محبوب الزماں بٹ اس وقت جماعت اسلامی فیصل آباد ضلع کے امیر ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی کے ناظم رہے۔ فیصل آباد کے ہی رہائشی ہیں ،یہاں کی سیاست پر گہری اور عمیق نظر رکھتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: فیصل آباد کا ملکی سیاست میں کیا کردار اور اہمیت ہے؟
محبوب الزماں بٹ: فیصل آباد کراچی کے بعد سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے جو پاکستان کی معیشت میں حصہ ڈالتا ہے، اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی یارن مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔یہ تاجروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ اس میں بہت زیادہ تجارتی مراکز ہیں،کپڑے کی صنعت ہے، حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں میں بھی تجارت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، آرٹ سلک، ٹیکسٹائل مشینری، زرعی آلات اور گھڑی تیار کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں۔ فیصلہ سازی کے حوالے سے فیصل آباد کے تاجر بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر ہمیشہ سے رہے ہیں۔ یہاں پر مزدوروں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے، لہٰذا اسے مزدوروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہاں پر ایک صنعتی ایریا کا آغاز ہوا، جو کہ ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہے، اور شاید پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی زون کا درجہ حاصل کرجائے گا۔ اس میں ملٹی نیشنل اور مقامی دونوں طرح کی صنعتوں کے لیے گنجائش موجود ہے۔ اس لحاظ سے مستقبل قریب میں یہ شہر مزید نمایاں مقام حاصل کرلے گا۔ پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہونے کے ناتے پاکستان کی سیاست میں اس کا بہت اہم اور بنیادی کردار رہا ہے۔ آبادی بھی اس کی زیادہ ہے، مین مرکز بھی یہیں ہے جہاں سب آکر اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ فیصل آباد کا پاکستان کی سیاست میں بھی بڑا کردار ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: جو لوگ فیصل آباد سے منتخب ہوتے ہیں ان کی اس شہر کے لیے کیا نمایاں خدمات ہیں؟
محبوب الزماں بٹ: فیصل آباد سے منتخب ہونے والوں نے اس شہر کی بہت زیادہ خدمت نہیں کی۔ ظاہر ہے اس میں مسلم لیگ (ن) کا بہت بڑا کردار ہے، کسی زمانے میں یہ پیپلز پارٹی کا شہر کہلاتا تھا، پھر یہ مسلم لیگ کا شہر بنا۔ طویل عرصے تک مسلم لیگ برسراقتدار رہی اور ابھی بھی اس کی شہر پر اچھی خاصی چھاپ ہے۔ اس کے بعد اب پی ٹی آئی نے پچھلے الیکشن میں یہاں سیٹیں حاصل کی ہیں، لیکن موجودہ حکومت نے اب تک کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اگر یہ کہوں کہ فیصل آباد کے لیے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا تو بے جا نہ ہوگا۔ مسلم لیگ کے دور میں بھی یہاں سیاسی حوالے سے کام ہوتے رہے ہیں کہ فلاں سڑک بنادو، فلاں چیز کردو۔ یہاں اگر کوئی انڈسٹری اور فیکٹریاں لگی ہیں تو وہ فیصل آباد کی اپنی حیثیت کی بنیاد پر لگی ہیں۔ چونکہ یہاں پر ریونیو جنریٹ ہوتا ہے لہٰذا حکومت مجبور ہے کہ فیصل آباد کو ساتھ لے کر چلے اور ملکی معیشت اور دیگر حوالوں سے اسے شامل رکھے۔ لیکن جو پارٹیاں بہت عرصہ یہاں برسراقتدار رہی ہیں انہوں نے بدعنوانی میں تو اچھی خاصی ترقی کی اور فیصل آباد شہر کو خوب لوٹا، لیکن اس کی کوئی خدمت نہیں کی۔
فرائیڈے اسپیشل: فیصل آباد شہر اور گرد و نواح کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
