ہے، اپنی مرضی کے حجم کا حامل بنایا جاسکتا ہے؟ اس وقت چین اور روس جو کچھ کر رہے ہیں، کیا ویسا ہی کچھ کرکے اُن سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے؟ یہ تمام سوالات غور طلب ہیں کیونکہ اِن کے درست جواب کی شکل ہی میں مغرب کے لیے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کی کوئی راہ مل سکتی ہے۔
امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے چین کو دبوچنے کی کوشش میں جو تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں انہیں چینی قیادت نے بیک جنبشِ قلم مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن چین کے معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔ چینی قیادت بھی محسوس کرتی ہے کہ اگر وہ مطلوب حد تک جذباتی نہ ہوئی اور کسی بھی اقدام کا فوری جواب نہ دیا تو اُس کے لیے آگے بڑھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی مغربی اقدام کا فوری جواب دینے میں تساہل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے نہ بخل کا۔
چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی بنیاد پر اب تک کمیونسٹ پارٹی کے چار نچلے درجے کے عہدیداروں کو نامزد کرکے انہیں مغربی دنیا کے دوروں سے روکا گیا ہے اور مغرب میں اثاثے رکھنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس کے جواب میں چین نے بھی مغربی دنیا کے قانون سازوں کو اپنے ہاں آنے سے روک دیا ہے۔ ان میں برطانیہ کے دارالعوام خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ٹام ٹیوگنڈیٹ، جرمن پارلیمان کے رکن رائنہارڈ بوٹیفکوفر اور فرانس کے سوشلسٹ رکن پارلیمان رافیل گکلسمین شامل ہیں۔
ان اقدامات کے جواب میں فرانس میں چینی سفیر کو احتجاجاً دفتر خارجہ طلب کیا گیا تاکہ اُن سے مختلف امور پر وضاحت طلب کی جاسکے۔
جو کچھ چین اور مغربی دنیا کے درمیان ہو رہا ہے اُس سے چین اور یورپی یونین کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدے کی یورپی یونین اور یورپی ممالک سے الگ الگ باضابطہ توثیق کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ۲۰۲۰ء کے آخر تک اس معاہدے کو فریقین کے لیے غیر معمولی کامیابی قرار دیا جارہا تھا۔ مگر اب معاملہ بگڑ چلا ہے۔
چین نے اب تک یورپی ممالک کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں وہ کارگر ثابت ہوئے ہیں کیونکہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو محسوس ہوا ہے کہ اُنہیں خطرناک حالات و واقعات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف امریکا نے اب تک یہی ثابت کیا ہے کہ وہ چین کے معاملے میں واضح اپروچ اپنانا چاہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن چین اور روس دونوں کے حوالے سے کوئی بھی بات چھپ کر اور دب کر نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو قاتل کہا ہے اور صدارتی مہم کے ایک مباحثے میں انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کو دھوکے باز بھی قرار دیا تھا۔
امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے سوچنے والوں کے پلیٹ فارم ’’دی اٹلانٹک کاؤنسل‘‘ نے اب ’’دی لانگر ٹیلی گرام‘‘ شائع کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکا کی قیادت میں فعال مغربی لبرل نظام کے تحت کام کرنا ہے تو چین کو اپنی قیادت میں تبدیلی لانا ہوگی۔ دی اٹلانٹک کاؤنسل کے تحت شائع کیے جانے والے ’’دی لانگر ٹیلی گرام‘‘ کے مصنف کا نام منظرِ عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ اس میں امریکی قیادت سے کہا گیا ہے کہ اگر چین اور روس سے بہتر طور پر نپٹنا ہے تو جاپان، آسٹریلیا اور بھارت سے تعلقات کو وسعت دینا ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان اختلافات گھٹانے اور تعلقات خوش گوار بنانے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ یہ دونوں ممالک مل کر مغربی دنیا کا عمومی طور پر اور واشنگٹن کا خصوصی طور پر ساتھ دیں۔ علاوہ ازیں، دی اٹلانٹک کاؤنسل کے اِسی مضمون میں امریکا پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ روس سے معاملات درست کرنے پر توجہ دے۔ یہ سب کچھ اصلاً اس لیے ہے کہ چین اور روس میں حکومت ہی نہیں بلکہ حکومتی نظام کو بھی تبدیل کردیا جائے۔ یہ جنگ کے باضابطہ اعلان سے کچھ زیادہ دور کا معاملہ نہیں کیونکہ گھیرا تنگ توکیا ہی جارہا ہے۔
