امریکی وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اگست کے آخر تک مکمل کرلیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کے ہمراہ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ”ناخوشگوار نتیجہ“ خارج از امکان نہیں۔ ہم صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور حکمت ِ عملی میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کی جاتی رہے گی۔ جنرل ملی نے کہا کہ افغانستان کے 400 میں سے 213 اضلاع کے مرکزی مقامات پر طالبان کا قبضہ ہے، لیکن اب تک طالبان نے کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا۔ جنرل صاحب کا خیال ہے کہ طالبان کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کے بجائے ان کا محاصرہ کرکے سرکار کو مفلوج کردینا چاہتے ہیں۔
جناب آسٹن کی اس یقین دہانی کے دو دن بعد امریکی فوج کے سہولت کاروں کے لیے مزید 8 ہزار خصوصی امیگریشن ویزے جاری کرنے کی قرارداد امریکی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) نے منظور کرلی۔ اس سے پہلے خصوصی ویزے پر آئے ہوئے 2500 افراد کے لیے امریکی دارالحکومت کے قریب ورجینیا چھاؤنی میں عارضی رہائش کا بندوبست کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ 2008ء سے اب تک امریکی فوج کے 73ہزار مترجمین اور دوسرے مددگاروں کو امریکہ میں رہنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اپنے حامیوں اور حاشیہ برداروں کو ہٹانے کے واضح اعلان سے تو لگ رہا ہے کہ دوائے دل بیچنے میں ناکامی کے بعد چچا سام افغانستان سے اپنی دکان بڑھا لینے کا حتمی فیصلہ کرچکے ہیں۔ یہ اور بات کہ دکان داری کے اس ولایتی شوق نے کہساروں کی اس سرزمین کو ریت کا ڈھیر بنادیا۔ اسی مشغلہِ شیطانی نے 1965ء سے 1975ء تک ویت نام میں دس لاکھ انسانوں کی جان لی تھی۔
افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کے ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن میں عراق سے بھی فوجی انخلا کی سرگوشی سنائی دے رہی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، عراق میں تعینات 2500 امریکی سپاہیوں کی سرگرمیاں بیرکوں میں عراقی فوج کی تربیت تک محدود کردی گئی ہیں۔ پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع) کا کہنا ہے کہ عراق سے فوری انخلا کا کوئی ارادہ نہیں۔ لیکن امریکی سیاست دانوں کی بات کب کس نے معتبر جانی ہے؟
ہے دلبرِ خوباں کی ہر بات کے سو پہلو
اقرار کے پردے میں انکار نکلتا ہے
فوجی انخلا کے ساتھ افغانستان پر امریکی فضائیہ کی وحشیانہ بمباری بھی جاری ہے۔ عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن ہلمند، قندھار، پکتیا، پکتیکا، غزنی اور نمروز سمیت اٹھارہ صوبوں میں شدید بمباری کی گئی، جس سے درجنوں شہری جاں بحق ہوئے۔ دورانِ عید صدارتی محل پر راکٹ باری کے سوا سارے افغانستان میں تشدد کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ طالبان نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے نمازِ عید پر راکٹ داغنے کی شدید مذمت کی ہے، ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان نماز قائم کرنے کے لیے اٹھے ہیں، وہ نمازیوں پر حملہ کیسے کرسکتے ہیں! تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ داعش کی کارروائی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا تھا کہ امریکی فوج داعش کو اسلحہ فراہم کررہی ہے۔
بمباری کے ساتھ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت جاری رہنے کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ عید سے ایک دن قبل شمالی قبرص جاتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے استنبول ائیرپورٹ پر اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے افغان طالبان پر زور دیا کہ اپنے بھائیوں کی زمین سے قبضہ چھوڑ دیں۔ ترک حکومت کے حامی روزنامہ صباح کے مطابق، جناب اردوان نے کہا “The Taliban should end the occupation of the soil of their brothers”
