افغانستان میں موجود روسی فوجیں14اپریل 1988ء کو ہونے والے جنیوا معاہدے کے تحت1989ء میں انتقالِ اقتدار میں کردار ادا کیے بغیر نکل گئیں۔ مخالف افغان جماعتیں، ماسکو کی حواری کابل حکومت کے اقتدار سے الگ ہونے، عبوری حکومت کے قیام اور انتخابات کے مؤقف پر مُصر تھیں۔ ماسکو نے نکلنے کے بعد بھی کابل حکومت کے لیے تکنیکی، اسلحی اور مالی مدد جاری رکھی۔ دراصل ڈاکٹر نجیب اللہ بے دست و پا تھے۔ فی الواقع اقتدار کی طنابیں پرچم پارٹی کے فارسی بان سیاسی و فوجی بڑوں اور افسر شاہی کے ہاتھ میں تھیں۔ بھارت اور ایران کی پوری کمک اس گروہ کے ساتھ تھی۔ ان کی صفوں میں استاد برہان الدین ربانی کی جمعیتِ اسلامی اور شوریٰ نظار کے سربراہ احمد شاہ مسعود شامل تھے۔ اس گروہ کے ہتھے چڑھنے کے خوف سے ڈاکٹر نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لے لی تھی۔ انہی کے مسلح لوگوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو ملک سے باہر جانے نہ دیا، اور بھارت نے بھی انہیں دہلی لے جانے سے انکار کردیا۔ بھارتی سفارتی حکام اس کا یہ جواز دے چکے ہیں کہ ایسا کرنے سے پرچمی اور شمال کے دوسرے گروہ ناراض ہوجاتے۔ شمالی گروہ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حوالگی چاہتے تھے۔
پاکستان کابل میں ہونے والے اس کھیل سے بے خبر تھا، بلکہ اُن دنوں اسلام آباد کے بجائے تمام سرگرمیوں کا مرکز تہران بن چکا تھا۔ حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار بُنے جانے والے اس جال کا پورا ادراک رکھتے تھے۔ اسلام آباد دانائی اور عمدہ تدبیر کے زعم میں مبتلا تھا۔ ایران، بھارت، روس، امریکہ بہرطور گلبدین حکمت یار کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ اسلام آباد بھی حکمت یار کی راہ میں روڑے اٹکا رہا تھا۔ بالآخرصبغت اللہ مجددی کو دو ماہ کی عبوری حکومت سونپ دی گئی۔ کابل جاتے ہی مجددی کمیونسٹوں، شمالی گروہوں اور بھارت کے ساتھ بغل گیر ہوگئے۔ ان کے بعد آنے والے عبوری صدر برہان الدین ربانی تو تھے ہی اسی قبیلے کے نمائندے۔ ان عبوری ادوار میں حزبِ اسلامی کے ٹھکانوں پر بمباری میں بھارتی پائلٹ بھی حصہ لیتے تھے۔ چناں چہ افغانستان میں مرکزیت نہ رہی، اور بدامنی و لاقانونیت چار سُو پھیل گئی۔
آج وہی کھیل پھر سے کابل کے اسٹیج پر دہرایا جارہا ہے۔ واشنگٹن کے لانچ کردہ ڈاکٹر اشرف غنی اور دوسرے لوگ کسی صورت اقتدار سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ درحقیقت ڈاکٹر اشرف غنی بعینہٖ شمال کی جماعتوں اور زور آوروں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ انہیں محض ان کی پشتون شناخت کی بنیاد پر آگے رکھا گیا ہے۔ طالبان کے ساتھ حالیہ دوحہ بات چیت سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جہاں اگرچہ سابق صدر حامد کرزئی کی صلاح شامل ہے، مگر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں استاد عطا محمد نور، حزبِ وحدت کے سربراہ یونس قانونی، استاد محقق، جنرل عبدالرشید دوستم کے بیٹے باتورر دوستم، وزیر مملکت سلام رحیمی، وزیر مملکت سید سعادت منصورنادری اور سابق نائب صدر کریم خلیلی غالب ہیں۔ حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار اس بات چیت میں شامل نہیں۔
طالبان کا ملک کے غالب حصے پر قبضہ ہے لیکن صوبائی دارالحکومتوں سے حکمت ِعملی کے تحت دور ہیں۔ اقتدار پر مطلق اختیار کے بجائے وہ قومی اتفاقِ رائے، نئی حکومت کے قیام اور ڈاکٹراشرف غنی کے اقتدار چھوڑنے کا مؤقف رکھتے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی ہیں کہ استعفیٰ دینے کے بجائے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ بدیہی طور پر امن اس رجیم کے ہٹ جانے سے ہی یقینی بن سکتا ہے۔
