کتاب
:
سلطان الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدیؒ
شخصیت، احوال و آثار اور فکر و فن
مصنف
:
ڈاکٹر انجم رحمانی
صفحات
:
432 قیمت: 1200 روپے
ناشر
:
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ۔ منصورہ، ملتان روڈ۔ لاہور
گزشتہ سے پیوستہ
ہم نے پچھلے ہفتے اس گراں قدر تصنیف پر اپنا تعارف پیش تھا۔ ہمارے دوست محمد راشد شیخ نے بھی اس پر اپنا تبصرہ بھیجا تھا۔ جامع تبصرہ ہے اور غیر مطبوعہ ہے۔ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ محمد راشد شیخ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر انجم رحمانی پاکستان کے نامور مؤرخ، ماہرِ آثارِ قدیمہ، ماہرِ ثقافتِ اسلامیہ، ماہر فنِ خطاطی اور اردو وانگریزی زبانوں میں کئی بلند پایہ تحقیقی کتب کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے طویل عرصے تک لاہور میوزیم میں ڈائریکٹر سمیت کئی عہدوں پر 33 سال کام کیا اور وہیں سے 2006ء میں ریٹائر ہوئے۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اپنی ذاتی کوششوں سے لاہور میوزیم میں خطاطی گیلری قائم کی، جہاں ماضی و حال کے نامور خطاطوں کے اصل فن پارے محفوظ کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب طویل عرصے سے فنِ خطاطی اور خطاطوں پر اُردو، انگریزی اور فارسی میں مقالات لکھ رہے ہیں۔ راقم الحروف نے ڈاکٹر صاحب کا جو پہلا مقالہ پڑھا وہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے خطاطوں سے متعلق تھا۔ یہ مقالہ پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ’’ڈان‘‘ میں 1979ء میں شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی تازہ ترین کتاب ہمارے ملک کے نامور خطاط کے حالات و خدمات سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ’’سلطان الخاطین حافظ محمد یوسف سدیدی‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی ہے۔ اردو زبان میں فنِ خطاطی اور نامور خطاطوں سے متعلق تحقیقی کتب کی شدید کمی ہے۔ بلاشبہ پیش نظر کتاب حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم کے حالات و خدمات پر خزینۂ معلومات کا درجہ رکھتی ہے اور مستقبل میں حافظ صاحب سے متعلق کتاب حوالہ کا کام دے گی۔
پیشِ نظر کتاب کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب نہ صرف ایک عظیم خطاط تھے بلکہ ایک نیک دل، صاحب ِکردار اور اعلیٰ اُوصاف و اخلاق کے حامل انسان بھی تھے۔ فی الحقیقت حافظ صاحب ایک پیدائشی خطاط تھے جو فنِ خطاطی کے بلند مراتب پر فائز ہونے کے باوجود خود کو اس عظیم فن کا طالب علم سمجھتے رہے۔ فنِ خطاطی کے حوالے سے ان کی زندگی اس مصرع پر عمل کرتے گزری کہ:
ہے خوب کی تلاش، مگر خوب تر کہاں