یورپ کے لیے الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی طاقتیں مخمصے کا شکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اب اُن کے لیے امریکا سے بڑی منڈی ہے۔ اکیسویں صدی میں جرمنی کے دو چانسلر گیرہارڈ شروڈر اور اینگلا مرکل نے جمہوریت کو فروغ دینے کے لبرل نظام کے بڑے آئیڈیل کو چین اور روس کے لیے برآمدات بڑھانے کے آئیڈیل پر قربان کردیا ہے۔
پولینڈ کے سابق وزیر خارجہ اور سابق وزیر دفاع رادیک سکورسکی نے، جو اب پارلیمان کے رکن ہیں، حال ہی میں ایک مقالہ شائع کیا ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یورپی یونین کو چین کی جانب سے چلائی جانے والی غلط بیانی کی مہم اور مسلط کیے جانے والے بیانیوں کے خلاف شدید مزاحمت کرنی چاہیے۔
رادیک سکورسکی کا شمار یورپ کے ان قانون سازوں میں ہوتا ہے جو خارجہ پالیسی اور چین سے تعلقات کے حوالے سے غیر معمولی بے باکی پر مبنی خیالات کے حامل ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یونین کے کمیشن نے ۲۰۱۹ء میں چین کو مختلف معاشی مفادات کا حامل ملک ہونے کے باوجود ایک ممکنہ اچھا شراکت دار قرار دینے سے متعلق جو موقف اپنایا تھا وہ اب فرسودہ ہوچکا ہے اور چین کو ایک کٹّر حریف کے طور پر ہی لینا چاہیے۔
مغربی طاقتیں چین کی پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں چین دھیرے دھیرے اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لارہا ہے جنہیں کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کسی بھی معاملے میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اُس کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور معاشی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مفادات یقینی بنانے کی راہ اپنائی جائے۔ وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے یورپ اور امریکا کی تنقید کو اب لائقِ توجہ نہیں سمجھتا۔ ہانگ کانگ اور تائیوان کے حوالے سے اُس نے جو رویہ اختیار کیا ہے اُس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اب کسی بھی سطح پر باضابطہ لڑائی کا چیلنج قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
بہت سے ممالک میں میگنٹسکی قوانین اب چینی باشندوں پر اطلاق پذیر ہوتے ہیں۔ ان قوانین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر جرائم کی بنیاد پر چین اور روس کی ناپسندیدہ شخصیات کو مغربی ممالک میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ ان قوانین ہی کی مدد سے روسی صدر پیوٹن کے ایسے ایجنٹس کی امریکا میں آمد روکی گئی، جو اہم شخصیات پر قاتلانہ حملے کرنا چاہتے تھے۔ یہی معاملہ برطانیہ کا بھی تھا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مغربی یونین کا کچھ بھلا ہوگا یا چین کو کچھ نقصان پہنچ سکے گا۔ اب تک تو یہی ثابت ہوا ہے کہ ایسے اقدامات محض نمائشی نوعیت کے ہیں۔ سنکیانگ میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کی بنیاد پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے جن چار نچلے درجے کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اُن کے مغرب میں اثاثے ہیں نہ وہ مغربی اداروں سے کسی طرح کا کاروباری لین دین کرتے ہیں۔ دوسری طرف برطانوی وزیراعظم نے سنکیانگ کے کمیونسٹ پارٹی چیف چین کوانگو کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے گریز کیا ہے جبکہ امریکا چاہتا ہے کہ چین کوانگو کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔
کیا مغربی اور بالخصوص یورپی جمہوریتیں اتنی ہی بے بس ہوگئی ہیں؟ کیا اب وہ چین کے خلاف کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں؟ ایک اہم تجویز یہ ہے کہ روس اور چین کے جو سیاست دان غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل ہیں اور پالیسیوں کی تشکیل و تہذیب پر اثر انداز ہوتے ہیں اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی جائے۔ چین اور روس کے جو سیاست دان مغربی جمہوریت کے خلاف غلط بیانی پر مبنی سوشل میڈیا مہم چلانے کے ذمہ دار ہیں انہیں خاص طور پر نشانہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
