پاکستان اور افغانستان ان دنوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں، تاہم حقائق اور غیرجانب دارانہ اور منصفانہ بات کی جائے تو افغانستان کو ہی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ پاکستان نے امن کے قیام کی جس قدر کوشش کی، اسے کوئی تسلیم کرے نہ کرے تاریخ ضرور یاد رکھے گی۔ ایک ایسے مرحلے پر جب کہ امریکہ کابل چھوڑ کر جارہا ہے اور افغان حکومت اقتدار میں ہونے کے باوجود بے بس ہے، اس کی انتظامیہ طالبان کے سامنے ریت کی دیوار بنی ہوئی ہے، پاکستان کس طرح اس کی مدد کرسکتا ہے؟ اگر اسلام آباد ان حالات میں مدد کرنا بھی چاہے تو کابل کی الزام تراشی کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اس خطے میں پاکستان کو جس طرح کے چیلنج درپیش ہیں یہ کسی دوسرے ملک کو نہیں ہیں۔ حال ہی میں داسو میں چینی انجینئرزکی بس کی پراسرار تباہی، لاہور میں بم دھماکا، اسلام آباد میں متعین افغان سفیر کی بیٹی کا ’’پراسراراغوا‘‘ اور اس کے بعد افغان سفیر کا واپس بلایا جانا ایسے واقعات ہیں جن کی کڑیاں آپس میں ملتی دکھائی دیتی ہیں۔ بس حادثے کے بعد داسو ڈیم پروجیکٹ پر کام کا رک جانا دشمن کے دو دھاری تلوار استعمال کرنے کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ ان حالات میں اسلام آباد کا بڑا واضح مؤقف ہے کہ
’’پاکستان کا امن و امان افغانستان کے امن سے منسلک ہے، ہم باریک بینی سے علاقائی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور افغان امن عمل میں مخلصانہ کردار ادا کررہے ہیں، افغانستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے تمام شراکت داروں کے مابین مذاکراتی عمل کے لیے ہم نے تمام ممکنہ اقدامات کیے ہیں، اپنے ملک کو اس صورت حال سے نکالنا افغان گروپوں کی اپنی ذمہ داری ہے جس میں پاکستان معاونت تو ضرورکرسکتا ہے لیکن ضامن کسی طور نہیں بن سکتا‘‘۔
ایک جانب تعاون کی درخواست، اور دوسری جانب الزام تراشی کے بعد اشرف غنی حکومت نے ثالثی کے لیے پاکستان کا کردار خود ہی محدود کردیا ہے۔ کابل میں حقائق یہ ہیں کہ افغان حکومت متزلزل ہوچکی ہے، اور افغانستان میں طالبان کی نفسیاتی فتح سب کو نظر آرہی ہے۔ لیکن حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انہیں کامل کامیابی ملنا بھی آسان نہیں ہے، لہٰذا کابل اس وقت قومی انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ افغان فوج اور انتظامی مشینری خوف زدہ ہے، اور افغان عوام بھی جنگ و جدل سے عاجز آچکے ہیں۔ تاہم ہر فریق مناسب حصہ مل جانے پر طالبان کے ساتھ سمجھوتا کرنا چاہتا ہے۔ طالبان سمجھوتے سے قبل چاہتے ہیں کہ برّی و تجارتی راستوں پر قابض ہوجائیں۔ اس بار حالات ماضی سے مختلف ہوں گے، اسی لیے وہ کلی اختیار نہیں چاہتے۔ اس پس منظر میں پاکستان نے ایک کوشش کی کہ اسلام آباد میں امن کانفرنس بلائی جائے، مگر یہ کانفرنس شاید اس لیے ملتوی کردی گئی کہ حالات واضح نہیں ہیں اور طالبان تین ماہ کی جنگ بندی پر راضی ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے سات ہزارقیدی رہا کردئیے جائیں۔
حال ہی میں تاشقند میں ’’وسطی اور جنوب ایشیائی روابط اور علاقائی مواقع‘‘ کے عنوان سے علاقائی ممالک کی کانفرنس ہوئی، جس میں پاکستان نے امن کے قیام کے لیے کانفرنس میں شریک ملکوں کے سامنے اپنی تجاویز پیش کیں۔ وزیراعظم عمران خان نے واضح مؤقف اختیار کیا کہ طالبان کو مذاکرات کی دعوت غیرملکی افواج کے انخلاء سے قبل دی جانی چاہیے تھی، اب طالبان کیوں ہماری یا امریکہ کی بات مانیں گے! امریکیوں کے انخلاء کے بعد طالبان خود کو فاتح سمجھتے ہیں۔ ہم افغانستان کے تمام پڑوسی اور تمام متعلقہ بین الاقوامی فریقین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
صدر اشرف غنی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئے اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات میں گفتگو کی ابتدا ہی اس جملے سے کی کہ پاکستان مداخلت کررہا ہے اور دس ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے اپنے الزام کاکوئی ثبوت نہیں دیا۔ افغان حکومت چاہے تو سنجیدہ رویہ اختیار کرکے اپنے مسائل حل کرسکتی ہے، تاہم وہ بیساکھیوں پر کھڑی ہے، اسے گلہ امریکہ سے کرنا چاہیے جو اسے بے یارو مددگار چھوڑ کر جارہا ہے۔ منصوبے کے مطابق امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنا انخلاء مکمل کرلے۔ اس کی دلچسپی اپنے انخلاء کی حد تک ہے، اور انخلاء مکمل ہوجانے کے بعد امریکہ اپنا رنگ دکھائے گا، اور پاکستان بھی ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے مستقبل میں مسائل پیدا ہوں۔ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ افغان حکومت اور طالبان مل بیٹھ کر اپنا مسئلہ حل کریں۔ دوحہ مذاکرات بھی اسی لیے ہورہے ہیں اور پاکستان نے اسلام آباد کانفرنس بھی اسی لیے ملتوی کی ہے تاکہ کابل حکومت خود امن کی بحالی کی اپنی کوشش کے نتائج حاصل کرلے، کیونکہ مسائل کے حل کی کنجی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اسے پورا کیا جائے، مگر افغان حکومت گرفتار طالبان کی مرحلہ وار رہائی کے معاہدے سے بھی انحراف کررہی ہے۔ طالبان تو امریکیوں کو پُرامن انخلاء کا موقع دے رہے ہیں، مگر افغان حکومت طالبان کے ساتھ معاہدے پر عمل نہیں کررہی۔ یہی مسئلہ وہاں فساد کی جڑ بنا ہوا ہے۔ کابل انتظامیہ نے اپنی مدد کے لیے بھارت کو آواز دی ہے تاکہ طالبان کے زیرقبضہ افغان علاقے چھڑانے کے لیے مدد فراہم کرے۔ تاہم بھارت افغانستان میں فساد تو پیدا کرسکتا ہے، امن نہیں لاسکتا۔ یہ بات غنی حکومت نہیں سمجھ رہی۔ امریکی انتظامیہ فی الحال اپنے انخلاء تک خاموش رہے گی، وہ اشرف غنی حکومت کی پشت پر کھڑی ہوکر طالبان کو ردعمل کا موقع نہیں دینا چاہتی، لیکن بھارت کے کردار پر وہ خاموش ہے۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک سال قبل جب مذاکرات شروع ہوئے تھے اُس وقت اشرف غنی کو استعفے اور عبوری حکومت کے قیام پر قائل کرلیا گیا تھا، تاہم افغان حکومت کے بعض عناصر نے اشرف غنی کو غلط مشورے دیے اور وہ مستعفی نہیں ہوئے۔ افغان حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اشرف غنی کے حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے اور پاکستان کسی قیمت پر اسے نظرانداز نہیں کرسکتا۔ لہٰذا پاکستان نے زبان تو بند رکھی ہوئی ہے مگر اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں۔ پاکستان اس حقیقت سے واقف ہے کہ طالبان افغانستان کے 85 فیصد حصے پر قابض ہوچکے ہیں۔ کابل حکومت طالبان کو مذاکرات کی راہ پر لانے کی پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرنے کے بجائے محاذ کھول کر بیٹھی ہوئی ہے۔افغانستان کے حالات کا سارا نقشہ اسلام آباد کے سامنے ہے، پاکستان جانتا ہے وہاں کچھ فصیلیں اٹھائی جارہی ہیں،کچھ گرائی جارہی ہیں۔پاکستان کے دفاعی مبصرین، سفارتی امور کے تجزیہ نگار، افغان امور کے ماہرین، پشتو، فارسی، دری زبان جاننے والے دانشور افغانستان سے جڑے اَن دیکھے خوف اور سوالوں کے جواب کے متلاشی ہیں کہ افغان حکومت طالبان سے بات چیت اور معاہدوں پر عمل درآمد کے بجائے بھارت کی طرف کیوں دیکھ رہی ہے؟
جہاں تک طالبان کا تعلق ہے، وہ ابھی اپنا ذہن سامنے نہیں لائے۔ سب اس بات کے منتظر ہیں کہ نیا افغانستان کیسا ہوگا؟ طالبان بھی یہ بات سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ خود بھی ماضی کی غلطیاں دہرانے کو تیار نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ پوری دنیا اور اس خطے کے ممالک اپنے لبوں پر ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ کا بورڈ لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب وہاں ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جس نے بیس سالوں سے یہاں امریکہ اور نیٹو کی کارروائی دیکھی اور بھگتی ہے، طالبان بھی اس نسل کے جذبات سے واقف ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود بھی گواہی دے رہے ہیں کہ طالبان معاملہ فہم ہوگئے ہیں، تاہم ان سے جڑے خوف کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اس وقت دو سوال بہت اہم ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد نیا افغانستان ہوگا یا پرانا ہی واپس آئے گا؟ اور اسلام آباد اور اقوام عالم میں اسے کس طرح پذیرائی ملے گی؟ 