لختِ جگر ہارون ادریس!

7جولائی بروز بدھ میرے باغیچے کا سب سے قیمتی پھول دینے والے نے واپس لے لیا۔ اس کی امانت تھی، اسی نے دی تھی، اس کے واپس لینے پر نہ کوئی شکوہ ہے نہ نوحہ۔ دل ٹوٹ گیا ہے، مگر نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہم وہی بات کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں بہت ہی کمزور انسان ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہی دعا مانگی ہے کہ وہ اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہارون کی بیماری کے دوران امید اور خوف کی کیفیت مسلسل طاری رہی۔ میں کبھی سوچتا کہ اگر اس کے سفر کا فیصلہ ہوگیا، تو میں کیسے کھڑا ہوسکوں گا؟ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری مدد فرمائی۔ دل کی دنیا ویران ہے، مگر اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اسی رحمت کا دنیا میں بھی سہارا اور اسی پر آخرت میں بھی تکیہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار اور بے انتہا ہیں۔ اس کی طرف سے بندے کا امتحان بھی اس ذاتِ باری کی اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہر لمحے عافیت طلب کرنی چاہیے، تاہم اگر وہ آزمائش و ابتلا میں ڈالے تو اس سے صبر کی توفیق مانگنی چاہیے، وہی صبر دے سکتا ہے۔ میں اللہ کی نعمتوں کو یاد کرتا ہوں تو انھیں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت ایک بڑا اعزاز تھا۔ میں بی۔ اے کے امتحان کی تیاری کے لیے چھٹیوں میں اپنے گائوں گیا ہوا تھا۔ یہ مئی 1967ء تھا۔ میری شادی میٹرک کے بعد ہوچکی تھی۔
میں ایک گھنے درخت کی چھائوں میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ہمارے گائوں کی ایک بزرگ خاتون محترمہ وہاں تشریف لائیں اور مجھے میرے پہلے بیٹے کی پیدائش کی خوش خبری سنائی۔ اس کا نام محمد دائود ادریس رکھا گیا۔ پورے خاندان میں اس پہلے بچے کی پیدائش پر بے انتہا خوشیاں منائی گئیں۔ ساتویں دن سنت کے مطابق عقیقہ کا معمول ہمارے خاندان میں شروع سے چلا آرہا تھا۔ نومولود کا عقیقہ بھی بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ والدِ گرامی قدر نے دو بہت اچھے بکرے اس موقع پر ذبح کیے اور گوشت تقسیم کیا۔
زندگی کا سفر جاری رہا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کا ناظم اور پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا۔ 1969ء میں پہلا ایم۔اے کرچکا تھا۔ 1970ء میں ایم۔اے اسلامیات میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی یونین کا الیکشن جہانگیر بدر مرحوم کے مقابلے پر جیتا، مگر یہ پورا سال مجھے جیل میں گزارنا پڑا۔ جیل سے رہائی کے بعد 1971ء میں ایم۔اے اسلامیات کے امتحان کی تیاری کررہا تھا۔ قیام ہاسٹل نمبر 1جامعہ پنجاب نیو کیمپس میں تھا۔ دوستوں کی خوشگوار مجلس لگی تھی۔ ستمبر کی آخری تاریخیں تھیں کہ والدِ گرامی قدر کا خط ملا جس میں خوش خبری دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے دائود کو ایک تندرست و توانا اور خوب صورت بھائی سے نوازا ہے۔ واقعی یہ بچہ پورے خاندان کے سر کا تاج ثابت ہوا۔
ہماری خوشگوار محفل میں اس خوش خبری سے اور زیادہ خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ شیرینی کا اہتمام ہوا اور اس کے ساتھ نومولود کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ اس ہونہار بچے کا نام ہارون ادریس رکھا گیا۔ اللہ نے اسے بہت منفرد خوبیوں سے نوازا تھا۔ بہت بہادر، مہم جو اور ذہین بچہ تھا۔ میں اس کے بچپن ہی میں کینیا چلا گیا۔ وہاں سے واپسی پر ہر سال ملاقات ہوتی، تو اس کی خوبیوں کا پتا چلتا گیا۔ اپنے ہم جولیوں کے درمیان وہ نوابوں کی طرح رہتا تھا۔