ترک صدر نے اس جملے کی وضاحت سے گریز کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ کابل ائیرپورٹ کے انتظام کے لیے ترکی طالبان سے براہِ راست بات کرے گا۔
امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کی تکمیل پر ترکی کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائے۔ نیٹو سربراہ اجلاس کے دوران اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے دوران جناب اردوان نے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طبقات کی متفقہ رضامندی کے بعد ہی ترکی یہ ذمہ داری قبول کرے گا۔ ترک صدر کا اب کہنا ہے کہ طالبان کے تحفظات کے باوجود ترکی کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے امریکہ اور نیٹو کو ترکی کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ منگل (22 جولائی) کو شمالی قبرص میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا ”ہماری پیشکش امریکہ کی مالی، مواصلاتی (Logistics) اور سفارتی مدد سے مشروط ہے۔“
جناب اردوان نے کہا کہ اس ضمن میں امریکہ کی جانب سے سفارتی محاذ پر ہماری حمایت شرطِ اوّل ہے۔ امریکہ کو مواصلات کے باب میں بھی ہماری مدد کرنی ہوگی اور تمام وسائل و ٹیکنالوجی تک ترکی کی رسائی یقینی بنانا ہوگی۔ اس خدمت کی فراہمی اور انتظامی اخراجات کے لیے مالی وسائل درکار ہیں جس کے لیے امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے طالبان کے شکوک و شبہات کا ذکر کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ ہم طالبان کو اعتماد میں لینے کے لیے مخلصانہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کیے ہیں۔ ہم سےبات چیت تو (اس کے مقابلے میں) کہیں زیادہ دوستانہ ماحول میں ہوسکتی ہے۔
ترک صدر کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان کو اسلحہ یا فوج کی نہیں، تباہ حال ملک کی تعمیر نو کے لیے ترک انجینئروں اور ماہرین کی ضرورت ہے۔
سفارتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر اردوان امریکیوں کی مدد کرکے اُن کے دلوں میں نرم گوشہ بنانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اُس وقت سے ہے جب جولائی 2016ء میں اردوان کے خلاف ناکام فوجی کارروائی کے دوران باغی طیاروں نے انسرلیک (ترکی) کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارتِ دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا، اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔ شام اور عراق میں ترک مخالف کرد علیحدگی پسندوں کی امریکی پشت پناہی اور مشرقی بحرِ روم کے معدنی حقوق پر اٹھنے والے تنازعے میں امریکہ کی جانب سے جنوبی قبرص اور یونان کی حمایت سے انقرہ سخت برہم ہے، تو دفاعی پیداوار میں ترکی کی خودکفالت، خاص طور سے بنکر شکن میزائیل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک کی تیاری امریکہ کو پسند نہیں۔ پہلے لیبیا اور اس کے بعد نگورنو کاراباخ میں ترک ساختہ ڈرون نے جنگ کا پانسہ پلٹنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے اس سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔
روس سے S-400 طیارہ و میزائیل شکن دفاعی نظام کی خریداری نے امریکہ ترک کشیدگی کو عروج پر پہنچادیا، اور ”پابندیوں کے ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا قانون“ یا CAATSAکے تحت ترکی پر سخت ترین تجارتی قدغنیں لگادی گئیں۔ اس قانون کے تحت امریکہ کے نامزد تین بڑے دشمنوں یعنی ایران، شمالی کوریا اور روس سے فوجی تعاون، اسلحے کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔
ان پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس غیر مرئی (Stealth) بمبار کی تیاری میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اس کا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ مزے کی بات کہ F-35تک انقرہ کی رسائی محدود کردیے جانے کے باوجود یہ شیل اب بھی ترکی سے خریدے جارہے ہیں، حالانکہ شیل بنانے والے ادارے SSB کے سربراہ اسماعیل دمیر اور اُن کے تین ساتھیوں پر امریکہ نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ان طیاروں کی ترقی و تیاری کے لیے ترکی نے امریکہ کو بھاری رقم ادا کی ہے۔ پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے روسی وزیرخارجہ Sergey Lavrov نے اسے امریکی تکبر کی ایک مثال قرار دیا ہے۔
