سب سے پہلے تمام پاکستانیوں کو عید کی مبارک باد۔ اللہ پاک سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین! میں نے اپنے ایک پچھلے کالم میں حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ کا مشہور مقولہ درج کیا تھا جو کچھ یوں ہے: ’’حضرت عیسیٰؑ کا گدھا لاتعداد مرتبہ مکہ گیا مگر جب بھی واپس آیا وہ گدھا ہی تھا‘‘۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کا کردار و اخلاق خراب ہے تو آپ حج کریں یا زیارت ِمسجد نبوی۔۔۔ آپ کے کردار و اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، مگر جن لوگوں کی بچپن سے اچھی تربیت ہوتی ہے وہ مرتے دم تک اعلیٰ اقدار کے حامل رہتے ہیں خواہ ان کو غربت اور مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایک دوست نے ایک نہایت نفیس، ہدایت آمیز واقعہ واٹس ایپ پر بھیجا ہے جو اتنا مفید ہے کہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا ایک فرض سمجھ رہا ہوں۔ واقعہ کچھ یوں ہے:
دوڑ کے مقابلوں میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا رَنر ایون فرنانڈیز دوڑ رہا تھا، اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رُک رہا ہے تو اس نے اسے آواز دی کہ دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی۔ مطیع اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس لیے اسے بالکل سمجھ نہ آئی۔ یہ بہترین موقع تھا کہ فرنانڈیز اس سے آگے نکل کر دوڑ جیت لیتا، مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا، اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کر فنش لائن سے پار کروا دیا۔ تماشائی اس اسپورٹس مین اسپرٹ پر دنگ رہ گئے۔ فرنانڈیز ہار کر بھی ہیرو بن چکا تھا۔ ایک صحافی نے بعد میں فرنانڈیز سے پوچھا ”تم نے یہ کیوں کیا؟“ فرنانڈیز نے جواب دیا ’’میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے‘‘۔ صحافی نے پھر پوچھا ’’مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا؟‘‘ فرنانڈیز نے جواب دیا ’’میں نے اسے جیتنے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی‘‘۔ صحافی نے اصرار کیا ”مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے“۔ فرنانڈیز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا ’’اس جیت کی کیا اہمیت ہوتی؟ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟“ اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہیے؟ بلاشبہ یہ کہ جیتنے کے لیے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا، وہ آپ کی نظر میں جیت ہوسکتی ہے، دنیا کی نظر میں آپ کو بددیانت کے سوا کوئی خطاب نہیں ملے گا۔ حقیقت میں ابھی دنیا کے انسانوں کا اجتماعی شعوری لیول Infancy میں ہے، ابھی ہم ان نفرتوں سے اوپر نہیں اٹھ سکے کہ یہ ہمارے فرقے کا نہیں ہے، اس کا رنگ ہمارے جیسا نہیں ہے، یہ ہمارے جیسی زبان نہیں بولتا، یہ ہمارے قبیلے کا نہیں، یہ ہمارے شہر کا نہیں ہے، اس کا تعلق ہمارے صوبے سے نہیں ہے، اس کا تعلق ہمارے خطے سے نہیں ہے۔ حالانکہ چودہ سو سال پہلے پروردگارِ عالم نے دین کو پیغمبر اسلامؐ کے ہاتھوں کمال تک پہنچایا اور اس میں اُن تمام نفرتوں کا ایک Pragmatic حل دیا ۔ یہ عملی مظاہرہ ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو جن کا بظاہر عربی تلفظ بھی صحیح نہیں تھا اسلام کے گلدستہ اذان پر پیغامِ اسلام پہنچانے کی ذمہ داری دےکر بتایا کہ ہمارا پیغام نہ زبان میں قید ہے نہ رنگ میں۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنے سے قریب کرتے ہوئے کہا کہ سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں۔ یہ کہہ کر سلمان فارسی کو سلمان محمدی بنا دیا اور اس نعرے کی عملی تفسیر پیش کی کہ ہماری تعلیمات میں عربی اور عجمی النسل ہونا نہ فخر کی بات ہے اور نہ ذلت کی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خاتم النبییّن) کے ماننے والے ہونے کے باوجود ہم کیوں اب تک ان نفرتوں پر، ان کمزوریوں پر قابو نہیں پاسکے؟ کیا ہماری عبادات، ہماری ریاضتیں، ہماری پرہیزگاری، ہمارا دین، اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھے بغیر ہے؟ کیا یہ سب اٹھک بیٹھک ہے؟ یہ ہم سب کے لیے سوال ہے۔ خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کی وضاحت فرمادی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے:تم نے صرف زبان سے اسلام کا اقرار کیا ہے، ایمان تو ابھی تمہارے دل سے گزرا ہی نہیں۔ یعنی زبانی ایمان اور دِل سے ایمان لانے میں فرق۔ یہ چھوٹی آیات ہیں لیکن اپنے اندر گہرے معنی رکھتی ہیں۔ میں آپ کو اس آیت کا اردو ترجمہ بھی بتادیتا ہوں۔ ’’بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں، اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی فرماں برداری کرو گے تواللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (سورۃ الحجرات)
میں اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ شاید فرنانڈیز کے جدِّ امجد کی رگوں میں اچھے مسلمانوں کا خون دوڑ رہا ہوگا جو اس کے کردار کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ایک اور نہایت اہم اور پرانا واقعہ اخلاق و کردار اور خاندانی وراثت کی مطابقت سے آپ کو سناتا ہوں۔ بھوپال میں مسلمان عموماً پٹھان تھے۔ دراز قد، خوبصورت۔ ہندو لڑکیاں ان پر عاشق ہوجاتی تھیں اور اُن کے ساتھ بھاگ جاتی تھیں۔ ایک ہندو لڑکی اسی طرح ایک خوبصورت مسلمان پر فریفتہ ہوگئی اور دونوں نے کہیں دوسری جگہ جانے کا پروگرام بنالیا۔ لڑکی کے گھر میں ایک گھوڑی تھی، اس نے کہا وہ یہ لے کر آجائے گی اور وہ دونوں کسی دوسرے علاقے میں چلے جائیں گے۔ وقتِ مقررہ پر وہ گھوڑی لے کر آگئی اور دونوں اس پر بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ خاصی دور جاکر ایک ندی آئی جو گہری نہ تھی۔ لڑکی نے بڑی کوشش کی کہ گھوڑی آگے چلے، مگر اس نے صاف انکار کردیا اور بے قابو ہونے لگی۔ لڑکے نے پوچھا کہ یہ کیوں ایسا کررہی ہے؟ لڑکی نے کہا: اس کی ماں بھی ایسا ہی کرتی تھی۔ لڑکے نے کہا: چلو واپس چلتے ہیں، میں آگے نہ جائوں گا۔ لڑکی نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ ہماری اولاد بھی وہی کرے جو تم کررہی ہو۔ اس طرح وہ واپس آگئے۔ بعد میں لڑکی نے اسلام قبول کرکے شادی کرلی اور وہ خوش و خرم شہر میں رہنے لگے۔ ہندو اس زمانے میں مسلمانوں سے شادی کو برا نہیں جانتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک پرانی کہاوت یاد آتی ہے ’’باپ پر پوت پتا پر گھوڑا۔ بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘۔۔۔ یعنی باپ کا کردار و اخلاق بچوں میں آجاتا ہے۔
(ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ جنگ-26 جولائی 2021ء)