طالبان کی حکومت کا خوف

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر موجود دفترِ خارجہ میں تمام سفارتی ماہرین امن کے دستور سے دور ہوتے ہوئے افغانستان کی صورتِ حال اور پاکستان پر اس کے اثرات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ حمداللہ محب، نوازشریف ملاقات کیوں ہوئی، یہ کوئی بڑا موضوع نہیں۔ اس ملاقات میں کیا بات ہوئی، یہ نہایت اہم اور حساس پہلو ہے۔ جب تک مسلم لیگ(ن) اس ملاقات کی وضاحت نہیں کرے گی اُس کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں دوسرا بڑا موضوع آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہیں، جن کے نتائج آچکے ہیں۔ تیسرا بڑا موضوع داسو ڈیم حادثہ ہے جس میں متعدد چینی ماہرین ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم افغانستان بڑا اور حساس موضوع ہے۔
اسلام آباد کے ہر سیاسی حلقے میں ایک ہی سوال کا جواب دریافت کیا جارہا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں امن ہوگا یا فساد؟ سفارتی تجزیہ نگاروں کی رائے اور سیاسی حلقوں میں ہونے والی گفتگو میں قدرِ مشترک یہ نکتہ ہے کہ سناٹا ہے اور غیر یقینی کا سورج سوا نیزے پر ہے، تپتی دوپہر میں دور دور تک استحکام کا کوئی سایہ دار شجر نظر نہیں آرہا۔ سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا امریکی افواج کے انخلاکے بعد طالبان کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے پر ترکی کو دوٹوک الفاظ میں یہ پیغام دیں گے کہ کسی بھی بیرونی قوت کو افغانستان میں برداشت نہیں کیا جائے گا؟ یہ متوقع پیغام مستقبل میں مزاحمت کی خبر دے رہا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کی نسبت ترکی تو بہت کمزور ملک ہے، ترکی نے طالبان کو مثبت جواب نہ دیا تو کابل میں اس کے سارے کس بل نکل جائیں گے۔ ترکی کو گمان ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ معاملات کو بہتر انداز سے سنبھال سکتا ہے، اسی لیے اُس نے پاکستان کو بھی کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی سنبھالنے کی پیشکش کی ہے، لیکن اسلام آباد نے اپنے لب سی رکھے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو ابھی تک یقین نہیں ہے۔ اس کی وجہ امریکہ افغان معاہدہ ہے، یہ معاہدہ 2013ء میں ہوا تھا، جس کی شقوں میں یہ بات واضح ہے کہ امریکی افواج کسی بھی وقت افغانستان آسکتی ہیں چاہے طالبان چاہیں یا نہ چاہیں، یا کوئی اور قوت مخالف ہو۔ یہ معاہدہ منسوخ ہونے تک کارآمد ہے، اور معاہدے کی شق 26 کے مطابق امریکہ اور افغانستان میں سے جو بھی اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا خواہش مند ہو اُس کو دو سال کا نوٹس دینا ضروری ہے۔ افغان حکومت اسی معاہدے کی وجہ سے اپنے لیے گنجائش دیکھ رہی ہے اور نیا معاہدہ چاہتی ہے، لیکن طالبان کی پیش قدمی کے باعث کسی نئے معاہدے کا امکان نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ امریکہ طالبان معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام ممبرز کی جانب سے افغان طالبان کو سیاسی تحریک تصور کرنا ایک قانونی ولازمی امر ہے، کیونکہ اس معاہدے کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت رجسٹر کرایا گیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال فروری 2020ء میں امن معاہدے کے وقت دنیا کو طالبان کو ایک سیاسی قوت و اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں کوئی عذر ہوتا تو سامنے آجاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ امن معاہدے کے مطابق افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروہ کے استعمال میں نہیں آئے گی۔ لیکن پاکستان بہت محتاط ہے، اور اقوام عالم کو باور کرا رہا ہے کہ طالبان اس کی ڈکٹیشن پر نہیں چلتے۔
کابل میں دوسرا بڑا ایشو اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکی افواج کے انخلا سے پہلے کسی متفقہ سیاسی بندوبست کا اہتمام نہ کیے جانے کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی کی شدت محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان اور چین حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ دونوں نے تمام افغان شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک جامع جنگ بندی پر اتفاق کریں، اور مذاکرات سے طے شدہ سیاسی تصفیے کے حصول کے لیے مل کر کام کریں۔ چین میں وزرائے خارجہ کے مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے کہ پاکستان اور چین پُرامن، مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کے لیے افغانستان کی زیر قیادت اور افغان ملکیت پر مبنی عمل کی حمایت کرتے رہیں گے۔ اسی لیے طالبان سے کہا جارہا ہے کہ وہ پاکستان اور چین جیسے مخلص دوستوں کی جانب سے پائیدار امن کی خاطر تعاون کی پیش کش کا خیر مقدم کریں، امن کی جانب پیش قدمی کریں، اور اختلافات مذاکرات کی میز پر حل کیے جائیں۔ مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور چین نے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کام کرنے والے چینی اور پاکستانی کارکنوں کی حوصلہ شکنی کی خاطر کیے گئے دہشت گرد حملے کی بجا طور پر مذمت کی ہے۔ دونوں فریقوں نے جاری مشترکہ تفتیش کے ذریعے مجرموں اور ان کے قابلِ مذمت ارادوں کو بے نقاب کرنے، ذمہ داروں کو مثالی سزا دینے، چینی منصوبوں، شہریوں اور اداروں کی جامع حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے، اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس پس منظر میں فرائیڈے اسپیشل کے لیے جب سفارتی ماہرین سے رابطہ کیا گیا تو اُن کی رائے یہ سامنے آئی کہ کابل میں امن کے قیام کے لیے بھارت کے بجائے پاکستان اور چین کی اہمیت زیادہ ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کے مشیر سلامتی حمد اللہ محب اور وزیر برائے امن و امان سید سعادت منصور نادر کی لندن میں سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہے۔ وفاقی وزراء نے اس پر بہت سخت ردعمل دیا۔ وزراء اور اپوزیشن حلقے بھی یہ چاہتے ہیں کہ اس ملاقات کی تفصیلات سامنے لائی جائیں، لیکن پیپلزپارٹی اس ملاقات پر خاموش ہے، کہ بلوچستان کے محمود اچکزئی اور کے پی کے میں اے این پی افغانستان کے معاملات پر تھوڑے بہت اختلافات کے باوجود ایک پیج پر ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت ہورہی ہے، مگر یہ دونوں روس اور امریکہ کی مداخلت اور چڑھائی کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار نہیں دیتے بلکہ جائز سمجھتے ہیں۔ نوازشریف کابل کے معاملے میں انہی دونوں کے نکتہ نظر کے حامی ہیں۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ نوازشریف سے ملاقات کرنے کی کیا حاجت تھی؟ مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ سفارتی زبان میں اسے بیک ڈور ڈپلومیسی کہتے ہیں، کیونکہ نوازشریف اپوزیشن کی آواز ہیں، ماضی میں بھی اپوزیشن رہنما ایسی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے مؤقف دیا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن تعلقات نوازشریف کے نظریے کی اساس ہے۔ اس وضاحت کے باوجود نوازشریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملاقات کی تفصیلات سامنے لائیں۔ اس ملاقات پر شدید ردِعمل فطری ہے کہ حمداللہ محب نے رواں برس مئی میں پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے دریدہ دہنی کی انتہا کردی تھی، اور پاکستان کے بارے میں نہایت نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے، جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کی حکومت کو پیغام دیا تھا کہ پاکستان اُس کے مشیر سلامتی کے ساتھ کسی قسم کا سرکاری رابطہ نہیں رکھے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا: ’’عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ امن کا پیغام لے کر افغانستان جاتے ہیں اور تم پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہو؟ تم کو شرم آنی چاہیے۔‘‘
پارلیمنٹ ہائوس میں قومی سلامتی سے متعلق کمیٹی کو افغانستان کی تازہ صورتِ حال پر بند کمرے میں جو بریفنگ دی گئی تھی اس میں اراکین پارلیمنٹ کو باور کرایا گیا کہ اِس بار ہم افغانستان میں شروع ہونے والے تنازعے کے دوران کسی فریق کے ساتھ نہیں، بلکہ سنگل لائن پیغام یہ تھا ’’اب کی بار ہم مکمل طور پر غیرجانب دار ہیں‘‘۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر طالبان نے افغانستان کے شہری علاقوں کا رخ کیا تو شدید خونریزی ہوگی اور شہروں پرقبضہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لیے یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغان تنازع ایک بار پھر جنم لے رہا ہے، نئے مسائل ہماری دہلیز پر کھڑے ہیں، اور یہ خطہ کسی نئے بحران میں گھرا ہے۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مانیٹرنگ گروپ نے سلامتی کونسل میں جو رپورٹ پیش کی ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے پندرہ صوبوں میں دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی بھتہ خوری اور اسمگلنگ کے ذریعے فنڈز اکٹھے کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ایسی ہی تنظیموں کے بارے میں ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں اچانک بڑھ گئی ہیں۔ تازہ ترین واقعہ داسو کا ہے، جس نے پاکستان اور چین کی حکومتوں کو پریشان کردیا ہے۔ اس سانحے کے ردعمل میں چینی حکومت نے داسو ڈیم پر کام فوری طور پر روک دیا تھا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ ہنگامی طور پر چین کے دورے پر گئے جہاں دوسرے امور کے علاوہ چینی انجینئروں کی ہلاکت کے معاملے پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ اِن حالات میں اقوام متحدہ کی رپورٹ خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ لاہور کے حالیہ دھماکے میںبھی بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل چکے ہیں اور بعض ناموں کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین جنرل مزمل حسین نے بھی اسلام آباد میں چین کے سفیر کے ساتھ ملاقات میں اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ ڈیم پر تعمیراتی کام جلد شروع ہوجائے گا۔داسو حادثے کے فوراً بعد چین نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ اپنی انٹیلی جنس کے افسروں کا ایک وفد بھی پاکستان بھیج رہا ہے، جو اس بات کا سراغ لگائیں گے کہ پاکستان کے حفاظتی اور سیکورٹی سیٹ اَپ میں کیا خامیاں تھیں کہ دہشت گردوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ ابھی تک تحقیقات جاری ہیں۔