کراچی میں نیگلیریا پھر سے سر اٹھانے لگا، ملیر کے ایک فارم ہاؤس میں سوئمنگ پول میں نہانے والے 5 افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے جن میں 8 سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ جناح اسپتال کے فزیشن ڈاکٹر محمد عمر سلطان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔ ڈاکٹر عمر کے مطابق نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف نظر آنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔
اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ تک پہنچ کر اسے کھانا شروع کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں: جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2 سے 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا، گردن توڑ بخار ہونا، گردن میں اکڑ محسوس ہونا، چڑچڑا پن محسوس ہونا،اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔ مندرجہ بالا علامات اگر اُس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔ ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔ اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے، چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔ سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔
پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے، چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔ گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔ کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