مقامی حکومتوں کے قیام سے پی ٹی آئی کی پسپائی

میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں میں رواں برس ستمبر یا اکتوبرکے مہینے میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت چاروں صوبوں کے بلدیات سے متعلق اعلیٰ حکام کے ایک خصوصی اجلاس میں کیا گیا۔ صوبے میں بلدیاتی اداروں کے قیام کے موضوع پر ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ بحث ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک جانب الیکشن کمیشن نے رواں سال کے اختتام تک چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا عندیہ دیا ہے، جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن ملک بھر کی 42 چھائونیوں (کنٹونمنٹ بورڈز) میں 12ستمبرکو مقامی انتخابات کے انعقاد کا شیڈول بھی جاری کرچکا ہے۔ واضح رہے کہ 2019ء میں بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہونے کے بعد سے الیکشن کمیشن اور چاروں صوبوں کے درمیان مقامی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے ایک دوسرے پر تاخیر اور عدم دلچسپی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا کہنا یہ تھا کہ وہ تو بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے البتہ اس سلسلے میں صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن سے مطلوبہ تعاون نہیں کررہی ہیں۔
یہ ساری بحث ایک ایسی جماعت کے عرصۂ اقتدار میں ہورہی ہے جو نہ صرف شروع دن سے بلدیاتی نظام کے زبردست حق میں رہی ہے بلکہ بلدیاتی اداروں کا قیام اس کے منشور کا ایک اہم اور بنیادی نکتہ بھی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان بطور قائد حزب اختلاف بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان اداروں کو جمہوریت کے استحکام کے لیے جتنا ناگزیر اور ضروری قرار دیتے رہے ہیں اتنا شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاسی راہنما اور کسی بھی سیاسی جماعت نے ان اداروں کے قیام پر زور نہیں دیا ہے۔ عمران خان کا بلدیاتی اداروں سے متعلق یہ مؤقف آج بھی اکثر لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگا جب وہ بڑے مدلل اور پُرجوش انداز میں بر طانیہ میں کارفرما مقامی حکومتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسی نوع کا نظام پاکستان میں بھی رائج کرنے کی پُرزور وکالت کرتے تھے۔ ان کی اس وکالت کے پیچھے جہاں برطانیہ کا مستحکم اور پائیدار مقامی حکومتوں کا نظام، اور اس نظام سے عام افراد کو مختلف شعبوں میں ملنے والا ریلیف پاکستانی شہریوں کے لیے بھی متعارف کرانے کا جذبہ کارفرما ہوتا تھا، وہیں وہ اس نظام کے تحت قائم کرکٹ کے کائونٹی سسٹم کو بھی پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے ایک ضروری عنصر سمجھتے تھے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق وفاق میں برسراقتدار رہتے ہوئے پچھلے تین سال، اور خیبر پختون خوا میں گزشتہ آٹھ سالہ تسلسل کے باوجود خان صاحب نہ تو یہاں کرکٹ کے فرسودہ نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لا سکے ہیں، اور نہ ہی جمہوریت کی نرسری قرار دیئے جانے والے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لیے کوئی قابلِ ذکر قدم اٹھایا جا سکا ہے۔ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں خدا خدا کرکے ہونے والے بلدیاتی انتخابات، اور اس کے نتیجے میں بننے والے بلدیاتی اداروں کی میعاد کو ختم ہوئے دو سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن حکومت کو بلدیاتی اداروں کے قیام کی دوبارہ توفیق تاحال نصیب نہیں ہوسکی ہے۔
ایسا کیوں ہے اور منتخب حکمران بلدیاتی اداروں کے قیام سے اتنے خائف یا الرجک کیوں رہتے ہیں؟ بر سرِزمین حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم وطنِ عزیز میں اکیسویں صدی سے ہم آہنگ جمہوری کلچر کا فروغ چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں نیک نیتی سے ملک بھر کے لیے یکساں اور متفقہ بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔ دراصل افسوس اس بات کا ہے کہ ہم مغربی جمہوریت کے اثرات اور فوائدتو سمیٹنا چاہتے ہیں اور اس نظام کو اپنے22 کروڑ عوام کی فلاح و بہبود کا ضامن تو سمجھتے ہیں، لیکن اس نظام کی بنیادسمجھے جانے والے بلدیاتی اداروںکے قیام کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کیکر کے درخت سے آموں کی آس لگائے۔ لہٰذا اگر ہم اپنے شہریوں کو بعض بنیادی سہولیات بلدیاتی اداروں کے قیام کے ذریعے ان کی دہلیز پر پہنچاکر انہیں جمہوریت کے پھل سے بہرہ مند کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے نہ صرف ایک متوازن بلدیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا، بلکہ عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد کو قانون سازی کے ذریعے آئین کا متفقہ حصہ بھی بنانا ہوگا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک عام تاثر یہ تھا کہ وہ بلدیاتی اداروں کے ساتھ ماضی میں کیے جانے والے سوتیلے سلوک کا مداوا ایک بہتر، فعال اور عوام کے لیے حقیقی معنوں میں قابلِ قبول بلدیاتی نظام متعارف کرانے کی شکل میںکرے گی، کیونکہ ایسا کرنا اس کے منشور اور تبدیلی کے ایجنڈے کا ایک اہم اور بنیادی نکتہ ہے، لیکن حیران کن طور پر خیبر پختون خوا کے عوام سے دو دفعہ بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود وہ اب تک کم ازکم بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے نہ صرف تہی دامن نظر آتی ہے بلکہ اس طرزِعمل کے ذریعے وہ جہاں آئینِ پاکستان سے انحراف کی مرتکب ہورہی ہے وہیں اسے اپنے وعدوں اور منشور کو پسِ پشت ڈالنے کے الزاما ت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت صوبے میں جو بلدیاتی نظام نافذ کرانا چاہتی ہے وہ نہ صرف خود پی ٹی آئی کے منشور میں دئیے گئے بلدیاتی نظام سے مطابقت نہیں رکھتا، بلکہ اس لولے لنگڑے نظام سے بلدیاتی نظام کی رہی سہی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہونے کا احتمال ہے۔