امریکہ بوریا بستر لپیٹ کر افغانستان سے نکل رہا ہے، بگرام سمیت دوسرے اڈے خالی کرچکا ہے، اور اڈوں سے نکلتے وقت کابل کی حکومت اور فوج کو خبر تک نہ ہونے دی۔ طالبان ماضی کے حالات، حزبِ اسلامی کے ساتھ دھو کے اور جنیوا کے بے اثر معاہدے کو پیش نظر رکھ کر کامیاب ڈپلومیسی کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔مذاکرات کی میز پر انہیں ورغلایا نہیں جا سکا۔البتہ انحراف مقابل کی طرف سے ہو رہا ہے۔ دوحہ میں طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا جس پر وہ ثابت قدم رہے، لیکن امریکہ اپنے قول پر قائم نہیں رہا۔اس نے بارہا خلاف ورزیاں کیں۔ نکلتے وقت بھی امریکی طیاروں نے قندھار اور ہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
کٹھ پتلی اشرف غنی کہتے ہیں کہ طالبان قیدیوں کو رہا کرکے غلطی کی گئی۔ کابل حکومت کا اس ذیل میں بھی طرزِعمل منافقانہ تھا۔ اس نے رہا ہونے والے طالبان قیدیوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی۔ ان کے گھروں پر حملے کرائے۔ کابل رجیم کبھی امن عمل میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتا ہے اور کبھی الزامات کی بھرمار کردیتا ہے۔ بگرام اڈہ خالی ہونے کے بعد کابل کی کٹھ پتلی حکومت نے پاکستان سے کردار ادا کرنے کی پُرزور اپیل کردی، اور راست قدم خود نہیں اٹھا رہی۔
اب ایک بار پھر پروپیگنڈہ مہم زوروں پر ہے۔ اسلام آباد میں متعین افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحب زادی سلسلہ علی خیل کے اغوا اور تشدد کا بے سروپا افسانہ گھڑا گیا۔ ا گلے دن کابل نے سفیر کو طلب کرلیا۔ یہ ڈراما پاکستان پر بین الاقوامی دبائو ڈالنے کا حربہ ہے۔ یقیناً اس افسانے کا خالق بھارت ہی ہے۔ پاکستان کے اندر کابل سے لگائو کا رجحان رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے تو اس ایشو کو اٹھانا سمجھ میں آتا، افسوس مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے حکومت کے عناد میں ریاست کے مفاد کے برخلاف غیر ملکی پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے اور اسے سچ باور کرانے کی دانستہ کوشش کی۔ لندن میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف سے کابل حکومت کے وزیرخارجہ حنیف اتمر کی قیادت میں وفد کی ملاقات بھی معنی خیز ہے۔
احمد شاہ مسعود کے پروردہ امراللہ صالح اور حنیف اتمر مسلسل فساد پر مبنی بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کے آگے ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا ہے، (باقی صفحہ41پر)
جبکہ خود ان کا ملک 20سال تک امریکی مقبوضہ رہا ہے، حتیٰ کہ بھارت بھی ان پر حاکم ہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ماتحت ادارے کے طور پر اب بھی کام کررہی ہے۔ افغانستان میں موجود بیرونی افواج کے اڈے، وہاں قائم قید خانے اُن کے قانون کے دائرے سے باہر تھے۔ امریکیوں پر کابل کا امیگریشن قانون لاگو ہی نہیں ہے۔ ان کی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ حامد کرزئی کے پہلے دورِ صدارت میں امریکہ سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے موقع پر کابل کا ایوانِ صدر جملہ ملازمین سے خالی کرایا گیا۔ اندر رہنے والے چند وزیروں اور مشیروںٖ کو امریکیوں کی اجازت کے بغیر حرکت کی اجازت نہ تھی۔ معاہدے پر دستخط کے مراسم کی ادائیگی کے لیے ایوانِ صدر میں میز رکھنے کے لیے بندہ نہ تھا۔ یہ خدمت خواص نے انجام دی۔ حامد کرزئی حکومت کے مارشل جنرل فہیم اور صبغت اللہ مجددی مرحوم سمیت آنے والے تمام بڑوں کی جامہ تلاشی لی گئی بلکہ ٹوپیاں اور پگڑیاں تک اتار کر چیک کی گئیں۔ امریکی صدر بارک اوباما رات کے آخری پہر معاہدے پر دستخط کرنے پہنچے۔ ان کا ملک اور حکومتیں کتنی آزاد اور خودمختار ہیں،اس کا احوال سابق صدر حامد کرزئی سے دریافت کیا جائے تو وہ یقیناً یہ روداد تفصیل سے بیان کردیںگے۔
غرضیکہ آج اگرچہ حالات 1990ء کی دہائی والے نہیں ہیں، تاہم پھر بھی دانش مندی اشرف غنی رجیم کے اقتدار فوری چھوڑنے میں ہے، تاکہ دوحہ میں ہونے والی بات چیت نتیجہ خیز بنے۔ بھارت بھی مزید تخریب کے بجائے معروضی حقائق اب تسلیم کرہی لے۔