تعلیم کے مراحل گائوں سے شروع ہوئے، پھر لاہور میں پائلٹ ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا۔ میٹرک کے بعد ایک سال کے اندر قرآن پاک حفظ کیا اور اس سال سے لے کر زندگی کے آخری سال تک بلاناغہ رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں قرآن سناتا رہا۔ شروع میں اپنے گائوں میں دو مرتبہ قرآن پاک سنایا۔ اُس وقت ہم لاہور میں مقیم تھے، مگر وہ اپنے دادا ابو، تین پھوپھیوں اور شفیق چچا کی سرپرستی میں دو سال رمضان المبارک گائوں میں گزارتا رہا۔ گائوں کے علاوہ کئی ملحقہ بستیوں کے نمازی بھی اس کے پیچھے نماز پڑھتے اور اس کے لیے دعائیں کرنے کے ساتھ بزرگوں کو مبارک باد دیتے۔ قرآن پاک کی منزل اسے اچھی طرح ازبر تھی۔
تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، جامعہ پنجاب اور پھر جرمنی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کی فیلڈ لائبریری سائنس تھی۔ یورپ میں قیام کے دوران جرمنی، ڈنمارک، ناروے، انگلینڈ، اٹلی، اسپین اور کم و بیش ہر ملک میں سفر کرتا رہا اور مسلمان طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کرنے میں مصروف رہا۔ ہر جگہ اپنی خوشگوار یادیں چھوڑیں اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان سالوں میں قرآن پاک بھی جرمنی اور ڈنمارک میں سنایا۔ مجھے کئی بار یورپ کے مختلف ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ وہ بھی میرے ساتھ کئی ملکوں کا سفر کرتا رہا۔ وہ اتنا فرماں بردار، خدمت گزار اورپیاری شخصیت کا مالک تھا کہ میں تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جب کبھی دعا کراتا تو سوزوگداز اور پھر قرآنی اور مسنون دعائوں کی کثرت سے ہر شخص کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔
پی ایچ ڈی مکمل ہوئی تو یورپ کے کئی ملکوں کی یونیورسٹیوں میں ملازمت کے مواقع موجود تھے۔ کئی دوستوں نے اسے ترغیب بھی دی، مگر اس کا مختصر جواب یہی ہوتا تھا ’’پاکستان میرا وطن ہے اور میں اگر کوئی خدمت کرسکوں تو اپنے وطن ہی میں کروں گا۔‘‘ پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان آیا، توانٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں رپورٹ کی۔ یہیں سے ملازمت کے دوران اسے ایچ ای سی کی اسکالرشپ ملا تھی۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ لائبریری تو بہت بڑی موجود تھی، مگر اس مضمون میں ٹیچنگ کا انتظام نہیں تھا۔ چناںچہ اسے سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر چودھری محمد اکرم صاحب نے دعوت دی کہ وہ سرگودھا یونیورسٹی میں ذمہ داریاں سنبھال لے۔
چودھری محمد اکرم جامعہ پنجاب میں میرے کلاس فیلو اور دوست بھی تھے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ میرا بھتیجا میرے پاس آجائے۔ میں نے کہا: چچا بھتیجا کا معاملہ ہے، جو فیصلہ کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ چناں چہ اسلامک یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت کے بعد سرگودھا یونیورسٹی میں اس شعبے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ جامعہ پنجاب سے ایم۔اے کرنے کے بعد ہارون کی شادی ہوگئی۔ اللہ نے یکے بعد دیگرے چار بیٹیوں کی رحمت سے نوازا۔ بیٹے کی تمنا ہم سب کے دل میں اور دعائیں سبھی زبانوں پر رہتیں۔ آخر اللہ نے ایک خوب صورت بیٹے محمد عبداللہ ہارون سے بھی نوازا۔ الحمدللہ سبھی بچے ذہین اور محنتی ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ جامعہ سرگودھا میں ملازمت ملنے پر فیملی کو بھی سرگودھا میں منتقل کرلیا اور وہاں یونیورسٹی میں مناسب رہائش نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرائیویٹ سوسائٹی میں کرائے پر مکان لے کر وہاں رہائش اختیار کرلی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے رمضان المبارک میں قرآن پاک سنانا مرحوم کا مستقل معمول تھا۔ اِس سال قرآن پاک اپنے گھر ہی میں سنایا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تکلیف محسوس ہوئی، مگر اپنے مضبوط ارادے کی وجہ سے اس نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی ہر کام وقوع پذیر ہوتا ہے۔ 29 رمضان المبارک کو قرآن پاک مکمل کیا اور اسی رات ایک پرائیویٹ ہسپتال جس میں کورونا کا وارڈ تھا، لے جانا پڑا۔ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ علاج معالجہ شروع ہوگیا۔ ہسپتال سے دو ہفتے بعد گھر منتقل ہوگیا۔ گھر ہی میں آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ چند دنوں کے بعد دوبارہ پھیپھڑوں پرایک شدید حملہ ہوا، تو فوری طور پر سرگودھا میں پاکستان ائیرفورس کے ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ یہ معیاری ہسپتال ہے، یہاں وینٹی لیٹر پر کم و بیش سوا مہینہ زیر علاج رہا۔
6جولائی کو میں نے عصر سے مغرب کے بعد تک ڈھائی تین گھنٹے عزیزم ہارون ادریس کے ساتھ ہسپتال میں گزارے۔ گلے میں خوراک کی نالی لگی ہوئی تھی اس وجہ سے بات کرنا مشکل تھا، البتہ وینٹی لیٹر کے باوجود ہوش میں تھا اور ہر بات کا جواب لکھ کر دیتا تھا۔ جب میں نے اس کا ماتھا چوما اور کہا کہ آپ سے محبت کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ آپ کو اللہ نے جو مقبولیت دی ہے وہ کم کم لوگوں کو ملتی ہے۔ یہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر آسمان کی طرف بلند کیے، پھر اس کے لب ہلنے لگے جیسے تلاوت کررہے ہوں یا تسبیح پڑھ رہے ہوں۔
اگلے روز عصر کی نماز سے آدھا گھنٹہ قبل ہسپتال سے بیٹی کا ٹیلی فون آیا ’’دادا ابو! بابا کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے، آپ خصوصی دعائیں کریں۔‘‘ میں وضو کے لیے واش روم میں گیا تو واپسی پر اپنے ٹیلی فون پر مس کالز دیکھیں۔ جب ٹیلی فون کیا تو بیٹے ڈاکٹر عبداللہ فاروق نے بس اتنا کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون! یوں نصف صدی سفر کرتے کرتے تھکا ماندہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا اس کے جانشین ہیں۔ دونوں بڑی بیٹیاں میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں، چھوٹی دونوں کالج اور اسکول میں ہیں۔ بیٹا سب سے چھوٹا ہے جس کی عمر آٹھ سال ہے، وہ دوسری کلاس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس باغیچے کو اپنی رحمتوں کے سائے میں پھلنے پھولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہارون دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن اور اس کے ماہانہ رسالہ ’’ہمقدم‘‘ کا کئی سال ایڈیٹر رہا۔ وہ جہاں بھی گیا، وسیع حلقۂ احباب اپنے گرد جمع کیا۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جماعت اسلامی کا رکن بن گیا۔ لاہور، اسلام آباد، سرگودھا جہاں بھی رہا مقامی نظم میں بہت فعال کردار ادا کرتا رہا۔ وہ بہت اچھا مدرس اور مؤثر مربی تھا۔ میں اس کی خوبیوں کو جانتا تھا، مگر سچی بات یہ ہے کہ جتنا کچھ میرے ذہن میں اس کے بارے میں تصور تھا، اس کی بیماری کے دوران اس کے حلقۂ احباب اور خیرخواہوں بلکہ عقیدت مندوں کی تعداد دیکھ کر احساس ہوا کہ میرے تصورات سے کہیں زیادہ اللہ نے اسے مقبولیت دی ہے۔ لیکن یہیں پر معاملہ ختم نہیں ہوا، اس کی وفات کے بعد اس تصور میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔
ہارون کی وفات پر سرگودھا میں گھر میں خواتین، اور سرگودھا یونیورسٹی میں جنازے کے بعد وہاں مردوں نے مرحوم کی طرف سے تعلیمی اور سماجی میدان میں ان کی سرپرستی کے واقعات کا جس انداز میں روتے ہوئے تذکرہ کیا، اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک بچی نے تو گھر میں مجھے نڈھال کردیا۔ میں سمجھا کہ میری اپنی پوتی رو رہی ہے۔ میں نے اسے تسلی دی، مگر دیکھا تو وہ کوئی اور لڑکی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ بابا جی! میں آج دوبارہ یتیم ہوگئی ہوں۔ سر نے مجھے پوری شفقت اور تعاون کے ساتھ فرمایا کہ محنت کرنا تمھارا کام ہے، باقی معاملات اللہ آسان کردے گا۔ انھوں نے میری تعلیم مکمل کرائی۔ میں ایم فل ہرگز نہ کرسکتی، اگر ان کی سرپرستی مجھے حاصل نہ ہوتی۔ میری تعلیم میں مدد کے علاوہ مجھے اپنے شعبے میں ملازمت بھی دلوائی۔ آج میں دوبارہ یتیم ہوگئی ہوں۔