2013ء میں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی کی شراکت سے صوبے میں جو بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا، وہ اگر ایک طرف آئین کی دفعات 32،37 اور 140-A کی روح کے عین مطابق تھا تو دوسری جانب اس نظام کی تعریف جہاں عالمی بینک اپنی ایک رپورٹ میں کرچکا ہے وہیں اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین اپنی کتاب ـ”Governing the ungovernable” میں بھی اس نظام کی تعریف کرتے ہوئے اسے حقیقی معنوں میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی ایک مخلصانہ کاوش قرار دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ 2013ء کے متذکرہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت صوبے کے تمام اضلاع میں تین درجات پر مشتمل بلدیا تی نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت 24محکموں کو اضلاع کے سپرد کرکے ان محکموں کا اختیار مقامی حکومتوں کو دیا گیا تھا، جس سے عوامی فلاح و بہبود کے ایک نئے سماجی کلچر کا آغاز ہوا تھا۔ اس نظام کی ایک خاص اور منفرد بات یونین کونسل کو ختم کرتے ہوئے مقامی سطح پر نیبر ہوڈ اور ویلیج کونسل کی ایک منفرد سطح کا متعارف کرایا جانا تھا، جس کا حجم اور آبادی یونین کونسل سے خاصی کم تھی، جس کی وجہ سے اس نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک بحال ہونے کے علاوہ ان تینوں درجات کو فنڈز کی مناسب تقسیم کے ذریعے حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ 2013ء کے بلدیاتی ایکٹ کی ایک اور خاص بات 30 فیصد ترقیاتی بجٹ کا ان بلدیا تی اداروں کے ذریعے خرچ کیا جانا تھا۔ واضح رہے کہ اس فنڈ کی تقسیم صوبائی فنانس کمیشن کے ذریعے کی جاتی تھی، جس کا تعین آبادی، غربت، ریونیو اور انفرا اسٹرکچرکی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا تھا۔اس نظام کے تحت چار سال میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم مقامی حکومتوں کے ذریعے فلاحِ عامہ پر خرچ کی گئی تھی جو ایک ریکارڈ ہے، حالانکہ یہ رقم مقامی حکومتوں کے حصے میں قانون کے تحت آنے والی کُل رقم کا محض 50فیصد تھی۔
پی ٹی آئی کے ترمیم شدہ نئے نظام میں ضلعی انتظامیہ براہِ راست صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوگی، نتیجتاً مقامی حکومتیں براہِ راست صوبائی حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گی جس سے نہ صرف مقامی حکومتوں کی روح متاثر ہوگی بلکہ اس سے بلدیا تی اداروں میں صوبائی حکومت کی براہِ راست مداخلت سے کئی پیچیدہ مسائل بھی جنم لیں گے۔ ۔
اس نئے بلدیاتی نظام میں صرف دو درجوں یعنی تحصیل اور ویلیج و نیبر ہوڈ کونسلوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اسی طرح ترمیم شدہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی کونسل بجٹ منظور کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں متعلقہ چیئرمین بجٹ تیار کرکے 30 دن کے اندر اندر اسے حتمی منظوری کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن کے پاس بھیجے گا۔ اس طریقہ کار سے واضح طور پر بلدیاتی اداروں میں صوبائی حکومت کا عمل دخل بڑھے گا، اور مقامی حکومتیں خود کو لوکل کونسل کمیشن اور صوبائی حکومت کے رحم وکرم پر سمجھیں گی، جو نہ صرف بلدیاتی حکومتوں کے تصور کے خلاف ہے بلکہ یہ مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی خودمختاری دینے کی سوچ سے بھی انحراف ہے۔ اس نئے بلدیاتی نظام میں تحصیل چیئرمینوں کا جماعتی بنیادوں پر براہِ راست انتخاب بظاہر ایک مستحسن فیصلہ ہے، لیکن اس ایکٹ میں ویلیج اور نیبر ہوڈ کونسل کے چیئرمینوںپر مشتمل تحصیل کونسلیں بنانے کے فیصلے کو کسی بھی لحاظ سے ایک جمہوری فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ غیر جماعتی بنیادوں پر مشتمل تحصیل کونسل کی جماعتی بنیادوں پر منتخب چیئرمین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن مستقلاً ایک مسئلہ رہے گی جس کاخمیازہ عوام کو ناقص ڈلیوری کی صورت بھگتنا ہوگا۔
حرفِ آخر یہ کہ موجودہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مسلسل جو ٹال مٹول کررہی ہے اُس سے ایک طرف روزمرہ عوامی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف نچلی سطح پر عوام میں مایوسی اور اضطراب بڑھ رہا ہے، جب کہ تیسری جانب حکومت عام لوگوں کو اپنے اس بنیادی حق سے محروم رکھ کر اپنے مینڈیٹ کی توہین کی مرتکب بھی ہورہی ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت عوام کو ان کے اس بنیادی آئینی حق سے آخر کب تک محروم رکھ سکے گی؟ اور ایسا کرتے ہوئے اپنے لاکھوں ووٹرز کو آخر کیسے اور کیونکر مطمئن کرپائے گی؟