مولانا نذر الحفیظ ندوی

عمر عزیز کے دن کس تیزی سے گزر جاتے ہیں اس کا پتا بھی نہیں چلتا، بات کل ہی کی لگتی ہے۔ ۲ جنوری۲۰۱۸ء کو بھٹکل میں رابطہ ادبِ اسلامی کا سیمینار جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے زیر اہتمام منعقد ہورہا تھا، مولانا نذرالحفیظ ندوی آخر کیوں کر اس میں شریک نہ ہوتے؟ سیمینار بھٹکل میں منعقد ہورہا تھا اور وہ بھی آپ کے مخدوم حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی یاد میں۔ جامعہ آباد کے مہمان خانے کے پاس ہی ملاقات ہوگئی، بہت خوش ہوئے اور شکایتی لہجے میں کہنے لگے ’’مولانا آپ کا کالم ’رہنمائے کتب نظر‘ کئی دنوں سے نہیں آرہا ہے، ہمیں آپ کے ان مضامین کا انتظار رہتا ہے‘‘ تو تھوڑی سی سبکی سے ہم نے جواب دیا کہ ’’آپ تو ہمارے استاد کے درجے میں ہیں، یہ مضامین آپ کے لیے نہیں ہوا کرتے، اور جن کے لیے لکھے جاتے ہیں، انہیں ان کے آنے یا نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، انہیں ان کا پتا بھی نہیں چلتا‘‘، توکہنے لگے کہ ’’آپ تو دور بیٹھے ہیں، ان مضامین سے طلبہ و اساتذہ کو جو فائدہ ملتا ہے، اس کا آپ اندازہ نہیں کرسکتے، اسے جاری رکھیے۔‘‘
پھر کہنے لگے ’’آپ کے یہاں سیمینار ہورہا ہے، آپ نے اس کے لیے کیا لکھا ہے؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ ’’ہمارے مضامین سیمیناروں کے مزاج کے نہیں ہوا کرتے، یہ کسی اندرونی تحریک سے بے ترتیب انداز سے نکلتے ہیں‘‘۔
مولانا کی محبت کا اثر تھا کہ اسی رات حضرت مولانا علیہ الرحمۃ پر ایک قلم برداشتہ تحریر ہمارے قلم سے نکلی، جو ۱۹۶۷ء سے۱۹۹۹ء میں آپ کی رحلت تک کے مشاہدات اور تاثرات کا احاطہ کرتی تھی۔ صبح مولانا سے ملاقات ہوئی تو یہ تحریر ان کے سپرد کی، تاکہ ایک نظر اس پر ڈال لیں۔ عصر میں مولانا ہمارا انتظار کررہے تھے، ملاقات پر کہنے لگے کہ ’’آپ نے تو ہمیں رلا دیا، اس میں حضرت مولانا ؒ کے بارے میں ایسی باتیں آپ نے لکھی ہیں جو پہلی مرتبہ ہماری نظر سے گزری ہیں‘‘۔ اور پھر آپ نے اہتمام سے اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کا تذکرہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم اور مولانا سید محمد واضح رشید ندوی علیہ الرحمۃ سے کیا اور انہیں یہ تحریر پڑھنے کی تحریک دی، جس پر ان دونوں حضرات نے اسے منگواکر سنا، اور بہت پسندیدگی کا اظہار کیا۔ یہ آپ کی چھوٹوں پر شفقت اور ان کی ہمت افزائی کا ایک انداز تھا۔ ایسا ایک بار نہیں ہوا، کئی بار سابقہ پیش آیا۔ جب بھی ملاقات ہوتی ہماری تحریروں کو طلب کرتے، اورکہتے کہ آپ ایسی شخصیات پر لکھتے ہیں، جن پر دوسروں کے قلم نہیں چلتے، اور یہ شخصیات عموماً غیر معروف ہوتی ہیں۔
ایک بار آپ کو کہیں ’’زندگی‘‘ رامپور کا وہ شمارہ مل گیا جس میں مولانا شہباز اصلاحی پر ہمارا تاثراتی مضمون شائع ہوا تھا، اسے دیکھ کرشکایت کی کہ اس پر تو ’’تعمیر حیات‘‘ کا پہلا حق تھا۔ ہم نے کہا کہ انہیں تو ہم نے بھیج دیا تھا، لیکن ہمیں وہاں لوگ نہیں جانتے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمت افزائی کا جذبہ آپ میں کس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ اپنے خوردوں کے ساتھ آپ کا یہی والہانہ انداز تھا۔ جس میں کچھ صلاحیت پاتے اسے آگے بڑھانے اور ہمت افزائی کی فکر کرتے۔ اب مولانا کے اس طرح اچانک اٹھ جانے کے بعد ایسی کسی شخصیت کی کمی کا احساس شدت سے محسوس ہورہا ہے۔