محبوب الزماں بٹ: فیصل آباد کا ایک بڑا مسئلہ روزگار کی کمی ہے۔ یہاں تجارت ہے، صنعت ہے، لہٰذا دیگر شہروں سے روزگار کے لیے بے تحاشا لوگ آتے ہیں، لوگوں کی بڑی تعداد کو روزگار میسر بھی آتا ہے، لیکن اس کے باوجود بے روزگاری کا عنصر موجود ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہاں پر ٹریفک کا خراب نظام ہے۔ ٹریفک کا ہجوم ہے اور پارکنگ کہیں پر نہیں۔ فیصل آباد کی دوسرے شہروں سے منفرد بات یہ ہے کہ بہت زیادہ پھیلائو کے باوجود یہاں پر گھنٹہ گھر کے اردگرد آٹھ بازاروں کو تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور لوگ یہیں آتے ہیں، اگرچہ دیگر مقامات پر بھی مارکیٹیں قائم ہوگئیں مگر وہاں پر کوئی پارکنگ پلازہ نہیں ہے۔ جوں جوں کاروبار بڑھتا رہا یہاں آبادی ختم ہوتی گئی اور دکانیں اور گودام بنتے چلے گئے، لیکن پارکنگ کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ حکومت نے اس حوالے سے اعلان ضرور کیا تھا کہ بازاروں کے باہر بڑے بڑے پارکنگ پلازہ بنائیں گے، اس میں سے ایک پلازہ شروع ہوا جو دس سال میں کھدائی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کے علاوہ یہاں جرائم و لاقانونیت کا کچھ عنصر موجود ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ فیصل آباد اب بھی کلچر کے لحاظ سے دیگر بڑے شہروں کے مقابلے میں بہتر رہا ہے۔ اس پر دیہاتی چھاپ زیادہ رہی ہے۔ لبرل کلچر یہاں پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ عریانی اور فحاشی یہاں پر نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ کاروباری حضرات کا مذہبی رجحان ہے۔ موٹر وے M-4 پر ایک ٹول پلازہ بنایا گیا ہے جہاں لاہور سے آنے اور جانے والوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا ہی اہم مسئلہ یہ ہے کہ اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود ہمارے ہاں ہائی کورٹ بینچ نہیں ہے۔ اگر پورے ڈویژن کو لے لیں تو اس کی آبادی دو کروڑ کے قریب بن جاتی ہے۔ یہاں ہائی کورٹ کا بینچ نہ ہونے کے سبب بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ روز صبح اٹھ کر لاہور ہائی کورٹ کی جانب بھاگتے ہیں اور پھر آتے آتے شام ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی ہماری ڈسٹرکٹ کورٹ میں ہفتے کے دن وکلاء ہڑتال کرتے ہیں، پچھلے آٹھ سال سے ہائی کورٹ بنچ کے لیے مسلسل ایک دن کی یہ ہڑتال چل رہی ہے۔ عمران خان بھی وعدہ کرگئے، نون لیگ نے بھی وعدے کیے، پیپلز پارٹی نے بھی کیے، لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔
فرائیڈے اسپیشل: انفرااسٹرکچر کی صورت حال کے بارے میں آگاہ کیجیے۔
محبوب الزماں بٹ: 1900ء کے لگ بھگ اس شہر کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اُس وقت سے یہاں کی سڑکیں نسبتاً کشادہ ہیں۔ پھر آج سے کوئی بیس سال پہلے شہر کی اندرونی سڑکیں بہتر ہوگئی تھیں۔ ہمارے ہاں بڑی سڑکیں تو بہتر ہیں لیکن چھوٹی گلیوں کے مسائل اپنی جگہ ہیں۔ واسا کے جو مسائل ہوتے ہیں یہاں پر بھی بالکل اسی طرح کے ہیں۔ صفائی کے حوالے سے بھی یہاں مسائل ہیں، لیکن کراچی کی نسبت صورت حال بہت بہتر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہاں کے تعلیمی اداروں کی کیا صورت حال ہے؟
محبوب الزماں بٹ: یونیورسٹیاں اور کالج تو پچھلے کچھ عرصے میں یہاں کافی حد تک بنے ہیں۔ بیس بائیس سال پہلے یہاں کوئی جنرل یونیورسٹی نہیں تھی صرف زرعی یونیورسٹی تھی۔ پھر جی سی یونیورسٹی بن گئی، جی سی یونیورسٹی فار وومن بھی یہاں پر قائم ہوگئی۔ اب یہاں پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی ہیں، ٹیکسٹائل یونیورسٹی بھی بن گئی، میڈیکل یونیورسٹی بھی قائم ہوچکی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے طلبہ باہر سے آتے ہیں، لیکن ان کی رہائش کا مسئلہ ہے۔ اتنی یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود ہاسٹل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بچوں اور بچیوں دونوں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کو پھر پرائیویٹ ہاسٹلز میں جانا پڑتا ہے، خاص کر بچیوں کے لیے اتنی بڑی یونیورسٹی میں کوئی مستقل ہاسٹل نہیں ہے، یہ امر اخلاقی مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:عمومی سماجی و اخلاقی اقدار کی کیا صورت حال ہے؟