چین اور روس نے سیاست کے حوالے سے اب تک چھاپہ ماروں کا سا انداز اپنایا ہے۔ اب مغربی دنیا میں یہی انداز اپنانے کی بات کی جارہی ہے۔ گویا یہ لڑائی میڈیا کے محاذ پر لڑی جائے گی۔ امریکا اور یورپ میں یہ خواہش تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ ایسے ماہرین تیار کیے جائیں جو سوشل میڈیا پر چین اور روس کے ناپسندیدہ سیاست دانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ مواد پیش کریں اور اِس مواد کے لیے روسیوں اور چینیوں کو حتمی منزل بنایا جائے۔
میڈیا کے محاذ پر لڑائی تیز کرنے کی تجویز کو سراہا جارہا ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان یہ لڑائی کچھ مدت سے جاری ہے مگر اس میں وہ تیزی نہیں آئی جس کے بارے میں لوگ سوچ رہے تھے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ امریکی قیادت نے سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ آثار اس بات کے ہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور اُن کے رفقائے کار کو بطور خاص نشانے پر لیا جائے گا تاکہ ایسے بیانیے تیار کیے جائیں جن کا مقصد روس کو زیادہ سے زیادہ جارح ثابت کرنا ہو۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری سمجھا جارہا ہے کہ اب تک پیوٹن نے میڈیا کے محاذ پر غیر معمولی نوعیت کی کامیابی حاصل کی ہے۔
مغرب میں چینی صدر شی جن پنگ کے خلاف میڈیا مہم چلانے کی بات بھی اب زور دے کر کہی جاری ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ شی جن پنگ نے خالص آمرانہ انداز اختیار کرکے اپنے ہاں جمہوریت کے پنپنے کی راہ بالکل مسدود کردی ہے۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ چین میں بھی لبرل ڈیموکریسی کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے۔ شی جن پنگ نے غیر معمولی آمرانہ انداز کے ساتھ معاملات کو چلایا ہے۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ ان کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر طاقتور اور وسیع البنیاد مہم چلائی جائے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یورپی یونین اور برطانیہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چین اور روس کے خلاف میڈیا پر کوئی طاقتور مہم چلا سکیں۔ اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ان دونوں کے پاس معاملات کو بگڑتا ہوا دیکھ کر بے بسی سے ہاتھ ملنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جرمنی کو ساتھ ملائے بغیر ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔
جرمنی کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی تمام اسٹیبلشمنٹ پارٹیز چاہتی ہیں کہ فی الحال چین اور روس کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کیا جائے جو براہِ راست تصادم کی طرف لے جاتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین اور برطانیہ کو فی الحال جرمنی سے روس اور چین کے خلاف کچھ خاص مدد نہیں مل سکتی۔ برطانیہ اور باقی یورپ کی طرح جرمنی کو بھی اپنے معاشی مفادات عزیز ہیں۔ وہ چین کے خلاف ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا جس سے برآمدات متاثر ہوں اور سرمایہ کاری کا گراف گرے۔
اس وقت جرمن قیادت کی کوشش ہے کہ معاشی معاملات کو سیاست کی چوکھٹ پر قربان نہ کیا جائے۔ سیاسی نظام کے آئیڈیلز کو مضبوط تر بنانے کے نام پر معاشی معاملات کو بربادی کی طرف دھکیلنے کی کوئی بھی کوشش جرمن قیادت کو گوارا نہیں۔
صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے یہ اندازا لگانا زیادہ دشوار نہیں کہ یورپی یونین اور برطانیہ کو اب کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر کہ وہ جرمنی کے رحم و کرم پر تو چین اور روس کے خلاف کوئی بڑی میڈیا مہم چلا نہیں سکتے۔ ایسے میں انہیں امریکا کے ساتھ مل کر ہی کچھ کرنا ہوگا۔ امریکا اُن کا ساتھ کہاں تک دے سکے گا، یہ سوال بھی اہم ہے۔ امریکا کی اپنی بھی مشکلات اور مجبوریاں ہیں۔ امریکا اور یورپ کو اس وقت چین اور روس کے خلاف جو کچھ بھی کرنا ہے اُس میں دانش مندی کا دامن بھی تھامے رہنا ہے۔ محض جذباتیت کے ریلے میں بہہ کر کچھ کرنے سے ایسی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن پر قابو پانا پھر کسی کے بس میں نہ ہوگا۔
(بشکریہ: معارف فیچر)