مولانا کو بھٹکل سے بہت انس اور محبت تھی، اور آپ کا یہ تعلق ۱۹۵۵ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کے داخلے سے شروع ہوا تھا۔ جامعہ کی تاسیس کے بعد جو مدرسین اس کے اوّلین دنوں میں اس سے وابستہ ہوئے اُن میں سے مولانا حافظ اقبال مولوی ندوی، مولوی عبدالرزاق قافشے، مولانا حافظ رمضان ندوی، وغیرہ ندوہ میں آپ کے ابتدائی ساتھیوں میں تھے، ان کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، اور کھیلنا ہوتا تھا۔
سنہ۱۹۸۲ ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے الحاق کے بعد جب درجہ عالمیت کے امتحانات جامعہ آباد ہی میں ہونے لگے، اور ان کی نگرانی کے لیے ندوہ سے اساتذہ کرام یہاں تشریف لانے لگے، تو جو اساتذہ اس ذمہ داری پر خاص طور پر مامور کیے جانے تھے، ان میں آپ کا نام نمایاں تھا۔ اُن دنوں میں طلبہ کو آپ سے استفادے کا بہترین موقع ملا کرتا تھا۔ ہفتہ دس روز مولانا کا جامعہ آباد میں قیام ہوا کرتا، وہ طلبہ سے گھل مل جاتے تھے۔ مولانا کی طلبہ کے خارجی مطالعے پر خصوصی توجہ رہاکرتی تھی، اور اس کا امتحان وہ خود لیتے تھے۔ خصوصی پروگراموں اور سیمیناروں کے لیے آپ کا دوسرے دنوں میں بھی بھٹکل آنا ہوتا تھا۔ جامعہ آباد میں فراغت کے اوقات میں آپ کی مستقل بیٹھک کتب خانے میں ہوا کرتی تھی، جہاں ناظر کتب خانہ مولانا ناصر الاسلام ندوی صاحب سے آپ کو خاص انس تھا، وہ بھی آپ کا خاص خیال رکھتے اور آپ کے ذوق کی کتابیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر لا دیتے تھے۔ مولانا مطالعے اور کتب بینی کے رسیا تھے، لہٰذا امتحانات کے دنوں میں جامعہ آباد جب اکثر اوقات میں طلبہ سے خالی ہونے لگتا تو اس سے آپ کو تنہائی اور بوریت کا احساس نہیں ہوا کرتا تھا، کیونکہ کتاب کی شکل میں آپ کا ساتھی ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ اس ناچیز سے محبت میں کتابوں کے ساتھ گزرے ان لمحات کا بڑا اثر تھا۔
ہمارے رفیقِ درس مولانا ناصر الاسلام ندوی جہاں آپ کے شاگردِ رشید تھے، وہیں آپ کی ۱۹۷۱ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل آمد کے وقت پر میزبان بھی تھے۔ دراصل آپ پہلی مرتبہ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی رفاقت میں اُسی وقت بھٹکل تشریف لائے تھے۔ اُس وقت حضرت کا قیام بھٹکل سے چند کلومیٹر دور چھوٹی سی بستی شرالی میں، مولانا ناصر الاسلام صاحب کے والدِ ماجد جناب محمد باشا شرالی مرحوم کے مکان پر ہوا تھا، جسے آپ نے ’’کاروانِ زندگی‘‘ کے صفحات پراس طرح قلم بند کیا ہے:
’’اسی زمانے میں اپنے عزیز دوست محمد پاشا شرالی مرحوم نے اپنے وطن بھٹکل کی دعوت دی، عزیزی نذرالحفیظ بھی ساتھ تھے۔ ان کے مکان پر جو شہر سے الگ تھلگ اس کی نواحی بستی شرالی میں واقع تھا، اسی کام میں مشغول رہا۔ الحمدللہ کچھ عرصے کے بعد کام مکمل ہوگیا۔‘‘ (کاروان زندگی۔ ۲۔۲۹)
جس کام کا یہاں پر تذکرہ ہے، وہ مولانا عبدالحئی حسنیؒ کی کتاب ’’الھند فی العہد الاسلامی‘‘ کی ایڈیٹنگ کا کام تھا، جو بعد میں دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے شائع ہوئی۔
