بلوچستان: سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا راج

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے حلف اٹھانے کے بعد جو پہلی ترجیح و تمنا ظاہر کی تھی وہ بدعنوانی کے ناسور سے نبرد آزما ہونا تھا۔ جام کمال خان نے کہا تھا کہ بیوروکریسی میں نیب زدہ افسران کے بجائے دیانت دار اور اچھی شہرت والے افسران سے کام لیا جائے گا۔ مگر بدقسمتی سے جام کمال اپنی اس نیت اور عزم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ وجہ یہ ہے کہ نظام بری طرح آلودہ ہے اور جام کمال تنہا ہیں۔ وگرنہ اس ضمن میں وہ ضرور اچھی مثال قائم کردیتے۔ چناں چہ وہ افسران جن کے مقدمات احتساب عدالتوں میں چل رہے تھے اور وہ ضمانتوں پر تھے، پھر سے اہم محکموں کے چارج لے کر بیٹھ گئے۔
عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس عالم میاں پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 27 جولائی2020ء کو سابق ڈپٹی جنرل منیجر ٹیلی فون انڈسٹریز طاہر عتیق صدیقی کی ملازمت پر بحالی کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ طاہر عتیق صدیقی کو احتساب عدالت سے سزا ہوئی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملزمان اپنی سزا معطل ہونے پر عہدے پر بحال نہیں ہوسکتے۔ سزا معطل ہونے کا مطلب جرم ختم ہونا نہیں۔ بینچ نے یہ بھی قرار دیا کہ نیب مقدمات میں سزا پانے والے سرکاری افسران اور عوامی عہدے دار مکمل بریت تک عہدوں پر بحال نہیں ہوسکتے۔
مگر یہاں عدالتی احکامات کے برعکس ہورہا ہے۔ مشاہدے میں تو یہ بھی ہے کہ ایک سیکریٹری صاحب پر نیب نے ہاتھ ڈالا، وہ جیل گئے، لیکن ضمانت کے بعد دوبارہ محکمے کا چارج دے دیا گیا۔ ان سیکریٹری صاحب نے سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے وکیل کی بھاری فیس بھی محکمے کے کیشیر سے لے کر ادا کی۔ ظاہر ہے ایسا بدعنوانوں کے باہمی گٹھ جوڑ کی بنا پر ہوا ہے۔ وگرنہ کیشیر تو اپنی جیب سے رقم ادا نہیں کرسکتا۔
بلوچستان کے سرکاری محکموں میں بدعنوانی کا راج بدستور قائم ہے، اور اس ناسور سے چھٹکارے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی دیتی ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر محکمہ بہبودِ آبادی بلوچستان کو لیتے ہیں، جس کے قصے آج کل اخبارات اور سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ محکمے کے ایک ادنیٰ ملازم یعنی محض گریڈ14کے حامل فرد کی مراعات اور اختیارات حیرت میں مبتلا کردینے والے ہیں۔ وزیر کے دفتر سے لے کر سیکریٹری آفس تک وہ سب کا دلارا ہے۔ محکموں کے کلرکوں کی تنظیم ’ایپکا‘ عرصۂ دراز سے احتجاج پر ہے اور کسی بھی جانب سے شنوائی نہیں ہورہی۔ یہ لوگ حالیہ چند دنوں سے پھر نعرے بازی کررہے ہیں، احتجاج کے طور پر دفاتر کو تالے لگا رکھے ہیں۔ تاہم اس بار بھی مجاز حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگی، کیونکہ دھندے کی اس پوری چین میں سب کا حصہ مقرر ہے۔ وزیر اور سیکریٹری دفتر سے نیچے تک ہم آہنگی، رضا و رغبت ہے۔ نتیجتاً محکمے کی اہمیت دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔ ظاہر ہے جب ہر سو بدعنوانی ہو، فنڈز ہڑپ کیے جاتے ہوں، سرکاری اخراجات کی رقم غت ربود ہوتی ہو، تو محکمے کی بقا کیسے ہوگی؟ 14گریڈ کے اس ملازم کے استعمال میں اِس وقت چار سرکاری گاڑیاں ہیں۔ ایک سرکاری ڈرائیور بھی لے رکھا ہے۔ گاڑیوں کے پیٹرول اور دوسرے اخراجات بھی محکمہ ادا کرتا ہے۔ محض14گریڈ کے ملازم کے پاس اتنی گاڑیاں ہیں تو سوچیے پھر وزیر اور سیکریٹری کے پاس کتنی گاڑیاں ہوں گی؟ سول سیکریٹریٹ میں محکمے میں چار سیکشن آفیسرز اور ایک ڈپٹی سیکریٹری کی موجودگی کے باوجود اس ملازم کے پاس چھ مالیاتی چارج ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل بہبود آبادی کے دفتر اور ٹرانسپورٹ کے انچارج اور اس دفتر کے کیشیر موصوف ہیں۔ سول سیکریٹریٹ میں سیکریٹری محکمہ بہبود آبادی کے دفتر کا ڈی ڈی، مالیاتی امور اور ٹرانسپورٹ کا چارج بھی لے رکھا ہے۔ حالاں کہ سول سیکریٹریٹ کے اندر یہ ذمہ داریاں سیکریٹریٹ کے گزیٹڈ آفیسر کے سپرد ہوتی ہیں۔ اس شخص کی وجہ سے یو این ایف پی اے نے اپنا پراجیکٹ بند کیا، وہ اس لیے کہ51لاکھ روپے کی بد عنوانی ہوئی۔ بیٹے کے نام فرم بنا رکھی ہے۔محکمے کے بیشتر کام اس کاغذی فرم کو دیے جاتے ہیں۔ سیمینار کی مد میں لاکھوں روپے کا اجراء کیا جاتاہے،جبکہ بر سرِ زمین کوئی سیمینار سرے سے منعقد ہوا ہی نہیں۔ رواں سال بھی8لاکھ روپے خلامیں منعقد کیے گئے سیمینار کی مد میں ہڑپ ہوچکے ہیں۔ کاغذی حد تک سیمینار ظاہر کیے جاچکے ہیں۔پچھلے سال2020ء میں کورونا کی وجہ سے پورے ملک کے اندر لاک ڈائون رہا، تعلیمی ادارے،سرکاری و نجی دفاتر، کاروباری مراکز بند رہے، مگر محکمہ بہبود آبادی کے لیے فرنیچر کی خریداری اور مختلف اضلاع کے دفاتر کو ترسیل ہوئی۔ یہ سارا فرنیچر پرانا اور ٹوٹا ہوا تھا۔ خریداری بھی بیٹے کے نام سے بنائی گئی فرم کے ذریعے کی گئی۔ جعلی وائوچرز کا طریقہ اپنا رکھا ہے۔ طبی آلات، مانع حمل اور دیگر ادویہ کی خریداری کا طریقۂ واردات بھی یہی ہے۔ سرکاری پیٹرول کی نوازشات ہورہی ہیں۔ محکمے کی چٹ پر گاڑیوں کی ٹینکیاں بھری جاتی ہیں۔ گویا محکمہ بہبود آبادی بد ترین صورت حال سے دوچار ہے۔
یہاں اجمالاً محض چند پہلوئوں پر گفتگو ہوئی۔ دراصل ملازمین کی تنظیم نے پوری تفصیل، اعداد و شمار اور ثبوتوں کے ساتھ وائٹ پیپر جاری کررکھا ہے۔ اب اگر یہ سارا منظرنامہ وزیر اور سیکریٹری آفس کی نظروں سے اوجھل ہے تو بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ تعجب وزیراعلیٰ بلوچستان کی معائنہ ٹیم، محکمہ انسدادِ بدعنوانی بلوچستان، اور قومی احتساب بیورو (نیب) پر ہے کہ محکمہ بہبودِ آبادی کے گریڈ 14 کے ملازم پر یہ عنایات، اس کے اختیارات اور محکمے کے اندر بدعنوانی کے لگے کھلم کھلا بازار پر کیوں ٹس سے مس نہیں ہوئے؟ ایک بار محکمے کے وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ’’ میں قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ میرے محکمے میں بد عنوانی نہیں‘‘۔کیا کوئی اس کا یقین کرے گا ؟