حافظ صاحب مزاجاً ایک سلیم الذہن، حلیم الطبع اور منکسر المزاج انسان تھے۔ انہوں نے ا‘ن گنت مساجد، مدارس، مقابر اور اہلِ تعلق کے لیے خطاطی کے کام کیے لیکن کبھی کسی سے معاوضہ طلب نہ کیا۔ حافظ صاحب کی شخصیت اور اخلاق و کردار کا یہ عالم رہا کہ آج ان کے انتقال کے تقریباً 34 برس بعد بھی لوگ ان کے حسنِ کردار اور مہارتِ فن کے حوالے سے رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ حافظ صاحب سیروسیاحت کے بھی شائق تھے اور قدرتی مناظر کی دید سے وہ اپنے فن کے جمالیاتی پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کا کام لیتے تھے۔ اس کے علاوہ قدیم اساتذہ کے نوادرِ خطاطی جمع کرنے کے بھی شائق تھے، اور ان نوادر میں پوشیدہ فنی محاسن کا سراغ لگا کر وہ اپنے فن میں خوبصورتی کے نئے پہلو اختیار کرتے تھے۔ پیش نظر کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ صاحب اس حقیقت کو پاچکے تھے کہ فنی زندگی میں مکمل اطمینان اس فن کی موت کے برابر ہے۔ چنانچہ خوب سے خوب تر کی تلاش اُن کا مقصد ِزندگی رہا۔ پیش نظر کتاب کے مطالعے سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب فنِ خطاطی میں باطنی پاکیزگی کے شدید قائل تھے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ باطنی پاکیزگی کے بغیر کوئی شخص اس مقدس فن کی رفعتوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ عہدِ جدید کے خطاطوں کو اپنے فن میں مزید نکھار پیدا کرنے کی خاطر اس نکتے پر بھرپور توجہ دینا اور اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
پیش نظر کتاب کے مطالعے سے ہمیں حافظ صاحب کی زندگی کے ارتقائی مراحل سے بخوبی آگاہی ہوتی ہے۔ حافظ صاحب بھون جیسے ایک کم معروف قصبے میں 1926ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں فنِ خطاطی سے تعلق قائم ہوگیا۔ کم عمری میں لاہور آگئے۔ مسجد وزیر خاں سے حفظِ قرآن کی تکمیل کی۔ اُس عہد کے نامور اساتذہ سے اکتسابِ فن کیا۔ محض 18 برس کی عمر میں لاہور سے پشاور چلے گئے جہاں خطاطی و نقاشی سیکھی۔ 20 برس کی عمر میں دہلی چلے گئے، جہاں نہ صرف خطاطی سیکھی بلکہ تاریخی عمارات پر موجود خطاطی کا دقتِ نظری سے مطالعہ بھی کیا اور ان کی نقلیں بھی حاصل کیں۔ دہلی میں قیام کے دوران مولانا ابوالکلام آزاد سے داد بھی پائی، اور تقسیم کے بعد آگ اور خون کے دریا کو عبور کرکے واپس لاہور پہنچے۔ 1948ء میں اپنے استاد تاج الدین زریں رقم کے حکم پر روزنامہ ’امروز‘ سے وابستہ ہوئے، اور استاد کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے 34 سال تک اس اخبار کے صفحات کو اپنے فن سے گل و گلزار کرتے رہے۔ اسی دوران چینی وزیراعظم چواین لائی سے تحسین آمیز کلمات بھی سنے۔ بعدازاں مزار قطب الدین ایبک کے لیے وہی خط لکھ کر دکھایا جو قطب مینار دہلی پر محفوظ ہے، جبکہ عہدِ جدید میں وہ خط رائج نہیں۔ 1974ء میں لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے نہ صرف سنگِ مرمر کی سلوں پر خوبصورت خطاطی کی، بلکہ کانفرنس کے موقع پر خطاطی کے خوبصورت نوادر بھی تیار کیے۔ عمارات پر خطاطی کی خاطر مینارِ پاکستان، مسلم مسجد، مسجدِ شہداء، جامع مسجد منصورہ اور ا‘ن گنت عمارات پر اپنے فن سے خطاطی کے وہ یادگار کام کیے جو آج بھی دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔ 1981ء میں حافظ صاحب بغرضِ ملازمت سعودی عرب چلے گئے، جہاں جانے کا مقصد حرمین کی مقدس فضائوں میں سانس لینا اور وہاں موجود ترک اور عرب خطاطوں سے اکتسابِ فن تھا۔ جولائی 1984ء میں حافظ صاحب سڑک کے حادثے کے نتیجے میں یادداشت کھو بیٹھے، لیکن اِس عالم میں بھی اُن کے حافظے میں قرآن پاک محفوظ تھا، اور اگر کوئی قرآن کی تلاوت کو کہتا تو بالکل درست قرآن سناتے تھے۔ 