باشا شرالی مرحوم کو تو اب لوگ بھول بھال چکے ہیں، بڑے ہی مرنجاں مرنج اور بااخلاق اور نرم خو انسان تھے، بزرگوں سے بڑی نیازمندی کے تعلقات رکھتے تھے۔ شرالی میں ہائی وے پر ان کی شرالی اسٹور کے نام سے کپڑوں کی دکان تھی، جو غیر مسلموں میں خاص طور پر دور دور تک مشہور تھی۔ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں، بارش کے کمبل اور چھتریوں، شادی بیاہ کے جوڑوں اور جملہ سامان کی فراہمی کا یہ منفرد مرکز ہوا کرتی تھی۔ آج کے لحاظ سے تو دکان کوئی بہت بڑی نہیں تھی، لیکن اللہ نے کاروبار میں خوب برکت دی تھی، اس کی مقبولیت میں مالک کے اخلاقِ حسنہ اور نرم روی کا بڑا عمل دخل تھا۔ حضرت مولانا بھٹکل بارہا تشریف لائے، اور ہمیشہ جامعہ کی دعوت پر آئے، لیکن بھٹکل کے کسی فرد کی دعوت پر، اور اتنا طویل قیام شاید اُس وقت اور ایک ہی بار ہوا۔ مہمان نوازی تو سبھی کرتے ہیں، لیکن مہمان کے مزاج کے مطابق میزبانی کسی کسی کے حصے میں آتی ہے، یہ شرف خاص نیازمندوں ہی کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیف نے مولانا ناصر الاسلام صاحب کو اپنے محترم والدِ ماجد کا نمونہ بنایا ہے۔ نذر الحفیظ مرحوم نے بھی وضع داری خوب نبھائی، روزِ اول سے جو تعلق قائم ہوا، اس میں سرمو فرق نہیں آنے دیا، ناصر صاحب کی نظارت کتب خانہ نے اس ربط و تعلق کو مزید پختہ کردیا۔
ابتدائی نشوونما اور گھر یلو ماحول
بہار کے شمال میں، پٹنہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ضلع مدھوبنی میں ایک قصبہ ململ واقع ہے۔ یہ صدیقی شیوخ کی مسلم اکثریتی بستی کی حیثیت سے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں پر دین کا چرچا بہت ہوا کرتا تھا، حفظِ قرآن کا رواج عورتوں میں بھی عام تھا، اور مبالغہ کی حد تک مشہور تھا کہ یہاں کی مرغیاں بھی حافظ ہوا کرتی ہیں، لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے، مرد ہوں یا عورتیں… جب کام پر نکلتے، اور ہل جوت رہے ہوتے توتلاوتِ قرآن شروع کرتے اور کام کے دوران دن میں سات آٹھ پاروں کی تلاوت پوری کرنا روز کا معمول تھا۔ واپسی پر کھانا کھاتے اور پھر اسی میں لگ جاتے۔ مولانا نذر الحفیظ صاحب نے اسی ماحول میں سنہ ۱۹۳۹ء میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔
آپ کے دادا حافظ محمد اسحاقؒ حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ سے فیض یافتہ تھے۔ آپ کے قصبے میں مچھلی شہر کے مولانا عبدالباری صاحب نے ’’چشمۂ فیض‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، یہاں حفظ کرکے حفاظ کرام بنگال اور بہار میں پھیل جاتے تھے۔ آپ کے والدِ ماجد نے پہلے یہاں حفظِ قرآن مکمل کیا اور پھر مدرسہ عزیزیہ بہار شریف میں داخلہ لیا، مزید تعلیم کے لیے جونپور آگئے، جہاں آپ نے مولانا ابوالعرفان ندویؒ کے والد مولانا ندیم احمدؒ سے اعلیٰ درسیات کی کتابوں کی تعلیم حاصل کی، پھر آپ الٰہ آباد تشریف لے گئے، جہاں مدرسہ سبحانیہ کے نام سے قرأت کا مشہور مدرسہ تھا، یہاں آپ نے اپنے بھائی کے ساتھ قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ آپ کا حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا، حضرت نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا تھا۔ حضرت پرتاب گڑھی کی زندگی بڑی مجاہدانہ تھی، آس پاس کے دیہاتوں میں اصلاحِ معاشرہ کے لیے آپ نے بڑی جد وجہد کی۔ وعظ ونصیحت کے لیے ستو اور گڑ لے کر نکل پڑتے، اور اس میں ہفتوں گزار دیتے۔آپ نے بڑی قربانی کی زندگی گزاری۔ آپ کے والدِ ماجد بھی ان اسفار میں آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔
۱۹۳۴ء میں فراغت کے بعد آپ پرتاب گڑھ میں مولانا عبدالکافی صاحب کے قائم کردہ مدرسہ کافیۃ العلوم میں تدریس سے وابستہ ہوئے، اور ۱۹۸۵ء تک یہاں پر مسلسل خدمات انجام دیتے رہے، جب یہاں سے وابستہ ہوئے تھے تو تنخواہ پندرہ روپئے ماہانہ تھی، جو بڑھتے بڑھتے آخر میں ڈیڑھ سو روپئے پر رک گئی تھی۔
ململ گاؤں میں عموماً دین داری اور پڑھنے لکھنے کا ماحول پایا جاتا تھا۔ خواتین میں بھی ایک طرح سے تعلیمی بیداری پائی جاتی تھی۔ بعد میں جماعت اسلامی والوں نے ایک حلقہ خواتین قائم کیا تھا، جس کے ماتحت مشاعرے اور مضامین پڑھنے کا بھی اجتماعی اہتمام ہوتا تھا۔ آپ کی والدہ ان سرگرمیوں میں شریک ہوتی تھیں۔
آپ کے نانا سراج الدین نے جو ملا سراج الدین کے نام سے مشہور تھے، حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ سے کانپور میں تعلیم حاصل کی تھی، اور آپ سے بیعت وارشاد کا تعلق بھی قائم کیا تھا۔ تعلیم ختم ہونے کے بعد بہار کے علاقوں جہاں آباد، گیا وغیرہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔
تعلیم وتربیت
مولانا نذر الحفیظ صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی،پھر یہاں سے اپنے والد ماجد کے پاس سات آٹھ سال کی عمر میں پرتاب گڑھ آگئے، یہاں سے سلطانپور جاکر حافظ مشتاق نابینا کے پاس حفظ قرآن مکمل کیا۔ آپ نے اپنے والد ماجد کے پاس ہی اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اس زمانے میں لکھنؤ سے روزنامہ قومی آواز نکلا کرتا تھا، آپ مولانا سے اس کی سرخیاں اسی زمانے میں پڑھواتے تھے۔ پھر آپ نے اپنے چچا مولانا محمد عاقل صاحب سے فارسی کی گلستان اور بوستان پڑھی۔ اور اس دوران فارسی خطوط نویسی کی مشق بھی کی۔جب مولانا کافیۃ العلوم میں زیر تعلیم تھے، تو آپ سے عام طلبہ کی طرح مساویانہ سلوک کرتے تھے، کبھی مہتمم صاحب کے فرزند ہونے کی حیثیت سے امتیازی سلوک نہیں کرنے دیتے، کھانے کی فیس بھی دوسرے طلبہ کی طرح ادا کرتے تھے۔
ندوے میں داخلہ
۱۹۵۵ء میں مولانا کا داخلہ ندوۃ العلماء میں ہوا، داخلے سے قبل آپ کے والد ماجد نے تمرین الصرف اور تمرین النحو خوب پڑھائی، ندوے کے استاد مولانا ابو العرفان ندویؒ آپ کے والد کے شاگرد تھے، جن کی وجہ سے داخلہ میں دشواری نہیں ہوئی، مولانا عمران خان ندوی کا دور اہتمام تھا، ندوے میں طلبہ کی کل تعداد دو ڈھائی سو سے زیادہ نہیں تھی، مولانا حبیب الرحمن سلطانپوریؒ مصنف تمرین النحو نے آپ کا امتحان لیا، اور اول عربی میں داخلہ کی اجازت دے دی، مولانا عبد الماجد ندوی مصنف معلم الانشاء کے زیر نگرانی پونے دوسال آپ کا رہنا ہوا۔ آپ مضامین صاف کرنے کے لیے دیتے، والد ماجد نے خوش خطی کی مشق کرائی تھی، جس کا آپ کو دوران طالب علمی بہت فائدہ ہوا۔
