آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابی نتائج، ماضی کے انتخابات کا ہی تسلسل ہیں۔ یہ اصول اور منطق درست ثابت ہوئی کہ آزاد کشمیر میں وہی جماعت انتخاب جیتے گی جس کی اسلام آباد میں حکومت ہوگی۔ اگرچہ بہت سے سیاسی تجزیہ نگار اور حکومت مخالف سیاسی اور صحافتی طبقہ ان انتخابی نتائج سے بہت بڑے سیاسی دھماکے یا حکومت مخالف کسی بڑے اَپ سیٹ کی پیشگوئی کررہا تھا،جس میں انہیں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ طبقہ عملی طور پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کے بڑے جلسوں کو بنیاد بنا کراس بیانیے کو فروغ دے رہا تھا کہ اوّل تو پاکستان تحریک انصاف انتخاب نہیں جیت سکے گی، اور اگر جیت گئی تو عددی تعداد بہت کم ہوگی اور ایک کمزور مخلوط حکومت بنے گی۔ لیکن انتخابی نتائج نے حکومت مخالف قوتوں کو بہت مایوس کیا اورسخت دھچکا پہنچایا ہے۔
تحریک انصاف کی بڑے مارجن سے جیت کی تین اہم وجوہات ہیں:
(1) اسلام آباد میں اُس کی وفاقی حکومت۔
(2) مضبوط برادری سے جڑے افراد کی بطور امیدوار تحریک انصاف میں شمولیت۔
(3) انتخابی جلسوں سے زیادہ توجہ مقامی جوڑ توڑ سمیت عمران خان کو کشمیر کے وکیل کے طور پر قبول کرنا۔
اب تک کُل 45 نشستوں میں سے جن 44 نشستوں کے نتائج جاری ہوئے ہیں ان میںتحریک انصاف25، پیپلز پارٹی 11، مسلم لیگ (ن) 6، مسلم کانفرنس اور جموں وکشمیر پیپلز پارٹی نے ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ بہت سے لوگ مسلم لیگ (ن) کو دوسرا، اور پیپلز پارٹی کو تیسرا نمبر دے رہے تھے، لیکن پیپلز پارٹی کی کارکردگی خاصی بہتر رہی، اور وہ 11نشستوں کے ساتھ عملاً ایک مضبوط حزبِ اختلاف کے طور پر سامنے آئی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کا ہوا جو حکمران جماعت ہونے کے باوجود بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ مریم نواز کے بڑے بڑے جلسے اور اُن کی پاپولر سیاست بھی ووٹوں کی سیاست میں اپنا جادو نہیں چلا سکی، اور نواز لیگ کا سیاسی بیانیہ بھی کہیں گم ہوکر رہ گیا۔ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کے انتخابات میں بدترین شکست سے خود مسلم لیگ (ن) اور مریم نواز کی سیاسی قیادت پر بھی سوالات اٹھے ہیں جن میں ان کی داخلی سیاست میں بیانیے کا تضاد بھی شامل ہے۔
آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو دیکھیں تو اس میں مذکورہ پہلو دیکھنے کو ملے ہیں:
(1) ان انتخابات کے نتائج سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ قومی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی براہِ راست آزاد کشمیر کے انتخابی عمل میں شرکت کے بعد مقامی سیاسی جماعتیں مسلم کانفرنس، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی، لبریشن لیگ سیاسی طور پر کہیں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔
(2) اگر اسی منطق کے تحت آزاد کشمیر میں انتخابات ہونے ہیں کہ اسلام آباد میں جس پارٹی کی حکومت ہوگی وہی آزاد کشمیر میں انتخاب جیتے گی، تو پھر انتخابات کی سیاسی حیثیت پر ضرور سوال اٹھیں گے۔
(3) تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم ایک دوسرے پر الزام تراشیوں، غداری کے فتوے جاری کرنے، مودی کی حمایت و دشمنی کی سیاست، کشمیر کا سودا کرنے کے الزامات اور کردارکُشی تک محدود رہی۔ کسی نے بھی مقامی مسائل اور مقبوضہ کشمیر سے جڑے معاملات پر بات نہیں کی۔ مودی حکومت کے کشمیر مخالف اقدامات اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی جیسے معاملات پسِ پشت چلے گئے۔
(4) مسلم لیگ (ن) کے فوج یا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو کوئی مؤثر پذیرائی نہیں مل سکی۔ شہبازشریف کی عدم موجودگی نے بھی مسلم لیگ (ن) کی مفاہمتی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا۔
(5) آزاد کشمیر میں اصل طاقت سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ مضبوط دھڑے بندی اور برادری کی سیاست ہے۔ یہ لوگ ہر جماعت کے ساتھ نظریہ ضرورت کے تحت شامل ہوجاتے ہیں اوراسلام آباد میں موجود حکمران جماعت بھی ان فصلی بٹیروں کو اپنے ساتھ شامل کرکے انتخابی سیاست میں مرضی کا نتیجہ حاصل کرتی ہے۔
(6) کچھ لوگ دعویٰ کررہے تھے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، وہ بھی غلط ثابت ہوئے۔