13 ستمبر 1986ء کو حافظ صاحب کا انتقال ہوا، اور انہوں نے اپنے پیچھے اَن گنت یادوں اور نوادر خطاطی کو چھوڑ کر عالمِ بالا کا سفر کیا۔ پیش نظر کتاب میں ڈاکٹر انجم رحمانی نے حافظ صاحب کی حیات و خدمات کے ہر ہر مرحلے کو اس قدر دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے کہ قاری کو کہیں اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔
مقامِ مسرت ہے کہ پیش نظر کتاب کے بعد ڈاکٹر انجم رحمانی حافظ صاحب کے حوالے سے دوسری کتاب مرتب فرما رہے ہیں، جس میں نہ صرف حافظ صاحب کے بارے میں معاصرین کے مضامین ہوں گے بلکہ ان کے نوادرِ خطاطی کا ایک عمدہ انتخاب بھی شاملِ کتاب ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان کتب کی اشاعت کے بعد ماضی کے دیگر نامور خطاطوں پر بھی تحقیقی کتب مرتب فرمائیں گے، جس سے اردو ذخیرۂ فنِ خطاطی مزید ثروت مند ہوگا۔
آخر میں ہم حافظ صاحب کے تلامذہ اور اہلِ تعلق سے گزارش کریں گے کہ حافظ صاحب کی خطاطی کے خوبصورت نمونوں پر مشتمل اعلیٰ معیار کی کتاب کی اشاعت کا انتظام کریں۔ یہ وہ فرض ہے جس کی ادائیگی کا انتظار حافظ صاحب سے محبت کرنے والے گزشتہ 34 برس سے کررہے ہیں۔ ہم ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کو بھی اس کتاب پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ اُن کے لیے فنِ خطاطی پر مزید کتاب لکھنا آسان کردے۔ اس کام کے لیے وطنِ عزیز میں وہ بہترین ماہرِ خطاطی ہیں‘‘۔
بقیۃ السلف ڈاکٹر خورشید رضوی کی رائے ہے:
’’حافظ صاحب کا فنِ خطاطی مسلمہ حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہنوز موجود ہے۔ چنانچہ ان کو یاد کرکے ایامِ گزشتہ کی اس سرشاری کی بازگشت ممکن ہے جو اُن کے زمانۂ حیات میں حاصل ہوا کرتی تھی۔ مگر ایسی سرشاری میں یہ شعور بالعموم مفقود رہا کرتا ہے کہ کسی باکمال سے شرفِ ملاقات رکھنے والوں کی تعداد بڑی تیزی سے گھٹتی چلی جاتی ہے، اور ہر چند کہ اس کا کمال زندۂ جاوید رہتا ہے، تاہم اس کی شخصیت کا عمق جو فن سے جڑ کر ایک مکمل تصویر بناتا ہے، نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں بروقت نہ صرف یہ شعور بیدار ہوتا ہے بلکہ وہ اس قوتِ عمل سے بھی بہرہ یاب ہوتے ہیں جو اس شعور کو نتیجہ خیز بناتی ہے۔
ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب، جو خود بھی ایک باکمال انسان ہیں، ایسے ہی کامیاب لوگوں میں سے ہیں، انہیں طویل عرصے تک حافظ یوسف سدیدی صاحب سے ذاتی ربط و ضبط کا موقع ملا ہے، اور وہ یہ شعور بھی بدرجۂ اتم رکھتے ہیں کہ حافظ صاحب ایک نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جن پر عربی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
وعلیکم ان تکتبوا انفاسہ
ان کانت الانفاس مما تکتب
ترجمہ: تم پر لازم ہے کہ تم اس کے ایک ایک سانس کو لکھ رکھو اگر سانسوں کا لکھ رکھنا ممکن ہو۔