ابتدا میں چھوٹی جمعیہ الاصلاح سے آپ وابستہ رہے، درجہ دوم عربی میں آپ کو مولانا شمس الحق ندوی صاحب کی رفاقت حاصل رہی جو آخر دم تک قائم رہی۔ندوے میں جب زیر تعلیم ہوئے تو ناشتے کے لیے دس روپے گھر سے آتے تھے، رات کی باسی روٹی اور چنے سے ناشتہ ہوتا تھا۔
ابھی درجہ سوم عربی میں تھے کہ والدین کے ایما پر آپ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔ والدین کی خواہش تھی کہ ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رہے، اس عرصے میں آپ کی اہلیہ نے بڑے تقشف کی زندگی گزاری۔اور صبر وشکر کادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ والد ماجد نے قلیل آمدنی کے باوجود پورے کنبے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے رکھی۔ لیکن اس کے باوجود عزت نفس کا یہ عالم تھا، کہ ایک بار ماہ رمضان مبارک میں آپ کے خسر آپ کو مدھوبنی کی ایک مسجد میں تراویح پڑھانے لے گئے،اختتام پر مسجد والوں نے خسر صاحب کے ہاتھ میں ایک سو بیس روپے تھما دیے، مولانا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، آپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے پیسے دیکھے تھے، انہی دنوں گاؤں میں باڑھ آئی ہوئی تھی، طوفان باد وباراں نے پھونس سے بنے گھر کو تاراج کردیا تھا، سر چھپانے کو چھت باقی نہیں رہی تھی، سینکڑوں کا خرچ آیا، آپ نے تراویح سے ملے پیسے ابا کو دے دیے، جب آپ کو پتہ چلا کہ یہ پیسے تراویح میں قرآن سنانے پر ملے ہیں تو خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں نے تمھیں حافظ اس کے لیے نہیں بنا یا ہے۔ پھر زندگی بھر کبھی تراویح سنانے پر آپ نے ہدیہ قبول نہیں کیا،پھر تو پھولپور میں حضرت پرتاب گڑھی کے یہاں ہی تراویح پڑھانے کا معمول بن گیا، کیونکہ حضرت کے فرزند مولانا قاری مشتاق احمد صاحب بانی مدرسہ عرفانیہ، فرنگی محل لکھنو، ان دنوں الہ آباد جاتے،اور ان کے دوسرے فرزند ارشاد احمد، الہ آباد سے پرتاب گڑھ مدرسہ کافیۃ العلوم کو آتے، اور آپ کے والد ماجد مولانا عبد الحفیظ صاحب ممبئی اور بھساول مدرسے کے چندے کے لیے نکل پڑتے تھے۔
انہی دنوں آپ نے ندوے میں حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ کی عصر کی مجالس میں پابندی سے بیٹھنا شروع کیا،بعد میں انہیں قلم بند بھی کرنا شروع کیا، (ان مجالس کا ایک مجموعہ آپ کی رحلت سے چند ماہ سے کچھ عرصے پہلے مجالس علم وعرفاں کے نام سے منظر عام پر آیا)۔ یہاں کے شیخ التفسیر حضرت مولانا اویس نگرامی ندوی ؒکی شفقتیں بھی آپ کو نصیب ہوئیں،جو کہ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے شاگردان خاص میں تھے، پرتاب گڑھ میں مولانا ہی کے مکان پر آپ کے والد صاحب کا ٹہرنا ہوا کرتا تھا، مولانا حبیب الرحمن سلطانپوری ندوی ؒسے آپ نے تمرین النحو، شرح نقایہ اور ہدایہ پڑھی، آخر الذکر بڑے صاف ستھرے اور نستعلیق شخصیت کے مالک تھے، شہر میں رہتے تھے، اور گھر سے آتے ہوئے، تولیہ، صابن ساتھ لاتے، اور ہمیشہ با وضو رہتے، معمولات کے ایسے پابند تھے کہ مجال تھی کہ ایک منٹ دیر سے پہنچیں۔
