’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر محض دعوے کی بنیاد پر لوگوں کا حق تسلیم کرکے ان کو دے دیا جائے تو لوگ دوسروں کے مالوں اور جانوں کے بارے میں اکثر دعویٰ کرنے لگیں، لیکن قاعدہ یہ ہے کہ گواہ لانا مدعی کے ذمہ ہے اور قسم اٹھانا منکر (انکاری/مدعی علیہ) کے ذمہ ہے‘‘۔
تشریح: یہ حدیث بھی جوامع الکلم احادیث میں سے ہے جس میں دعووں، مقدموں، جھگڑوں کے فیصلے کرنے کے بارے میں ایک اہم اصولی قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا فیصلے کرنے میں اس پر عمل کیا جائے گا اور چند استثنائی صورتوں کے سوا ہر موقع میں اس پر عمل ہوگا۔ قاضیوں، ججوں، منصفوں، سرداروں اور ثالثوں کو یہ حدیث ایک رہنما اصول کے طور پر اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ حدیث کی تشریح کے بارے میں چند باتیں پیش کی جاتی ہیں:
(1) مدعی (دعوے دار) کوئی دعویٰ لے کر آئے تو دعوے کے ثبوت کے لیے اس سے شاہد طلب کیے جائیں گے۔ اس کے کئی پہلو ہیں: اوّل یہ کہ شریعت نے انسانوں میں مساوات، برابری پیدا کرنے اور انصاف دلانے کے لیے ہر مدعی کو یکساں قرار دیا ہے، اور اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ دعوے دار دینی، اخلاقی، مالی اور معاشرتی حیثیت سے کس درجے کا ہے۔ لہٰذا ہر مدعی سے اس کھلے دعوے کے ثبوت کے لیے گواہ طلب کیے ہیں، حتیٰ کہ خلیفہ وقت حضرت علیؓ سے دعوے کے ثبوت کے لیے صحیح گواہ طلب کیے گئے اور انہوں نے دو گواہ پیش کیے، لیکن قاضی شریح نے گواہی کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے وہ رد کردیئے اور مدعی علیہ کو بری کردیا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ مدعی کسی انسان کے ذمے کسی حق کا دعویٰ کرکے اُسے ملزم بنارہا ہے، جبکہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ ہر انسان بری الذمہ (براۃ عن الحقوق) پیدا ہوا ہے۔ ہر انسان بے گناہ، بری الذمہ اور معصوم ہے۔ اس لیے اس کے ذمے کوئی الزام ثابت کرنے کے لیے قوی حجت (مضبوط دلیل) کی ضرورت ہے اور گواہی مضبوط ترین دلیل ہے۔
سوم یہ کہ اگر صرف کسی شخص کے دعوے سے فیصلہ کردیا جائے تو کتنے ہی دعوے دار اٹھ کر لوگوں کے مال ہڑپ کر جائیں گے اور بے انصافی عام ہوجائے گی۔ ان وجوہات کی بنا پر مدعی کے ذمے گواہ لانا لازم کردیا گیا۔
البتہ چند دعوے ایسے ہیں جو بعض ناگزیر اسباب اور دوسری وجوہ کی بنا پر گواہ لائے بغیر ہی قبول کیے جائیں گے جیسے احتلام کے ذریعے بالغ ہونا، مخنث کا مرد یا عورت ہونا، مقروض کا ایسے قرض کی ادائیگی سے مفلس ہونے کا دعویٰ کرنا جو اس پر بغیر کسی مالی عوض کے لازم ہوا ہے جیسے مہر اور امانت کے چوری وغیرہ سے ضائع ہونے کا دعویٰ۔ ان باتوں اور دعووں کو بغیر شاہدوں کے قبول کرلیا جائے گا۔ اس طرح کوئی شخص گھر میں نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا دعویٰ کرے تو اسے بھی قبول کرلیا جائے گا۔
(2) جب مدعی گواہ پیش نہیں کرسکتا تو پھر مدعی علیہ (الزام زدہ فریق) کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا، چونکہ مدعی علیہ درحقیقت جرم سے بری یعنی براۃ عن الحقوق کے درجے میں ہے، اس لیے اسے قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا جو کمزور دلیل ہے۔ کیونکہ اُس کا الزام تسلیم نہ کرنا اس حقیقت کے قریب ہے کہ انسان اپنی اصلیت کے لحاظ سے معصوم اور بری ہے۔
غیر اسلامی قوانین، عیسائیت، ہندومت اور دیگر کتنی تہذیبیں اور معاشرے عام طور پر ہر انسان کو اُس وقت تک گناہ گار اور مجرم سمجھتے ہیں جب تک اپنے اوپر سے الزام دور کرکے اپنے آپ کو بری ثابت نہ کردے، لیکن اسلام ہر انسان کو اُس وقت تک شریف، بے قصور اور بری الزام قرار دیتا ہے جب تک اس کے ذمے کوئی جرم ثابت نہ ہوجائے۔ اگر اس پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا تو معتبر ہونے کی بنا پر قسم اٹھا کر اپنے آپ کو بری کرلے۔
(3)مدعی علیہ کو نبی اکرمؐ نے ’’انکار کرنے والا‘‘ فرمایا ہے، کیونکہ وہ الزام اور جرم قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس نوع کی قسم کو شریعت میں یمین الصبر (صبر کی قسم) اور ’’یمین غموس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسی قسم کے اٹھانے میں جو جھوٹا ہو اور حقیقت کے خلاف قسم اٹھائے اُس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا:
’’جس شخص نے صبر کی ایسی قسم اٹھائی جس سے کسی مسلمان کے مال کو ہڑپ کرنا اور لوٹنا چاہتا ہے اور وہ اس میں گناہ گار ہے تو (روزِ قیامت) اللہ سے ایسے حال میں ملے گا کہ وہ اس پر سخت ناراض ہوگا‘‘۔
لہٰذا ایسی قسم اٹھانے والے کو سوچ سمجھ کر قسم اٹھانی چاہیے، ایسا نہ ہوکہ تھوڑے سے فائدے کے لیے اپنی عاقبت برباد کر بیٹھے۔
(4) فیصلے کرنے والوں کو یہ حدیث فیصلے کرتے وقت اپنے سامنے رکھنی چاہیے، اور اس کے مطابق پہلے دعوے دار سے شاہد طلب کرنے چاہئیں اور اس پر زور دینا چاہیے، لیکن اگر وہ شاہد نہ دے سکے تو پھر مدعی علیہ (انکاری) سے قسم اٹھانے کا مطالبہ کرنا اور قسم دینی چاہیے۔ جب وہ قسم اٹھالے تو معاملہ طے کردینا چاہیے۔ بہرحال یہ حدیث فیصلے میں بنیادی حیثیت اور اصولی رہنمائی رکھتی ہے۔