آم، انبوا اور شیک

آم کا سیزن عروج پر ہے۔ گلی، محلوں، بازاروں اور چوراہوں پر آم ہی آم دکھائی دے رہے ہیں۔ لوگ ذوق و شوق سے آم خریدتے نظر آرہے ہیں۔ جوس کی دکانوں پر مینگو شیک کے دیوانوں کا رش ہے۔ گھروں میں آم کھائے جارہے ہیں، شیک بنائے جارہے ہیں۔ عام طور پر کسی بھی پھل کے سیزن میں اتنا جوش وخروش اور والہانہ پن دیکھنے میں نہیں آتا، جتنا آم کے لیے۔ شاید اسی لیے آم کو پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ آم کی وہ منفرد لذت اور ذائقہ ہے، جو شاید کسی اور پھل میں نہیں۔
پاکستان میں عموماً سندھڑی سے آموںکے سیزن کا آغاز ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی دسہری اور سرولی بھی آجاتے ہیں۔ اور پھر آم میں سب سے بہترین یعنی چونسا بھی بازار میں آتا ہے۔ یوں تو آم کی بہت سی اقسام ہیں، لیکن چونسے کے شاید سب ہی دیوانے ہیں۔ خاص طور پر ملتان کے چونسے کا جواب نہیں۔
ہمارے بچپن میں ریفریجریٹر یا فریج نہیں تھا، اس لیے چیزوں کو ذخیرہ کرنے کا رواج نہ تھا۔ گھر میں آم آتے تو کسی بالٹی یا کھلے برتن میں پانی بھر کر ڈال دئیے جاتے، انہیں دو تین گھنٹے پانی ہی میں رہنے دیا جاتا۔ اس کے بعد ہم سب بہن بھائی آموں پر ٹوٹ پڑتے۔ اُس زمانے میں لوگ زیادہ تر دیسی آم ہی کھایا کرتے تھے، دیگر اقسام بھی تھیں۔ لیکن چونکہ سستا زمانہ تھا، اس لیے آم بھی سستے ہی تھے، یعنی ایک ڈیڑھ روپے کلو۔ انور ریٹول ڈھائی تین روپے کلو مل جایا کرتا تھا۔ اس لیے گھر میں کبھی دس کلو سے کم آم آئے ہی نہیں۔ لیکن وہ کئی دن نہیں رکھے جاتے تھے، بس ایک یا دو دن میں سارے آم ختم، اور پھر دوبارہ آجاتے۔ زیادہ تر آم چوس کر کھائے جاتے یا چھلکا اتار کر۔ اسی طرح آم کھانے کے بہت سے طریقے تھے اور اب بھی ہیں۔ اور ایک طویل عرصے تک دوپہر کو آم سے روٹی کھانے کا سلسلہ جاری رہا۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو آم کھانے کے بعد کچی لسی پینے کی عادت ہے، خاص طور پر چھٹی والے دن دوپہر کو پیٹ بھر کر آم کھانے کے بعد کچی لسی پی کر ایسا سرور طاری ہوتا ہے کہ مت پوچھیں۔
زمانے نے ترقی کی اور الیکٹرانکس کی اشیاء آگئیں تو فریج ہر گھر کی زینت بن گیا، اور آم رکھ کر اور ٹھنڈے کرکے کھائے جانے لگے۔ اس کا شیک بناکر حلق میں انڈیلے جانے لگے۔ مہنگائی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے اب تو آم بھی ہر ایک کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے، حالانکہ صرف بیس سال پہلے تک سو روپے میں پانچ چھ کلو آم آجاتے تھے، اور اب ڈیڑھ سو روپے کلو سے کم میں آم ہی نہیں ملتا۔ لیکن آموں کے سب ہی دیوانے ہیں، غریب سے غریب آدمی کو بھی آم مل ہی جاتا ہے، چاہے وہ بہت سے نہ سہی، پورے سیزن میں چند آم ہی کھالے۔
پہلے آموں سے مختلف سالن تیار کیے جاتے تھے، جن میں سے گڑنبہ اور امرس تو مجھے ابھی تک یاد ہے۔ اس کے علاوہ کیری کی چٹنی، اچار اور آم کی میٹھی چٹنی تو اب بھی بہت شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ بلکہ اچار کا بادشاہ بھی آم کا اچار ہی ہے، جس کا خیال آتے ہی منہ میں پانی بھر جاتا ہے۔ آم کا اچار صدیوں سے مقبول ہے۔
ڈھائی ہزار برس سے ساون، انبوا کا پیڑ، پیڑ پہ جھولا، اور جھولے میں پینگیں بھرتی ناری پیڑھی در پیڑھی ہمارے ساتھ ساتھ ہیں۔ ایک دور تھا جب ساون کا جھولوں، جامن اور آم کے پیڑ سے گہرا تعلق تھا۔ ساون کی جھڑی لگتی تو اذانیں دے کر اس سے جان چھڑائی جاتی تھی۔ بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین طرح طرح کے پکوان تیار کرتے اور تانگوں میں سامان لاد کر دریا یا تاریخی مقامات پر تفریح کا اہتمام کرتے تھے۔ سخت گرمی کے موسم میں جب مشرق سے کالی اودی گھٹائیں آسمان پر چھا جاتیں تو آم کے پیڑ پر چھپی کوئل مست ہوکرکوکنے لگتی، اور لڑکیاں بالیاں دیوانہ وار بارش میں نہانے اور جھولے جھولنے نکل پڑتیں۔ آم کے درخت میں جھولے ڈال کر لمبی لمبی پینگیں بھری جاتیں۔ لونڈے لپاڑے جی بھر کے مستیاں کرتے۔ کچی پکی امبیوں پر جب رم جھم پانی برستا تو وہ دھل دھلا کر مزید نکھر کر دعوتِ نظارہ دینے لگتیں۔ ایسے میں لونڈے اور لونڈیاں اپنی اپنی پسند کی امبیوں کو دیکھ کر للچاتے اور ان کے ذائقے کے تصور سے آنکھیں میچ کر چٹخارے بھرتے، جیسا کہ آج کل ٹیلی ویژن پر آم کے اچار کے اشتہار میں چٹخارے بھرتے دکھایا جاتا ہے۔