ان دنوں حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ شدید علیل ہوکر سیتاپور اسپتال میں صاحب فراش تھے، تیمم سے نماز پڑھتے تھے، ایسی حالت میں بھی آپ پابندی سے مولانا سے کتابیں سنا کرتے تھے، اس طرح ہزاروں صفحات آپ نے حضرت مولانا کو پڑھ کر سنائے،حضرت کے استحضار کا یہ عالم تھا کہ درمیان میں کوئی فارسی شعر آتا تو مولانا نگل جاتے تو حضرت مولانا یاد دہانی کرتے کہ یہاں فارسی شعر ہے، اسے بھی پڑھیں۔عبارت خوانی اور اشعار سنانے کا آپ کو بہت فائدہ پہنچا، جب حضرت مولانا کی صحت اچھی ہوتی تو آپ درجات دیکھنے آتے تھے، اس سے آپ کو مطالعہ کا ایک چسکہ سا لگ گیا تھا،درجہ چہارم عربی میں تھے تو ایک مرتبہ مولانا آزاد کی غبار خاطر کو حضرت مولانا نے آپ کے ہاتھ میں دیکھا، تو فرمایا کہ ابھی آپ کی عمر یہ کتاب پڑھنے کی نہیں ہے،ایسی کتابیں پڑھو جس سے زبان درست ہو۔
ندوے میں انجمن الاصلاح سے آپ جڑے ہوئے تھے، جس کا آپ کو بہت علمی فائدہ ہوا، الماریوں کی کنجیاں عموما آپ کے ہاتھ میں رہتی تھیں، ظہر میں آتے تو کبھی عصر، مغرب اور عشاء تک الماریاں کھولے کھڑے رہتے، اس میں الہلال، الدعوۃ، اور المصور جیسے عرب مجلات کی فائلیں پائی جاتی تھیں، کھڑے کھڑے گھنٹوں انہیں چاٹ جاتے تھے۔
آپ نے اس دوران تاریخ کی کتابیں زیادہ پڑھیں، درجہ سوم عربی میں تھے تو تاریخ دعوت وعزیمت حصہ اول چھپ کر آئی تھی، اسے پڑھ ڈالا، اس میں امام غزالی ؒکے حالات نے آپ کوبہت متاثر کیا، ایک بار خواب میں بھی امام صاحب کی زیارت نصیب ہوئی، جب کچھ بڑے ہوئے تو امام صاحب کی کتاب المنقذ من الضلال بھی پڑھ ڈالی۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم جزیرۃ العرب اور الادب العربی لکھ رہے تھے۔ان کا املا درست کرنے اور مضامین نقل کرنے میں آپ سے مولانا نے خوب محنت لی۔اس طرح حضرت مولانا کی کتاب انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر کی آپ نے چار مرتبہ پروف ریڈنگ کی۔ لہذا مجلس میں آپ کتابوں سے متعلق سوالات کرتے تو حضرت فرماتے کہ آپ تو ہماری کتابوں کے حافظ ہیں۔
ندوے کے اساتذہ میں مولانا دریاآبادیؒ کے صدق کو پڑھنے کا بڑا اہتمام تھا، معارف، برہان، اور فاران بھی یہاں آتے تھے، اور قاضی اطہر مبارکپوریؒ اور الحاج محی الدین منیری ؒ کے زیر ادارت خدام النبی ممبئی کا ماہنامہ البلاغ بھی پابندی سے پڑھنے کو ملتا تھا۔
اسی دور میں البعث الاسلامی بڑے طمطراق سے نکلا، الرائد جب جاری ہوا تو آپ چہارم عربی میں تھے۔ لیتھو پر یہ پرچے چھپتے تھے، اور امین آباد کاتب کی تلاش میں جانے، پروف ریڈنگ اور ترسیل کا جملہ کام آپ ہی کو کرنا پڑتا تھا۔
۱۹۶۹ء میں جب مولانا محمد اسحاق جلیس مرحوم مجلس تحقیقات ونشریات اسلام سے وابستہ ہوئے تو آپ کے ساتھ کام کرنے کا آپ کو موقع ملا، آپ ہی نے مولانا کو بتلایا تھا کہ اخبار پڑھنا بھی ایک فن ہے۔
آپ نے ریاض الصالحین مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی سے پڑھی۔ اس کتاب سے آپ کا بڑا تعلق تھا۔ترمذی شریف آپ نے مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی، جن کے ترمذی پڑھانے کا منفرد انداز تھا،درجہ میں طلبہ شاید بیس بائیس سے زیادہ نہیں رہے ہوں گے۔مولانا نعمانی ؒاحادیث پڑھاتے وقت تمام مسلکوں کے دلائل بیان کرتے تھے، ان میں کسی قسم کی طنز یا تعریض نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر ہر دلیل کا حوالے کے ساتھ جواب دیتے تھے۔
گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ درجہ عالمیت مکمل کرنے کے بعد بھی تعلیم جاری رکھتے، مولانا ابو العرفان صاحب سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کے پاس اعلی سے اعلی تعلیمی سند ہونی چاہیے۔ کیونکہ آئندہ زندگی میں ترقی کا کوئی موقع ملے اور اعلی سند کی ضرورت پیش آئے تو افسوس نہ ہو کہ موقع ملنے پر اسے گنوادیا۔اس کا فائدہ مولانا کواس وقت محسوس ہواجب کہ مصر جانے کے لیے آپ کے نام قرعہ فال نکلا۔
فراغت کے بعد کا دور
۱۹۶۴ء میں آپ نے فضیلت مکمل کی، اور ندوے ہی سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران آپ نے ایک سال مولانا مجیب اللہ ندوی صاحب کے مدرسہ جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں بھی گذارا، جہاں آپ کا دار المصنفین آنا جانا ہونے لگا، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ؒ بقید حیات تھے، ان سے گہرا تعلق قائم ہوا، مولانا آپ کو معارف کے لیے ماہانہ اہم غیر ملکی کتابوں کی تلخیص لکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔
۱۹۶۹ء میں ہفت روزہ ندائے ملت لکھنو بحران کا شکار ہوا، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے کہنے پر حضرت مولانا نے آپ کو اور مولاناعبد النور ندویؒ کو اسے سنبھالنے کے لیے بھیجا۔ یہاں سے آپ کو صحافت کا چسکہ لگا، وہ عالم اسلام میں بڑا ہنگامہ خیز دور تھا، مسلسل ریڈیو اور اخبارات سے چمٹے رہنا پڑتا تھا، اسی زمانے میں کراچی میں عراقی سفارت خانے سے ہتھیار پکڑے جانے کی خبر آئی، جسے آپ نے یقینی انداز کی سرخی کے ساتھ لکھا، اس پر جب مولانا محمد مسلم صاحب مدیر سہ روزہ دعوت دہلی کی نظر پڑی تو ایک ملاقات میں آپکو نصیحت کی کہ کبھی سیاسی معاملات کو یقینی بات کے انداز سے پیش نہ کریں۔ نیوز ایجنسیاں اپنے اپنے مقاصد کے مطابق خبروں کو نقل کرتی ہیں۔ ان باتوں سے مولانا کو آئندہ زندگی میں خوب رہنمائی ملی۔
جامعہ ازہر میں داخلہ، اور جامعہ عین شمس میں ٹیچر ٹریننگ کورس
۱۹۷۵ میں جب مصر کے جامعہ ازہر میں اعلی تعلیم کے لیے جانے کا موقع آیا، تو والد صاحب نے آپ کی والدہ ماجدہ کے ذریعے پیغام بھیجا کہ فکر نہ کریں، مصر میں جاکر ضرور سیکھیں، تاکہ ذہن میں کبھی یہ بات نہ آئے کہ ایک موقع ملا تھا، ابا کی وجہ سے ترقی کا موقع ضائع ہوگیا، آپ نے ندوے کی تدریس کے زمانے میں جو جمع پونجی جمع ہوئی تھی وہ خازن ندوہ مولانا محمد طاہر صاحب کو سونپی تاکہ وہ اس سے آپ کے ماہانہ گھریلو اخراجات کا نظم کرسکیں۔
ندوے سے فضیلت کی سند حاصل کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ آپ کا داخلہ ازہر شریف میں ایم فل میں ہوا، عرب یونیورسٹیوں میں جسے ماجستیر کہا جاتا ہے، وہ دراصل بی اے کے بعد اور ڈاکٹریٹ کے درمیان کا مرحلہ ہوتا ہے، جس میں پی ایچ ڈی کی طرح تحقیقی مقالہ بھی تیار کرنا پڑتا ہے، درجات میں حاضری کی پابندی کا مرحلہ ختم ہونے، اور پھر مقالہ کی تیاری کے مرحلے میں داخل ہونے پر آپ کو جو فرصت کے لمحات ملے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، آپ نے جامعہ عین شمس میں ٹیچرز ٹریننگ کورس (تدریب المعلمین)کو جوائن کیا، اور یہاں چھ ماہ تدریس کا تجربہ حاصل کیا، جس میں ایک انسپکٹر درجے میں پچھلے دروازے سے آتا تھا، اور طلبہ کے پہلے کے معیار تعلیم اور آخری معیار کو پرکھتا تھا۔ مولانا کو اچھے نمبروں سے یہاں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ اور جب اسے مکمل کرکے وطن لوٹے تو حضرت مولانا نے ندوے میں معہد تدریب المعلمین کے قیام کی ہدایت کی۔
مصر میں آپ کا بڑا اچھا وقت گزرا، جب پہنچے تھے تو صد ر انوار السادات کا عہد عروج چل رہا تھا، آپ نے وہاں پر سادات کے دور کی آزادی بھی دیکھی، اوران کی افسوسناک موت بھی، اس وقت یہاں کی سوسائٹی اور تحریکات کو جتنے قریب سے دیکھنے کا آپ کو موقع ملا شاید و باید ہی کسی ہندوستانی کوملا ہوگا۔ آپ کی بچی کی شادی بھی اس دوران آگئی، انہی دنوں آپ کو ریڈیو قاہرہ میں ملازمت مل گئی تھی، جہاں انہیں پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے اس کی حقیقت کا علم ہوا۔۱۹۸۲ء میں آپ کی مصر سے واپسی ہوئی، اور دوبارہ آپ ندوۃ العلماء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے، اور تا دم واپسیں اپنے اس مادر علم کی خدمت سے جڑے رہے۔
مصر سے واپسی پر آپ نے میڈیا کے موضوع پر رائے بریلی میں ماہانہ خطبات کا سلسلہ شروع کیا تھا، جسے آپ نے از سرنو مرتب کرکے کتاب کی شکل دی جو مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کے عنوان سے شائع ہوکر بہت مقبول ہوئی، اس کتاب کے اردو میں پانچ ایڈیشن نکل چکے ہیں، اور عربی، انگریزی، بنگالی، ہندی،ملیالم میں بھی ان کے ترجمے نکلے، اور دوسری زبانوں میں ان کے ترجموں کے نکلنے کا کام ابھی جاری ہے۔ اس دوران آپ تعمیر حیات، ندائے ملت، الرائد، البعث الاسلامی، اور کاروان ادب جیسے مجلات سے مستقل کسی نہ کسی طرح سے وابستہ رہے۔
مولانا نے۱۹۶۴سے انتقال تک نصف صدی سے زیادہ عرصہ تعلیم و تدریس میں گذارا، جس کے دوران کئی نسلیں آپ سے فیض پاکر نکلیں، مولانا کے دروس طلبہ میں ہمیشہ مقبول رہے،ان کی اپنی چند خصوصیات تھیں، آپ کے درسوں میں جچے تلے الفاظ اور جملوں کا استعمال ہوتا تھا جن سے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی تھی،بولتے وقت آواز میں نرمی اور ملائمت ہوتی تھی جو طلبہ کے کانوں پر رس گھولتی تھی،اور بار نہیں پڑتی تھی، وہ بولتا ہے تو ایک روشنی سی ہوتی ہے، کے مصداق آپ طلبہ کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں اور استعد اد کا خاص خیال رکھتے تھے۔تعبیر اور افہام وتفہیم کے لیے آپ واضح اور سہل الفاظ کا استعمال کرتے تھے، اور طلبہ کو عالمی مسائل سے مربوط رکھنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
۲۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو یہ خبر بجلی بن کر کوندی کہ مولانا اپنے مالک حقیقی کے پاس جاپہنچے، یہ خبر سننے کے لیے کان تیار نہیں تھے، اس سے پہلے مولانا کی علالت کی کوئی خبر نہیں آئی تھی، لیکن اجل کا فرشتہ کسی کو کہ کر تھوڑے آتا ہے!۔ نصف صدی کے دوران آپ نے کئی نسلوں کو تیار کیا، ہزارہا ہزار صفحات لکھے،اللہ کی ذات سے امید ہے کہ دین کی سربلندی اور نونہالوں کی صحیح نہج پر تعلیم وتربیت میں لگائے گئے آپ کی عمر کے ماہ وسال آپ کے وہاں پر بلندی درجات کا سبب بنیں گے، جہاں صرف انسان کے اعمال ساتھ جاتے ہیں، اور آپ نے جو شمعیں روشن کی تھیں ان شاء اللہ تا قیامت وہ جلتی رہیں گی۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ۔ آمین