وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزارتِ صنعت و پیداوار کی سفارش پر یوٹیلٹی اسٹورز پر گھی، آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کردیا ہے جو یوٹیلٹی اسٹورز سے اشیائے خورونوش خریدنے والے سفید پوش طبقے کے چھکے چھڑانے کے لیے کافی ہے۔ اب ان یوٹیلٹی اسٹورز سے گھی 170 سے بڑھ کر 260 روپے کلو، 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے کے بجائے 950 روپے، اور چینی 65 روپے کے بجائے 85 روپے کلو ملے گی۔ ایک سرکاری بیان میں اس اضافے کی بھونڈی سی توجیہہ یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی رعایتی قیمتوں اور مارکیٹ کی موجودہ قیمتوں کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کے لیے ان اشیاء کے نرخ بڑھائے گئے ہیں۔ گویا مارکیٹ کی قیمتیں کم کرانے کے بجائے یوٹیلٹی اسٹورز کی اشیاء کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔ یہ ایسی منطق ہے جو متعلقہ وزراء کے سوا کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یوٹیلٹی اسٹورز میں اشیاء کی قیمتیں چونکہ حکومتی سبسڈی کی وجہ سے مارکیٹ سے کچھ کم ہوتی ہیں، اب جب یوٹیلٹی اسٹورز پر قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں تو عام مارکیٹ میں ان اشیاء کی قیمتیں مزید بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ عام تاجر کا جواز ہوگاکہ اسے کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں، پانی، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلز، مختلف ٹیکس اور سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینا پڑتی ہے اِس لیے اُس کے لیے قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے جس اجلاس میں قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اُس میں کمیٹی کے 14 میں سے صرف 2 ارکان موجود تھے۔ ایسے میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا کوئی اخلاقی جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔
لگتا یہ ہے کہ حکومت مل مالکان کو ہر صورت میں خوش رکھنا چاہتی ہے، اس کو خوف ہے کہ اگر مل مالکان نے سپلائی روک دی تو اس سے بہت بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے جس کا اپوزیشن بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ دوسرے عام صارفین چونکہ منظم نہیں ہیں اس لیے کوئی بڑا احتجاج نہیں کرسکیں گے، تھوڑا بہت شور مچا کر خاموش ہوجائیں گے۔ حکومت نے یہ سوچے سمجھے بغیر قیمتوں میں اضافہ کیا ہے کہ حال ہی میں تیل اور پیٹرول کی قیمتوں میں دو تین بار اضافے کے علاوہ پانی، بجلی اور گیس کے بلوں میں اِس حکومت کے دور میں مسلسل اضافے کے بعد یوٹیلٹی اسٹورز پر اِن ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ عام اور غریب صارفین کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ اس کے باوجود کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر ملنے والی بیشتر اشیاء کا معیار اچھا نہیں ہے، اور صارفین کو جو بل کاٹ کر دیا جاتا ہے اُس میں اشیاء کے نام کے بجائے آئٹم نمبر درج ہوتا ہے جس سے صارفین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس چیز کی کتنی قیمت ہے۔ اور بہت سے صارفین یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ذہنی اذیت کے علاوہ بسا اوقات زائد قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے، لیکن حکومت کو صارفین کی کوئی فکر نہیں۔ اس کی پالیسیاں مل مالکان کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائی جارہی ہیں۔ قیمتوں میں موجودہ اضافے سے صارفین پر تو بوجھ بڑھ جائے گا اور ان اشیاء کی قیمتیں عام مارکیٹ میں بھی بڑھ جائیں گی، لیکن مل مالکان کو اربوں روپے کا فائدہ ہوجائے گا۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی یہی روش چلی آرہی ہے۔ چینی کے معاملے میں اربوں روپے کی سبسڈی تو مل مالکان کو مل جاتی ہے مگر صارفین کو چینی سستی نہیں ملتی۔ ابھی حال ہی میں جب حکومت یوٹیلٹی اسٹورز پر چینی 65 روپے کلو کے حساب سے فروخت کررہی تھی، حکومتی ادارے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نے مل مالکان سے 90 روپے کلو کے حساب سے چینی خریدی، جو اب 85 روپے کلو کے حساب سے صارفین کو دی جائے گی۔ صارفین کو مہنگی چینی کے علاوہ خود یوٹیلٹی اسٹورز کو 5 روپے کلو کے حساب سے نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ اس طرح کے نقصانات اس ادارے ہی کو تباہ کردیں گے۔
ہماری حکومتوں کی یہ پالیسی ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ ڈینگی وبا کے دوران حکومتِ پنجاب نے ایک پرائیویٹ لیبارٹری (چغتائی لیب) کے ساتھ ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی ٹیسٹ کے حساب سے معاہدہ کیا۔ چنانچہ لوگوں کے یہ ٹیسٹ فری ہوجاتے مگر حکومت ساڑھے آٹھ ہزار روپے فی ٹیسٹ کے حساب سے چغتائی لیب کو ادائیگی کرتی تھی۔ اس طرح اِس لیب کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیا، حالانکہ یہی ٹیسٹ الخدمت فائونڈیشن صرف ساڑھے تین ہزار روپے میں کررہی تھی۔ بعض دوسری لیبارٹریز بھی سستے ٹیسٹ کررہی تھیں، لیکن حکومت نے سب سے مہنگی لیب کو فائدہ پہنچانا ضروری سمجھا۔ حالانکہ اس مد میں جتنی رقم خرچ کی گئی ہے اس سے حکومت خود سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریز کو جدید بنا سکتی تھی، یا نئی لیبارٹریز قائم کرسکتی تھی۔ مگر ایسا کرنے کے بجائے ایک پرائیویٹ لیب کو فائدہ پہنچایا گیا۔ کورونا ٹیسٹوں کے سلسلے میں بھی اسی طرح کے اسکینڈل سامنے آئے ہیں۔ وزیراعظم یلو کارڈ اسکیم کی بڑی تعریفیں کررہے ہیں، یہ اسکیم نوازشریف دور کی ہے جس کے تحت یلو کارڈ ہولڈر اور اس کے اہلِ خانہ ساڑھے 7 لاکھ روپے سالانہ تک کسی بھی پرائیویٹ اسپتال سے علاج کراسکیں گے۔ اس کا فائدہ بھی پرائیویٹ اسپتالوں اور لیبارٹریز کو ہوا۔ حکومت اس کثیر رقم سے مریضوں کے لیے اسپتال بنا سکتی تھی، یا پہلے سے موجود اسپتالوں کی حالت بہتر بناسکتی تھی۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ہماری حکومتیں مل مالکان اور پرائیویٹ اداروں کو فائدہ پہنچانے کی روش پر چل رہی ہیں، اور اس کا بوجھ صارفین پر ڈال رہی ہیں۔