جو بائیڈن، صدر اردوان کے بارے میں اپنے منفی خیالات کے اظہار پر کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے، اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو 2023ء کے ترک صدارتی انتخابات میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Change کی کوشش کی جائے گی۔
امریکہ ترک باہمی تجارت کا حجم 21 ارب ڈالر کے قریب ہے، اور ترکی امریکہ کو سالانہ 12 ارب ڈالر کا مال برآمد کرتا ہے۔ ان پابندیوں سے ترکی کی برآمدی صنعت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے جو کورونا کی وجہ سے پہلے ہی شدید دبائو میں ہے۔ صدر اردوان کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی مشکلات ترکی کے لیے ایک تزویراتی (Strategic) موقع ہے، اور وہ واشنگٹن کی مدد کرکے تجارتی پابندیاں ختم یا کم ازکم نرم کروانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں طالبان کی ناراضی کابل ائیرپورٹ پر تعینات ترک افواج کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ بہادر کی احسان فراموشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
دوسری جانب افغانستان کی شمالی سرحدوں پر عسکری نقل و حرکت کی اطلاعات ہیں۔ روس نے افغان تاجک سرحد پر ٹینک اور بکتربند گاڑیاں تعینات کرنے کے ساتھ توپ خانے بھی نصب کردیے ہیں۔ ہفتہ 24 جولائی کو افغان سرحد پر فوجی مشقوں کے دوران اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے تاجک صدر امام علی رحمانوف نے تفصیلات میں جائے بغیر کہا کہ افغانستان میں امن کی مخدوش صورت حال کے پیشِ نظر تاجک فوج کو حد درجہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے افغان رہنمائوں سے کہا کہ وہ وسیع ملّی و علاقائی مفاد کو ذاتی اغراض پر ترجیح دیں، کہ افغانستان میں بدامنی سے سارا وسط ایشیا متاثر ہوسکتا ہے۔ روس نے ازبک افغان سرحد کے قریب بھی مشترکہ فوجی مشقوں کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس مہینے کے آغاز پر ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کاملوف نے واشنگٹن میں اپنے امریکی ہم منصب سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں امن کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اُس کے شمالی پڑوسیوں کو سخت تشویش ہے۔
متوقع غیر ملکی مداخلت اور قطر مذاکرات میں تعطل کے ساتھ افغانستان سے پسِ پردہ مذاکرات کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ کابل کے صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قطر میں ہونے والے باقاعدہ امن مذاکرات کے ساتھ افغانستان میں غیر اعلانیہ متوازی بات چیت جاری ہے۔ سابق صدر حامد کرزئی، حزبِ اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار اور یونس قانونی، طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ سے رابطے میں ہیں۔ امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس یا APکو ایک تفصیلی انٹرویو میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ اگر ڈاکٹر اشرف غنی کو معزول کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت پر اتفاق ہوجائے تو طالبان ہتھیار رکھ کر آئینی اصلاحات سمیت باقی تمام معاملات پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ سہیل شاہین نے متوازی مذاکرات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی لیکن تاثر دیا کہ عبوری حکومت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر اشرف غنی ہیں جو طولِ اقتدار کے لیے تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ جناب شاہین نے کہا کہ افغانستان سب کا گھر ہے اور اقتدار پر ایک طبقے، گروہ یا دھڑے کی اجارہ داری کسی کے مفاد میں نہیں۔ طالبان کے فاضل ترجمان نے کہا کہ طالبان صحافت سمیت خواتین کی ملازمت یا تعلیم پر پابندی کے حق میں نہیں۔ اسکارف پوش خواتین کو سفر کی بھی مکمل آزادی ہوگی، اور گھر سے نکلتے ہوئے محرم ساتھ رکھنے کی کوئی شرط عائد نہیں کی جائے گی۔ متوازی مذاکرات میں اس بات پر اصولی اتفاق پایا گیا کہ جب تک بات چیت جاری ہے طالبان کابل اور صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوشش نہیں کریں گے۔ سہیل شاہین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کچھ مقامات پر طالبان کی جانب سے عوام پر زیادتی کی اطلاعات ملی ہیں، تاہم ذمہ دار کمانڈروں کو عدالتی کارروائی کے بعد سزائیں دے دی گئی ہیں۔