لاہور میں جنازے اور تدفین کے بعد تعزیت کے لیے احباب بڑی تعداد میں تشریف لاتے رہے اور ہمارے غم کو ہلکا کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ اس دوران مرحوم کے ایک پرانے ساتھی ڈاکٹر سلمان سعید (ابواللیث) نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ ہم جرمنی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ پانچ چھ پاکستانی ساتھیوں کا ایک حلقہ تھا۔ ایک روز ہارون بھائی نے کہا کہ اسپین چلیں تاکہ وہاں مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک دیکھ سکیں۔ جب مسجد قرطبہ میں گئے، تو سیکورٹی گارڈز نے کہا کہ یہاں جوتے نہیں اتارنے۔ ہم نے کہا کہ یہ ہماری مسجد ہے، ہم یہاں جوتوں سمیت نہیں جائیں گے۔ وہ دبائو ڈالتے رہے، لیکن ہم نے بات نہیں مانی۔ مسجد کے وسیع ہال کے مرکز میں کھڑے ہوکر ہارون بھائی نے کہا کہ ہمیں یہاں کوئی یادگار کام کرنا چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اذان پڑھیں۔ ہم ساتھیوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک دائرہ بنا لیا اور ہارون بھائی درمیان میں کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے پُرسوز انداز میں اذان پڑھی۔ ہمارا خیال تھا کہ سیکورٹی گارڈ ہم پر جھپٹیں گے، مگر وہ حیران پریشان ہوکر اپنی جگہ کھڑے رہے۔ ہارون بھائی نے اذان مکمل کی تو ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
میں نے کہا کہ ہارون بیٹے نے کبھی مجھ سے اس واقعے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ مجلس میں بیٹھے ان کے ایک دوست عبدالقوی بٹ صاحب نے کہا کہ ہم کئی مرتبہ ہارون بھائی کے ساتھ بیٹھتے، تو اس واقعے کا تذکرہ ہوتا۔ وفات پر جو بھی اس کا ساتھی ملنے کے لیے آیا، یا اندرون و بیرون ملک سے فون پر تعزیت کی، تو کئی واقعات سنائے، مگر جانے والے مسافر نے اپنے انکسار کی وجہ سے بیشتر واقعات کا کبھی مجھ سے ذکر نہیں کیا تھا۔ مرحوم کی یادگار روایات میں سے ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ جب کبھی تھکا ہارا رات کے کسی حصے میں ہمارے پاس پہنچتا، تو ہمارے منع کرنے کے باوجود میرے اور اپنی والدہ کے پائوں دبائے بغیر کبھی نہ سوتا۔ اس رمضان میں قرآن پاک سنا رہا تھا۔ اپنی بیماری سے پہلے دوسرے عشرے میں ہمارے پاس آیا، تو میں نے کہا کہ آپ تو قرآن سنا رہے ہیں کیسے آنا ہوا؟ تو مسکراتے ہوئے کہا کہ حج و عمرے کا ارادہ تھا۔
مرحوم کا اشارہ اس حدیث کی طرف تھا جس میں ماں باپ کے چہرے کو محبت سے دیکھنا بہت بڑے اجر کا باعث بتایا گیا ہے۔ ہارون بیٹا عصر تک ہمارے پاس رہا۔ ہم سب گھر والوں نے کہا کہ افطار ہمارے ساتھ کیجیے، تو معذرت کی کہ میں اب نکل جائوں گا تاکہ تراویح میں میری منزل نہ رہ جائے۔ یادیں تو بہت زیادہ ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ لکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اللہ نے ہمت دی تو پھر کبھی تفصیلاً مرحوم کا تذکرہ کریں گے۔
جب وہ جوانی میں معصوم بچوں، جوان بیوی اور بوڑھے والدین کو الوداع کہہ گیا، تو یہ موقع ایک قیامت سے کم نہیں تھا۔ باپ کی لاٹھی، ماں کا سہارا، جوان بیوی کا مان، معصوم بچوں کا سائبان چھن گیا۔ اللہ ہم سب کو صبر سے نوازے اور مرحوم کی اگلی منزلوں کو آسان فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ؎
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور