عید ِقربان ،بارش اوربچے

”چلو چلو، گائے دیکھنے چلتے ہیں“۔
”ارے ارے کیچڑ سے بچ کر۔ اوہو، ہاتھ کیوں لگا رہے ہو! پھر اسی ہاتھ سے…“
”اللہ توبہ، یہ بچے بھی اور ابا بھی… کوئی خیال ہی نہیں۔ بارش بھی ہوگئی اوپر سے۔“
عیدِ قرباں بچوں کے لیے جشن کا سماں… سنت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں محلوں، علاقوں میں ہر طرف قربانی کے جانور… مگر ایک بات شاید حالتِ جوش میں ہم بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفائی کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔
عام دنوں میں ہی اگر کچرے کی صفائی نہ ہو تو ہر طرف بیماری پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یکایک چند دنوں کے لیے ہی سہی، بہت سارے جانور گلیوں، محلوں میں آجائیں اور لوگ صفائی کا خیال نہ کریں اور یہ توقع رکھیں کہ کوئی بیماری نہیں پھیلے گی!
ہوتا یہ ہے کہ ان چند دنوں میں جانوروں کا چارہ بڑی مقدار میں علاقے میں لایا جاتا ہے۔ چارہ فضا میں اڑتا ہے اور پھر وہ لوگ جو الرجک ہوتے ہیں اُن کی ناک میں سرسراہٹ ہوتی ہے، چھینکیں آتی ہیں، اور پھر چھوٹے بچوں کی پسلیاں بھی چلنے لگتی ہیں، اس طرح اسپتال کے چکر لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔
بچوں کو شوق بھی ہوتا ہے جانوروں کو ہاتھ لگانے کا، اور اس کے بعد بکرے، دنبے کے بال ہاتھ پر لگتے ہیں اور الرجی کا سائیکل شروع ہوکر سینہ بولنے لگتا ہے۔
آگے بڑھتے ہیں۔ محلے میں قربانی کے جانور آگئے، اب ان کا فضلہ (Animal Dung) گھر کے سامنے سے تو ہٹادیا، مگر گلی کے کونے پر سارے محلے کا فضلہ جمع ہے، مکھیاں اس پر منڈلا رہی ہیں اور وہ پھر سب کے گھروں میں چکر لگا رہی ہیں۔
کیا ہوگا آپ کے خیال میں؟
کیا جراثیم پورے محلے میں نہیں پھیل رہے؟
یہ وائرس، اور پیٹ کی خرابیوں کے وائرس ہر گھر میں آگئے، چھوٹے بچے جن کا بآسانی شکار ہوسکتے ہیں، کیونکہ وہ ہر چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں اور پھر منہ میں لے جاتے ہیں۔
اگر پچھلے چند سالوں کا جائزہ لیں تو آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ گرمی کے دنوں میں عیدِ قرباں کے قریب یا بارشوں کے فوراً بعد بچے کیوں زیادہ بیمار پڑتے ہیں؟
بارشوں کا موسم ہے… آپ تصور کریں کچرا، جانوروں کا فضلہ اور صفائی کا ناقص انتظام… یہ سب مل کر بیماریوں کے لیے ایک وبائی صورت اختیار نہیں کریں گے، خاص طور پر پیٹ کے امراض کے لیے، چاہے وہ بچے ہوں یا بڑے؟
بارشوں کے باعث ایک اور مسئلہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ یکایک سانس کے امراض میں اضافہ ہوگیا۔ اب آپ کو اسپتالوں میں بچوں میں نزلہ کھانسی بھی زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وجہ؟ ایسے تمام بچے جو حساسیت یا الرجی کا شکار ہیں وہ بارش کے موسم اور مرطوب موسم میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سانس لینے میں دشواری، پسلی چلنے وغیرہ کی شکایات ہوجاتی ہیں۔
ایک طرف صفائی کا فقدان، دوسری طرف بارش… اسپتالوں میں بچوں کی قطاریں، ڈائریا، الٹیاں اور کھانسی، اس پر بخار بھی… تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ آپ کتنی ہی کوشش کرلیں پانی کی کمی کو دور کرنے کی… ڈائریا یا الٹیوں کی وجہ سے آپ بچوں کو ڈرپ لگوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ الرجی کی وجہ سے کھانسی بھی شروع ہو جائے تو پھر نیبولائزر تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
عام دنوں میں ماں باپ بچوں پر اچھا کنٹرول رکھتے ہیں، مگر عید کے دنوں میں یقیناً وہ بھی تھوڑے نرم پڑ جاتے ہیں۔ پھر بچے کہاں مانتے ہیں! کولڈ ڈرنک، آئس کریم، اور تھوڑے بڑے بچے گوشت کے طرح طرح کے پکوان کھائے چلے جاتے ہیں۔ کھانے میں اگر تھوڑی سی احتیاط کرلیں تو بہت سارے مسائل سے جان بچ سکتی ہے، ورنہ اسپتال کی ایمرجنسی اور ہم۔
قربانی تو ہم کرتے ہیں، سنت ِرسولؐ پر بھی عمل کرلیں تو سوچیں اللہ اور رسولؐ دونوں خوش۔
جانوروں کے فضلےاور قربانی کے بعد آلائشوں اور خون کو صحیح طریقے سے ہٹائیں، صاف کریں۔
بچے اگر قربانی کے جانور دیکھنے جا رہے ہیں تو ان کو ماسک پہنا دیں، الرجی والے بچوں کو جانوروں سے دور رکھیں، ان کو گھر آنے کے بعد نہلا دیں، ان کے کپڑے تبدیل کردیں۔ اگر نہلانا ممکن نہیں تو ہاتھ، پاؤں، منہ دھلوا دیں۔
جن بچوں کو الرجی ہے اُن کے لیے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ان کو کوئی دوا حفظ ماتقدم (Prophylaxis) کے طور پر دی جاسکتی ہے؟
بارش کے موسم میں ایک اور چیز کا بھی خیال کریں، جہاں بارش کا پانی جمع ہے اس کو خشک کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں یہ پانی ڈینگی، ملیریا کے مچھروں کی افزائش کرتا ہے وہیں بجلی کے تار ٹوٹنے کی صورت میں کرنٹ لگنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
عید کی خوشیاں مبارک، بارش کا مزہ ضرور لیں، مگر خیال رہے اس کو نہ اپنے لیے زحمت بننے دیں اور نہ کسی اور کے لیے زحمت بنائیں۔
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے سے رکاوٹ دور کردیا کرتے تھے۔ ہم آپؐ کے امتی ہونے کے ناتے دوسروں کی تکالیف میں اضافہ نہ کریں۔ جزاک اللہ