جہاں تک آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا تعلق ہے، تو اس میں بڑا کردار وہاں کے ووٹروں، برادریوں اور مضبوط سیاسی دھڑوں کا بھی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو نظام آزاد کشمیر میں موجود ہے اُس میں وفاق کی سیاسی، انتظامی اور مالی مدد کے بغیر صوبے کا نظام چلانا اور بالخصوص مقامی ترقی کے لیے وسائل کا حصول مشکل ہوگا۔ اسی سوچ اور فکر کو بنیاد بناکر وہاں کا ووٹر بھی اپنا ووٹ ڈالتا ہے کہ اس کا علاقہ ٹکرائو کے بجائے اسلام آباد سے مفاہمت کے ساتھ چلے، اور اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ اسی اصول کے تحت 2021ء میں تحریک انصاف حکومت بنا رہی ہے۔ جبکہ 2006ء میں مسلم لیگ (ق) کی حمایت یافتہ مسلم کانفرنس، 2011ء میں پیپلزپارٹی، 2016ء میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی تھی۔ اس لیے اگر اب تحریک انصاف کی حکومت بن رہی ہے تو یہ کسی کے لیے انہونی بات نہیں۔ یہی آزاد کشمیر کی سیاست کا حصہ ہے۔
آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابی نتائج کے بعد ایک بار پھر حزبِ اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے انتخابی دھاندلی اور عمران، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن کے باہمی گٹھ جوڑ کی دُہائی بھی سامنے آئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ کلچر پاکستانی سیاست کا حصہ بن گیا (باقی صفحہ پر)
بقیہ:آزاد کشمیر کے انتخابات/سلمان عابد
ہے کہ کوئی بھی ہارنے والا امیدوار یا جماعت انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تو انتخابی دھاندلی کا ماتم بے جا ہے، کیونکہ بہت سی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر، جبکہ پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر آئی ہے۔ انتخابی اصلاحات واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اور اگر حکومت، حزبِ اختلاف اور الیکشن کمیشن نے ان معاملات پر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو انتخابی دھاندلی کی گونج سے ہم باہر نہیں نکل سکیں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں بداعتمادی بہت زیادہ ہے، حالانکہ وزیراعظم سمیت وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری حزبِ اختلاف کو انتخابی اصلاحات کی مسلسل دعوت دے رہے ہیں، لیکن معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید بگڑ گیا ہے۔
بہت سے سیاسی تجزیہ نگار آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج کو بنیاد بناکر پاکستان میں 2023ء کے انتخابات کی منظرکشی کررہے ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے عام انتخابات کا موازنہ درست نہیں، اور نہ ہی ان انتخابات کو بنیاد بناکر پاکستان کا، مستقبل کا سیاسی یا انتخابی منظر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نے اُسے اپنے سیاسی مخالفین پر برتری دی ہے، اور اس کا یقینی طور پر سیاسی فریقین میں اثر بھی ہوگا، اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پی ٹی آئی کمزور ہوگئی ہے۔
پاکستان کے آئندہ عام انتخابات سے قبل بہت کچھ بدلنا ہے، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس برس اور اگلے برس پی ٹی آئی اپنی گورننس کو عام آدمی کے مفاد کی سیاست سے کیسے جوڑ پاتی ہے۔ اصل مقابلہ پنجاب میں ہی ہوگا جہاں مسلم لیگ (ن) اورپی ٹی آئی میں ایک بڑی سیاسی جنگ ہوگی جو مستقبل کی حکمرانی کا بھی فیصلہ کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کو اب اپنے سیاسی کارڈ درست طور پر کھیلنا ہوں گے، کیونکہ اس کی مزاحمتی سیاست کا جادو اپنا رنگ نہیں دکھا سکا، اور خود شہبازشریف کا بھی یہ امتحان ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں پارٹی کی انتخابی سیاست کو کیسے بچا سکیں گے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے، اور ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ اس بیانیے کے ساتھ ہم ووٹرز اور طاقت کے مراکز میں قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔
اہم سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا نیا وزیراعظم کون ہوگا؟ اگرچہ سردار الیاس تنویر اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری کا نام گونج رہا ہے، لیکن ممکن ہے کوئی نیا نام سامنے آجائے، اور وزیراعظم عمران خان اس طرح کے فیصلے کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