ڈاکٹر انجم رحمانی ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک محنت طلب کام کا بیڑا اُٹھایا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ کتاب حافظ صاحب کی شخصیت پر پہلی مبسوط کاوش ہے۔ کتاب کے آغاز میں حافظ صاحب کے احوالِ زندگی کا بیان ہے جس میں وہ مصاحبے (Interviews) بھی شامل ہیں جو حافظ صاحب کی آپ بیتی کے نقوش فراہم کرتے ہیں۔ آگے چل کر ان کے نتائجِ قلم محفوظ کیے گئے ہیں جن میں خود ان کے مکاتیب اور پھر ان کے نام یا ان سے متعلق لکھے جانے والے رقعات اور خطوط بھی یکجا مل جاتے ہیں۔
کتاب میں ضمنی طور پر فنِ خطاطی اور اس کے متعلقات پر بھی بیش قیمت معلومات جمع ہوگئی ہیں۔ آخر میں حوالہ جات و تشریحات، اصطلاحاتِ خطاطی و مخطوطات، نیز مآخذ و کتابیات کا اضافہ نہایت مفید ہے، اور مؤلف کے مذاقِ علمی کی آئینہ داری کرتا ہے۔ انہوں نے ہر سچے عالم کی طرح بجا طور پر اپنی اس کتاب کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ’’ایک اوّلین کوشش ہے جسے نہ تو حرفِ آخر کہا جاسکتا ہے اور نہ مکمل‘‘۔ آرزو تو میری بھی یہی ہے کہ یہ کام حرفِ آخر ثابت نہ ہو بلکہ آئندگان میں وہ لوگ ظاہر ہوں جو اس موضوع پر ڈیجیٹل عکس بندی اور تحقیقی و تجزیاتی مطالعے کی ان تجاویز کو عملی جامہ پہنا سکیں جو ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب نے پیش کی ہیں۔ تاہم زمانے کی رفتار اور طبائع کے تغیر سے یہ اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر رحمانی صاحب کے بعد اب ایسی لگن رکھنے والا کوئی دیوانہ مشکل ہی سے سامنے آئے گا۔
کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکرّر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
ڈاکٹر انجم رحمانی تحریر فرماتے ہیں:
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ حافظ صاحب کے سوانحی و فنی سفر کے بارے میں ہے، جس میں ان کی اپنی زبانی بیان کیے گئے واقعات کو آپ بیتی کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس حصے کی معلومات مؤلف کی حافظ صاحب سے متعدد ملاقاتوں (انٹرویوز) کے ریکارڈ اور ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں۔ یہ حصہ بڑا چشم کشا اور سبق آموز ہے کہ کس طرح ایک دور افتادہ گائوں سے اُٹھ کر ایک معمولی سا لڑکا لاہور آتا ہے اور پھر اساتذہ کی تعلیم و تربیت، ذاتی مشاہدات و تجربات اور شبانہ روز محنت کرکے کس طرح عالمی شہرت کا حامل ایک خطاط بن جاتا ہے۔ اس حصے میں ان کے اسفار کے شہروں کی دلچسپ داستانیں بھی موجود ہیں اور وہاں کا ثقافتی رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کی فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں بالخصوص نقاشی اور خطاطی کے شعبوں میں بھی کارروائیوں کا پتا چلتا ہے۔ تاریخی عمارات کے بارے میں بیش بہا معلومات جمع کی گئی ہیں۔ نیز ان کی خطاطی کی طالب علمانہ سرگرمیوں کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں قیام پاکستان کے وقت حافظ صاحب سمیت مہاجرین کو جن اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا، ان کی عکاسی بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ نیز ان کے فنِ خطاطی کے بارے میں نظریات اور پاکستان و ہند میں خطاطی کی صورتِ حال کا اندازہ بھی اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ان کی قلمی کاوشوں کی فہرست بھی شامل کردی گئی ہے۔‘‘