یوں تو آم ساری دنیا میں پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کا اصل وطن جنوبی ایشیا یا غیرمنقسم ہندوستان ہے، جہاں پانچ ہزار سال سے یہ پیدا ہورہا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں آم نے بدھ بھکشوؤں کے ہمراہ ہندوستان سے جنوب مشرقی ایشیا ہجرت کی، اور برما، تھائی لینڈ ، چین سے ہوتا ہوا انڈونیشیا اور فلپائن تک پہنچ گیا۔ فلپائن کا آم ’’کارا باؤ‘‘ اس قدر شیریں ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ پاچکا ہے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی کے وسط میں اسپین کے تاجر بحری جہازوں کے ذریعے آم کی گٹھلی میکسیکو لے گئے۔ یوں بحرالکاہل کے دوسری طرف فلوریڈا سے ویسٹ انڈیز تک ہر ہسپانوی نو آبادی میں آم پھیل گیا، اور پھر بحراوقیانوس عبور کرتا ہوا اسپین اور پرتگال تک جاپہنچا۔ وہاں سے مشرقی افریقہ گیا۔ ابن بطوطہ نے صومالیہ میں آم مزے لے لے کر کھایا۔ سن 632ء سے 645ء تک ہندوستان آنے والے سیاح ہوانسانگ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان کے باہر کے لوگوں سے آم کا تعارف کرایا تھا۔
آم ہرانسان کو پسند ہے، چنانچہ تمام مغل بادشاہوں کا بھی یہ پسندیدہ پھل تھا اور آم کی زیادہ تر قلمی اقسام تیارکرانے میں ان کا کردار نمایاں ہے۔ شہنشاہ اکبراعظم نے بہار کے علاقے دربھنگہ میں ایک لاکھ درختوں کا آم کا باغ لگوایا تھا۔ ’’آئینِ اکبری‘‘ میں آم کی اقسام اور ان کی خصوصیات تفصیل سے موجود ہیں۔
پاکستانی آموں کے بارے میں زرعی ماہرین کی رائے ہے کہ اس سے زیادہ میٹھا اور خوش ذائقہ آم کرۂ ارض پر کہیں اور پیدا نہیں ہوتا۔ بے شک دنیا کے دیگر ملکوں میں پیدا ہونے والے آموں کے مقابلے میں پاکستانی آم اپنے ذائقے، تاثیر، رنگ اور صحت بخش خوبیوں کے لحاظ سے سب سے منفرد ہیں۔ پاکستان میں دوسو سے زائد اقسام کے آم پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سندھڑی، چونسا، سرولی، دسہری، لنگڑا، فجری، دیسی اور الماس قابل ذکر ہیں۔
آموں کا ذکر ہو اور مرزا غالب کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے! وہ بھی آموں کے دیوانے تھے۔ چچا غالب کے بقول آم میں دو خصوصیات ہونی چاہئیں: ’’اوّل وہ میٹھے ہوں، دوم بہ کثرت ہوں‘‘۔ ایک بارآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر باغ کی سیر فرما رہے تھے، مرزا غالب بھی ان کے ہمراہ تھے جو پُرتجسس نظروں سے آم کے درختوں کو دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا ’’مرزا صاحب! آپ درختوں کو اتنی گہری نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس پر مرزا صاحب گویا ہوئے ’’میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو شے جسے ملنی ہو، اس کے دانے دانے پر اسی کے نام کی مہر لگی ہوتی ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی پر میرے نام کی مہر بھی لگی ہے یا نہیں‘‘۔ یہ سن کر بہادرشاہ ظفر مسکرائے اور مرزا صاحب کا مطلب سمجھ گئے، انہوں نے آموں کی ایک ٹوکری مرزا صاحب کو بطور تحفہ بھجوائی۔
ایک مرتبہ مرزا غالب کے ایک دوست نے دیکھا کہ ایک گدھا آم کے ڈھیر تک گیا اور سونگھ کر واپس آگیا، اس نے کہا کہ ’’دیکھا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے‘‘۔ غالب کا جواب تھا ’’بالکل، صرف گدھے ہی آم نہیں کھاتے‘‘۔ حضرت امیر خسرو ؒ نے فارسی شاعری میں آم کی بہت تعریف کی اور اسے فخرِ گلشن کہا کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شاعرِمشرق علامہ اقبال ؒ بھی آموں کے بے حد شوقین تھے۔ نوجوانی میں آپ کا دستور تھا کہ آموں کی دعوتوں میں شریک ہوتے۔ ان دعوتوں میں اہلِ لاہور سیروں آم کھا جاتے تھے۔ مشہور ادبی شخصیات اور شاعروں ہی کی طرح اکبرالٰہ آبادی کو بھی آموں سے بڑا عشق تھا، اور آموں میں بھی لکھنؤ کے سفیدے، اور ملیح آباد کے دسہری سب سے زیادہ مرغوب تھے۔ اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین کو لکھتے ہیں:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر بیس تو دس خام بھیجیے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجیے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی! پہلے مگر دام بھیجیے