آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوچکے ہیں، اب وزارتِ عظمیٰ کے لیے نام کا اعلان باقی ہے۔ اس دوڑ میں ایک ایسا امیدوار بھی شامل ہے جس نے دو ارب روپے اس ہدف کے حصول کے لیے لگا دیے ہیں۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے یہ پہلے انتخابات تھے، تاہم انتخابی عمل میں شریک کسی بھی سیاسی جماعت نے اسے انتخابی مہم کا موضوع نہیں بنایا۔ مسلم لیگ(ن) یہ باور کراتی رہی کہ وہ کشمیر کو الگ صوبہ نہیں بننے دے گی، اس کے جواب میں وزیراعظم آگے بڑھے اور انتخابی مہم کے دوران جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کرائے جائیں گے، پہلے ریفرنڈم میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے، دوسرے ریفرنڈم میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے، اور آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔
وزیراعظم کی بات یہاں تک تو درست ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک ان قراردادوں پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ وزیراعظم نے کشمیر میں ریفرنڈم کی بات کی ہے تو انہیں سب کچھ کھول کر رکھ دینا چاہیے اور صاف صاف بتادینا چاہیے کہ کیا اقوام متحدہ نے ایسی کوئی یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ کشمیر کے دونوں حصوں میں ریفرنڈم کروانے کی تیاریاں کررہا ہے؟ یہ ریفرنڈم جب بھی ہونا ہے کشمیر کی پوری ریاست میں ہونا ہے، اور ریفرنڈم کی بعض شرائط بھی ہیں جو پوری کرنا ہوں گی۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ بھارت کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔کشمیر کو بھارت کے آئین میں جو خصوصی حیثیت دی گئی تھی اُس کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس وقت کشمیر کی ریاست کو مرکز سے کنٹرول کیا جارہا ہے، اور مودی کا منصوبہ یہ ہے کہ یہاں کوئی نام نہاد انتخابات کراکے کشمیر کو اسی طرح بھارت کی ریاست ڈکلیئر کردیا جائے، جس طرح باقی ریاستیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے مودی نے پچھلے دِنوں اُن کشمیری جماعتوں کی ایک کانفرنس بھی طلب کی تھی جو ریاست کے بھارت سے الحاق کی حامی ہیں، لیکن ان جماعتوں نے بھی مودی کا یہ منصوبہ قبول نہیں کیا۔ حریت کانفرنس، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی جماعتیں پہلے ہی یہ منصوبہ مسترد کرچکی ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ پہلے5اگست کا اقدام ختم کیا جائے اورکشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جس ریفرنڈم کی بات کررہے ہیں وہ کہاں ہوگا؟ اور اقوام متحدہ نے اس کی کیا تیاری کررکھی ہے؟ مقبوضہ کشمیر کو بھول کر آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کی حکمت اور منطق لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ راز بھی شاید کبھی نہ کھلے کہ بیٹھے بٹھائے ریفرنڈم کی بات کیوں کردی گئی! پاکستان میں کشمیر ایک آزاد ریاست ہے، جس کے اپنے آئینی ادارے ہیں۔ وزیراعظم جس دوسرے ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں، محسوس ہوتا ہے وہی اُن کے پیش نظر ہے، اور اگر آزاد کشمیر میں اُن کی حکومت بنتی ہے تو وہ شاید اس کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ رکھتے ہیں، جس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ یہ پراسراریت ختم ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ میں اس کا خاکہ سامنے لایا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان کا آرٹیکل 275 کہتا ہے کہ ریاست پاکستان کا حصہ ہوں گے پھر کشمیری یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ صوبے کی طرح رہنا چاہتے ہیں یا کسی اور طرح کا انتظام چاہتے ہیں پاکستان کے اندر۔
عمران خان نے جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ریفرنڈم ہو گا اور آپ فیصلہ کریں گے کہ انڈیا نہیں، آپ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد میری حکومت پھر ایک ریفرنڈم کروائے گی جس میں کشمیر کے لوگوں کو ہم کہیں گے کہ آپ فیصلہ کریں کہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد رہنا ہے۔‘‘
آزاد کشمیر میں ریاستی قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی مریم نوازشریف نے متعدد بار کہا کہ کشمیر کو صوبہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ وزیراعظم نے اسی بات کا جواب دیا ہوگا، لیکن دوسرے ریفرنڈم کی بات کہاں سے آئی؟ وزیراعظم نے کشمیر میں دو ریفرنڈم کا عندیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ پہلا ریفرنڈم اقوامِ متحدہ کے تحت ہوگا جس میں کشمیری عوام پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں گے، جبکہ ہماری حکومت میں ہونے والے دوسرے ریفرنڈم میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم کے اس اعلان پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ یہ اعلان کشمیری عوام کی سات دہائیوں پر مبنی الحاقِ پاکستان کی جدوجہد، اور کشمیر پر پاکستان کے مستقل اور متفقہ قومی مؤقف سے کسی بھی طور ہم آہنگ نہیں۔ کشمیریوں کی بھاری اکثریت کی تمام تر جدوجہد پاکستان میں شمولیت کے لیے ہے۔ تنازع کشمیر کے اس پس منظر میں وزیراعظم عمران خان کا کسی قومی مشاورت، پارلیمنٹ میں کسی مباحثے اور پالیسی سازی کے بغیر اچانک ایک انتخابی جلسے میں یہ اعلان کہ ’’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جب کشمیری پاکستان سے الحاق کا فیصلہ دے دیں گے تو پھر حکومتِ پاکستان ایک اور استصوابِ رائے کے ذریعے سے انہیں پاکستان کا حصہ یا ایک خودمختار مملکت بننے کا فیصلہ کرنے کا حق دے گی‘‘ بظاہر متفقہ قومی مؤقف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔ پاکستان کی حکومت کا روڈمیپ اس حوالے سے کیا ہے، اور بھارتی آئین کی دفعہ 370کے خاتمے کے سراسر ناجائز فیصلے کے بعد متفقہ قومی حکمتِ عملی وضع کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے اب تک کسی کُل جماعتی کانفرنس کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟ پارلیمنٹ کو آگے بڑھ کر حکومت سے ان سوالوں کے جواب مانگنے چاہئیں، کیونکہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے، پارلیمنٹ ہی حکومت اور وزیراعظم پر سخت گرفت کر سکتی ہے۔