محبوب الزماں بٹ:بڑے شہروں کی نسبت یہاں صورت حال قدرے بہتر ہے، لیکن پچھلے پندرہ سولہ سال سے بتدریج اخلاقی حوالے سے کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ جس طرح ہمارے پورے معاشرے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے، یہاں پر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہے اور آپ بزنس کمیونٹی سے وابستہ ہیں، یہ بتائیے کاروباری حضرات اپنے کاروبار کے حوالے سے کن مسائل کا شکار ہیں؟
محبوب الزماں بٹ: گزشتہ دنوں ہم نے صنعت کاروں سے ایک میٹنگ کی تھی جس میں انہوں نے اپنے اپنے مسائل بتائے کہ جی ایس ٹی ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جو بڑے صنعت کار ہیں جی ایس ٹی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، انہیں ری فنڈ بھی مل جاتا ہے۔ چونکہ ان کا حجم بڑا ہے، کچھ وہ لگا دیتے ہیں اور کچھ مل بھی جاتا ہے، لیکن چھوٹے صنعت کار بہت تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ خاص طور پر برآمدات کرنے والے تاجر، کیونکہ ظاہر ہے جب حکومت ساڑھے سترہ فیصد وصول کرتی ہے تو واپسی کا کوئی چانس نہیں ہوتا۔ وہ یہ سمجھ کر دیتے ہیں کہ اب واپس ہوگا ہی نہیں، اور وہ کوشش کرتے بھی رہیں تو واپس نہیں ہوتا۔ اس طرح ان کی بنیادی سرمایہ کاری میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ دوسرا ہمارے ہاں کاٹن ، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے ایک ضروری چیز ہے، اور پاکستان میں کاٹن کا زیر کاشت رقبہ بہت تیزی سے کم ہورہا ہے جس کی وجہ سے کاٹن مہنگی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے جس کا تاجروں کو سامنا ہے۔ لیکن میں نے عموماً دیکھا کہ ہمارے تاجر حکومتی پالیسیوں اور ایف بی آر کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایف بی آر کو حکومت نے اختیارات دیئے ہیں کہ وہ گرفتاری بھی عمل میں لاسکیں گے، اس سے تاجر خاصے خوف زدہ ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی سیاسی و سماجی طور پر کس حیثیت سے فیصل آباد میں موجود ہے؟
محبوب الزماں بٹ: فیصل آباد میں الحمدللہ ہماری الخدمت کا پورا نیٹ ورک موجود ہے۔ ہم نے لیب ٹیسٹ کا سسٹم قائم کیا ہے جس کے تحت کوئی دس بارہ کلیکشن سینٹر ہیں اور بہت اعلیٰ معیار کی ہماری لیب ہے جس میں لوگوں کو معیاری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ آرفن کیر میں ہم بہت کام کررہے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پورے فیصل آباد میں کوئی بھی این جی او الخدمت کے مقابلے میں اس حد تک موجود نہیں ہوگی۔ دوسرا ہمارا مجاہد اسپتال ہے، وہ بھی ایک بڑا اسپتال ہے، جہاں بہت کم فیس پر لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفرد بات ہے۔ میڈیکل،تعلیم و دیگر میں جماعت کے ادارے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں۔ کورونا کے دوران بھی لوگوں کو راشن و دیگر سہولیات کے ذریعے مدد فراہم کی۔ تو سماجی اعتبار سے جماعت اسلامی بہت حد تک شہر میں اپنی حیثیت رکھتی ہے، البتہ سیاسی طور پر جیسے عمومی صورت حال ہے وہی اثر یہاں بھی دیکھا جاتا ہے۔ ویسے تو جماعت کی حیثیت سے ہر حلقے میں جماعت اسلامی کی اہمیت ہے، لوگ اس کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ووٹ بینک کے اعتبار سے ابھی سفر باقی ہے۔ شہر کے لوگوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیئے لیکن انہوں نے اس شہر کو کچھ نہیں دیا۔ ہم خدمت کرنے والے لوگ ہیں جنہوں نے شہر کی بھی خدمت کی ہے، ہمارے لوگ ہر دکھ،درد اور پریشانی میں عوام کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لوگوں کو بھی ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اسی میں شہر کی بھی بھلائی ہے اور پاکستان کی بھی بھلائی ہے۔