امانت دار تاجر

ابن خریف بیان کرتے ہیں: ’’میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے احمد بن حسب دلاّل کو کچھ کپڑے دیئے اور کہا: ’’ان کپڑوں کو فروخت کر آئو، لیکن ان میں جو عیب ہے وہ خریدار کو بتا دینا۔ میں نے ایک کپڑے کا داغ بھی دکھا دیا۔ وہ چلا گیا۔ دن ڈھلے واپس آیا اور رقم مجھے دیتے ہوئے کہا: ’’اتنے دیناروں میں، مَیں نے کپڑا ایک عجمی کے ہاتھ فروخت کردیا‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’کیا کپڑے کا عیب دکھا دیا تھا؟‘‘ اس نے بتایا: ’’میں دکھانا بھول گیا‘‘۔ میں نے کہا: ’’چل میرے ساتھ‘‘۔ میں اسے ساتھ لیے خریدار کی قیام گاہ پر پہنچا مگر وہ وہاں نہ ملا۔ پوچھ گچھ کے بعد پتا چلا کہ وہ حجاج کے ایک قافلے کے ساتھ مکہ کی طرف چلا گیا ہے۔ میں نے دلال سے اس آدمی کا حلیہ معلوم کیا اور سواری کرائے پر لے کر قافلے کی تلاش میں چل پڑا۔ قافلہ مل گیا اور میں نے اس آدمی کو بھی تلاش کرلیا۔ میں نے اس آدمی کو بتایا کہ ’’آپ نے کل فلاں دلال سے جو کپڑا خریدا تھا، اس میں ایک عیب تھا، وہ واپس کردیجیے اور دام واپس لے لیجیے‘‘۔ وہ کپڑا نکال کر لے آیا اور داغ دیکھا اور کہا: ’’اے شیخ! دینار نکالیے‘‘۔ میں نے اس کے دیناروں کو گنا تھا نہ دیکھا تھا، جیسے ملے تھے ویسے ہی نکال کر دے دیئے۔ دینار لیتے ہوئے وہ بولا: ’’میں نے آپ کو کھوٹے سکے دیئے تھے‘‘۔ اس نے دینار مجھ سے لے کر پھینک دیئے اور نئے دینار دیئے اور کپڑا رکھ لیا‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ فروری 2021ء)