زمین پر زندگی کا راز؟

برطانوی کاؤنٹی گلوسیسٹرشائر میں ایک کھیت سے گزشتہ برس ملنے والے، 460 کروڑ سال قدیم شہابِ ثاقب کے بارے میں ماہرین کو امید ہے کہ یہ زمین پر زندگی کی ابتدا سے متعلق ہمارے اہم ترین سوال کا جواب فراہم کرسکے گا۔ یہ شہابِ ثاقب ’’ایسٹ اینگلین ایسٹروفزیکل ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ (ای اے اے آر او) کے ڈیرک رابسن نے دریافت کیا تھا، جس پر لفبرا یونیورسٹی میں تحقیق جاری ہے۔ یعنی یہ اُس زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب ہمارا سیارہ زمین نیا نیا وجود میں آیا تھا اور شدید گرم، پگھلے ہوئے گولے کی شکل میں تھا۔
البتہ اپنی تشکیل کے وقت یہ شہابیہ خلاء میں گردش کررہا تھا اور ممکنہ طور پر اس کے ایک یا ڈیڑھ ارب سال بعد زمین پر پہنچا تھا۔ جب تک زمین سرد ہوکر ٹھوس شکل اختیار کرچکی تھی۔ جدید ترین تکنیکوں سے سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ باہر سے کسی سیاہ کوئلے جیسا دکھائی دینے والا یہ شہابِ ثاقب، اندر سے بہت نرم اجزاء پر مشتمل ہے جو اسے دیگر شہابیوں سے مختلف بناتے ہیں۔ ’’اس شہابِ ثاقب کی اندرونی ساخت بہت خستہ، ڈھیلی ڈھالی، مسام دار درزوں اور دراڑوں پر مشتمل ہے‘‘، شون فولر نے کہا، جو لفبرا یونیورسٹی میں خردبینی تحقیق کے ماہر ہیں۔ بظاہر ایسا بھی لگتا ہے کہ شہابِ ثاقب کا یہ ٹکڑا ماضی میں شدید سردی اور شدید گرمی وغیرہ سے خاصی حد تک محفوظ رہا ہے، لہٰذا امید ہے کہ اس کے اندر موجود مادّے بھی اب تک اسی حالت میں ہوں گے جیسے وہ آج سے اربوں سال پہلے تھے۔ ان حصوں کا تفصیلی مطالعہ ہمیں زمین پر زندگی کی ابتدا سے متعلق معمے کا بہتر جواب حاصل کرنے میں مدد فراہم کرسکے گا، جس کے بارے میں اب تک ہم واضح طور پر کچھ بھی نہیں جانتے۔ اب تک کے ’’بہترین مفروضوں‘‘ کے مطابق زندگی کو بنیاد فراہم کرنے والے مادّے آج سے اربوں سال پہلے خلاء سے زمین پر گرے تھے اور زمین پر زندگی کی ابتدا بھی انہی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اسی نوعیت کا ایک مفروضہ ’’پین اسپرمیا‘‘ (Panspermia) کہلاتا ہے جو زمین پر زندگی کی ابتدا کی وجہ ’’خلائی اجسام کے اندر رہنے والے‘‘ خردبینی جانداروں کو قرار دیتا ہے جو زمین تک پہنچ کر یہاں زندگی کی ابتدا اور ارتقاء کی وجہ بنے تھے۔