20 سال پہلے طالبان کا پاکستان سے تعلق کچھ اور تھا، تب انہیں دنیا میں امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا، تب ہمسایہ ہونے کے باعث پاکستان پر انحصار بہت زیادہ تھا۔ وہ دور اب تمام ہوچکا، امریکہ کے انخلاء کے بعد طالبان کسی مزاحمت کے بغیر قریباً 85 فیصد افغانستان پر قابض ہوگئے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب طالبان امریکہ معاہدے کا ’حسنِ اتفاق‘ ہے؟ اور افغان وار لارڈز کہاں چلے گئے؟ حقائق یہ ہیں کہ امریکہ نے جسے ہمیشہ اپنا مفاد عزیز رہا، اب اپنے محفوظ انخلاء کے لیے ’’افغان نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ سے معاہدہ کیا ہے اور بین الاقوامی برادری بھی اس معاہدے کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے۔ روس اور چین بھی اس خطے میں اپنا مفاد دیکھ رہے ہیں، ایران بھی ایک فریق ہے اور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے، پاکستان بھی اپنے تجربات کی وجہ سے محتاط ہے اور سب کے لیے خیر خواہی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اسلام آباد بخوبی واقف ہے کہ اس خطے میں جتنا الاؤ بھڑکے گا، سی پیک کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہوگا۔ سی پیک سے جڑے امکانات چین کے لیے جتنے ناگزیر ہیں اُس کے حریفوں کے لیے اتنے ہی ناپسندیدہ ہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں وزیراعظم عمران خان ازبکستان کے دورے پر پہنچے۔ ان کے دورے کا مقصد تھا کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سیکورٹی اور معاشی در کھولے جائیں۔ کانفرنس کے لیے تاشقند دورے کا دوسرا حصہ افغانستان میں امن سے متعلق ہے، اورافغانستان کے صدر اشرف غنی بھی اسی لیے ازبکستان گئے تھے۔ صدر غنی اپنی اور اپنے نظام کی بقا چاہتے ہیں، لیکن امریکیوں کے انخلا سے طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی کمزور پڑتی جارہی ہیں۔ اماراتِ اسلامیہ فتوحات حاصل کررہی ہے۔ امریکی تربیت یافتہ افغان فوجی بھی اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، انہیں مقامی آبادیوں کا تعاون حاصل نہیں ہے، اسی لیے کہا جارہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی تیار کردہ افغان نیشنل آرمی ملک کا اندرونی اور بیرونی دفاع نہیں سنبھال سکتی۔ تو اس کا مطلب ہوا کہ 20 سالہ تربیت اور کھربوں ڈالر ضائع ہوگئے، اور خوف ہے کہ 1996ء دوبارہ واپس آرہا ہے، تو اس کی برابر کی ذمہ داری امریکیوں پر بھی عائد ہوگی۔
امریکیوں نے جن عزائم کا دنیا بھر کو یقین دلاتے ہوئے کابل پر فوج کشی کی تھی، یورپ اور اسلامی ممالک میں اپنے اتحادی جن مقاصد کے لیے بنائے تھے، نیٹو کو جن اہداف کے حصول کے لیے یہاں متعین کیا تھا، وہ مختصراً یہ تھے:
1۔ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کی تباہی
2۔ طالبان کی فوجی شکست
3۔جمہوری عمل کو تقویت دے کر ایک مضبوط مرکزی حکومت کا قیام
4۔ افغان اعتدال اور اصلاح پسندوں کی ایک نئی نسل تیار کرنا
مگر یہ سب کچھ نہیں ہوسکا، اوراب دو عشروں بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں تو کیا وہ ان میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کرسکے ہیں؟ طالبان کے مسلح افراد 75ہزار ہیں، جبکہ افغان نیشنل آرمی تین لاکھ ہے۔ مگر اس وقت افغان فوجی ہتھیار طالبان کے حوالے کرکے اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ ان پر خرچ کیا گیا پیسہ، تربیت سب بے نتیجہ ثابت ہورہی ہے۔ افغانستان میں اس وقت القاعدہ کی جگہ داعش اٹھ رہی ہے، طالبان مسلسل فوجی فتوحات حاصل کررہے ہیں، کابل کی مرکزی حکومت کمزور ترین ثابت ہورہی ہے۔ اس کے براہِ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ چند ہی ہفتوں بعد کابل کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوگیا اور وہاں کشت و خون ہوا تومہاجرین کے ریلے پھر پاکستان کا رُخ کریں گے۔ حکومت کو افغانستان کی مجموعی صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے جہاں اس معاملے پر کھل کر بحث کی جائے کہ ہماری افغان پالیسی کیا ہونی چاہیے، مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا جائے یا پہلے کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے؟