آزاد کشمیر کا انتخابی معرکہ تکمیل کو پہنچا۔ نتائج کے مطابق آزاد کشمیر کے عوام نے اپنی روایت کا تسلسل برقرار رکھا ہے کہ جس جماعت کی حکومت، پاکستان میں وفاق میں ہو، وہی کشمیر میں بھی حکومت بناتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف 45 میں سے 25 نشستیں جیت کر اس قابل ہوگئی ہے کہ کسی دوسری جماعت کی مدد حاصل کیے بغیر آزاد کشمیر میں آسانی سے اپنی حکومت بنا سکے ۔ پیپلزپارٹی کے حصے میں 11 اور نواز لیگ کے حصے میں 6 نشستیں آئی ہیں۔ مقامی جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے بھی ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے، ایک نشست کا نتیجہ ابھی جاری نہیں کیا گیا، کہ وہاں چند انتخابی حلقوں میں ہنگامہ آرائی کے سبب انتخابی عمل روکنا پڑا تھا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ فریقین کی جانب سے انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد بھی جاری ہے۔
انتخابی عمل کے دوران مدمقابل جماعتوں نے بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے عوام، طویل عرصے سے بے مثل جدوجہدِ آزادی میں مصروف مجاہدین، اور حریت قیادت کو اپنی غیر متزلزل حمایت و سرپرستی اور پشتی بانی کا یقین دلانے کے بجائے باہم گالم گلوچ، غدار اور کشمیر فروش قرار دینے، اور ڈاکو، چور اور مودی کے یار جیسے القابات سے نوازنے کو ترجیح دی ہے، جس سے ظاہر ہے مقبوضہ کشمیر اور آزاد خطے کے عوام میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے حوالے سے منفی پیغام دیا گیا ہے، اور جدوجہدِ آزادی میں مصروف کارکنان اور قیادت میں اس کے سبب مایوسی اور تشویش بالکل فطری امر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا رویہ بھی انتخابی مہم کے دوران اپنے منصب کے تقاضوں کے قطعی برعکس غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے آخری روز تراڑکھل میں اپنی تقریر میں مخالفین خصوصاً مریم نواز کی جانب سے بار بار آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے عوام کو حقِ خودارادیت ملنے اور رائے شماری میں کشمیری عوام کی جانب سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں فیصلہ دیئے جانے کے بعد وہ ایک مزید ریفرنڈم کرائیں گے جس کے ذریعے کشمیری عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر اپنا وجود چاہتے ہیں۔ اس طرح گویا جناب عمران خان نے اُس بحث کا دروازہ دوبارہ کھول دیا ہے جس سے کشمیری اور پاکستانی قوم نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی۔ ماضی میں اسے ’’تھرڈ آپشن‘‘ یا خودمختار کشمیر کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہی قرار پائے گی کہ یہاں جو حکمران آتا ہے وہ مسئلہ کشمیر پر قومی اور تاریخی مؤقف کو آگے بڑھانے اور تقویت پہنچانے کے بجائے خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے نت نئے فارمولے پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہمارا قومی مؤقف کمزور ہوتا ہے اور ملک کے اندر فکری انتشار پھیلتا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنے دورِ آمریت میں کشمیر کو پانچ یا سات حصوں میں تقسیم کرنے کی درفنطنی چھوڑی تھی، جب کہ اس سے قبل کے حکمران ’’چناب فارمولا‘‘ بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو کیا یہ معلوم نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے بھارت اور پاکستان دونوں نے کشمیری عوام کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ استصوابِ رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کریں گے کہ اپنی ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ۔ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں میں کہیں خودمختارکشمیر یا تھرڈ آپشن کا کوئی ذکر ہے نہ اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ انہی قراردادوں کی روشنی میں اہلِ پاکستان ہمیشہ سے یہ نعرہ لگاتے آئے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ مقبوضہ کشمیر کے جدوجہدِ آزادی میں مصروف نوجوان شہادت کے بلند مرتبے پر پہنچنے کے بعد اپنی وصیت کے مطابق پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے کفن میں دفن ہونا اپنے لیے اعزاز تصور کرتے ہیں، جب کہ تحریک حریت کے عظیم الشان جلسوں میں بچے، بوڑھے اور جوان بے مثل قائدِ حریت سید علی گیلانی کی گرج دار آواز میں آواز ملاتے ہوئے یہ فلک شگاف نعرہ لگا کر اپنا دوٹوک فیصلہ دنیا کو سناتے ہیں کہ: ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اس کے بعد کیا کسی مزید ریفرنڈم کی گنجائش یا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ:’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ جناب وزیراعظم ارشاد فرمائیں کہ کیا شہ رگ کو جسم سے الگ رکھ کر کسی زندگی کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے…؟