جہاں عیدالاضحیٰ پر دو دن کی غیر اعلانیہ جنگ بندی کے بعد ہلمند، کپیسا، قندوز، تخار، بدخشاں، لوگر اور جوزجان صوبوں میں شدید لڑائی ہورہی ہے، وہیں ایران اور ترکمانستان سے افغانستان کا تجارتی رابطہ بھی پوری طرح بحال ہوچکا ہے۔ ترکمن افغان سرحد پر تورغنڈی اور ایران سے اسلام قلعہ اور شیخ ابونصر فراہی کسٹم چیک پوسٹ کے راستے، معمول کی درآمد و برآمد کے لیے کھول دیے گئے ہیں جس کی بنا پر ایندھن اور ضروری اشیا کی قلت کا خطرہ ٹل گیاہے۔ یہ تینوں کسٹم چوکیاں اب طالبان کے زیرانتظام ہیں۔ یہ بندوبست کابل سرکار کے لیے قابلِ قبول نہیں، اور گورنر ہرات کے ترجمان جیلانی فرہاد کا کہنا ہے کہ افغان حکومت عوام کے وسائل دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ طالبان چنگی کی مد میں لاکھوں ڈالر روزانہ وصول کررہے ہیں۔ ہرات حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ فوجی کمک بھیجی جارہی ہے، اور جلد ہی اسلام قلعہ چیک پوسٹ سے طالبان کو بھگا دیا جائے گا۔
ترکی، امریکہ اور افغانستان کے شمالی پڑوسیوں کی جانب سے متوقع مداخلت کے پیش نظر اس مسئلے پر چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تعاون کی اطلاعات ہیں۔ افغان ذرائع کے مطابق ہفتے کو جنوب مغربی چین کے صنعتی شہر چنڈو (Chengdu) میں چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اس مسئلے پر تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ چین کو افغانستان کے معاملے سے گہری دلچسپی ہے، کہ واخان راہداری کے ذریعے افغان صوبے بدخشاں کی سرحد چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے ملی ہوئی ہے جہاں بہت عرصے سے خاصی بے چینی ہے۔ چین کو ڈر ہے کہ امریکہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاکر سنکیانگ میں مداخلت کے نئے راستے تلاش کرسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں لندن میں افغان صدر کے مشیرِ قومی سلامتی حمداللہ محب اور وزیر امن سید سعادت نادری پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کی۔ اس سلسلے میں نوازشریف یا مسلم لیگ (ن) نے تو کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا لیکن افغان قومی سلامتی کونسل یا NSC کے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔ یہ ملاقات اس اعتبار سے بہت زیادہ اہم نہیں کہ افغانستان کے دین دار حلقے میاں صاحب کو اسلامی قوتوں کا سخت مخالف اور ملک دشمن لابی کا پشت پناہ سمجھتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد نہ تو کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اور نہ ہی نوازشریف کی طرف سے کوئی بیان، کہ جس میں بات چیت کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں۔
امن کے حوالے سے افغانستان کی صورت حال بہت ہی غیر واضح ہے۔ گزشتہ 42 سال سے جاری غیر ملکی مداخلت ہی نے افغانستان کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ عسکری انخلا کے باوجود امریکہ افغانستان سے نکلنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ واشنگٹن کے اثر رسوخ سے خائف افغانستان کے دوسرے پڑوسی بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مداخلت پر آمادہ لگ رہے ہیں۔ افغانوں کی نہ ختم ہونے والی باہمی لڑائی نے اس بدنصیب ملک میں بیرونی مداخلت کا راستہ ہموار کیا۔ خانہ جنگی کی یہ آگ کتنے مزید افغانوں کے خون سے ٹھنڈی ہوگی اس کے بارے میں بھی کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
…٭…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