ایک مرتبہ اُمِ سُلیمؓ کے صاحبزادے بیمار ہوگئے، حضرت ابو طلحہؓ انہیں بیمار چھوڑ کر کام پر چلے گئے، اسی دوران میں صاحبزادے کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ام سلیمؓ نے ان پر کپڑا ڈالا، جس کوٹھری میں انتقال ہوا، لاش اسی میں رہنے دی، اور آکر حضرت ابو طلحہؓ کے لیے کھانا تیار کرنے لگیں۔ حضرت ابوطلحہؓ روزے سے تھے اور ام سلیمؓ نے یہ پسند نہ کیا کہ افطار وغیرہ سے پہلے انہیں اس جانکاہ غم میں مبتلا کریں۔ حضرت ابو طلحہؓ شام کے وقت گھر آئے، بچے کا حال پوچھا اور اسے دیکھنے کے لیے کوٹھری میں جانے لگے۔ لیکن ام سلیمؓ نے کہا: ’’وہ بہت اچھی حالت میں ہے، اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ حضرت ابوطلحہؓ لوٹ آئے اور مطمئن ہوکر افطار کرنے لگے۔ ام سلیمؓ نے اپنے شوہر کے استقبال کے لیے حسبِ معمول سنگھار بھی کیا اور گھر کی فضا پر حادثے کا معمولی اثر بھی نہ ہونے دیا۔ رات حسبِ معمول ہنستے کھیلتے گزری، تہجد کے وقت ام سلیمؓ نے حضرت ابو طلحہؓ سے کہا:
’’ابو طلحہؓ! فلاں قبیلے کے لوگ عجیب ہیں، انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے کوئی چیز عاریتاً مانگی، پڑوسیوں نے دے دی، مگر یہ اسے اپنی سمجھ کر بیٹھ گئے، اب وہ اپنی چیز مانگتے ہیں تو یہ ان پر خفا ہوتے ہیں‘‘۔
’’انہوں نے بڑا برا کیا، یہ تو انصاف کے صریح خلاف ہے‘‘۔ ابو طلحہؓ نے کہا۔
اس پر ام سلیمؓ بولیں: ’’آپ کا بیٹا بھی اللہ نے عاریتاً آپ کو دیا تھا، اور اب اس نے اسے واپس بلالیا ہے، وہی اس کا مالک تھا، ہمیں صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں‘‘۔
ابو طلحہؓ یہ سن کر حیران رہ گئے، اور جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ام سلیمؓ نے میرے ساتھ ایسا ایسا معاملہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ’’ابوطلحہ! اللہ نے تمہاری گزشتہ رات میں تم پر بڑی برکتیں نازل کی ہیں‘‘۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ ”تراشے“)