فیٹف اور بھارتی وزیر خارجہ کا دعویٰ’’وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا‘‘

پاکستان کے خلاف بھارت کی ایک اور سازش کا بھانڈا خود اُس کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بیچ چوراہے پھوڑا ہے، جنہوں نے نہایت فخر سے دعویٰ اور درحقیقت بڑی ڈھٹائی سے یہ اعتراف کیا ہے کہ ہماری ہی کوششوں سے پاکستان ایف اے ٹی ایف (فیٹف) کے ریڈار پر آیا، اور مودی حکومت کی کوششوں ہی کی وجہ سے پاکستان فیٹف کی نگرانی اور گرے لسٹ میں ہے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کے لیے خارجہ پالیسی کے حوالے سے ورچوئل تربیتی پروگرام سے خطاب کے دوران ایس جے شنکر نے اپنی حکومت کی اس سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ مودی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں موجود رہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے لیے کوششیں کی ہیں، جب کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ دہشت گردی کو عالمی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس سے نمٹا جائے۔ ہماری وجہ سے پاکستان فیٹف کی نگرانی میں ہے اور اسے گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ ہم پاکستان پر دبائو ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں اور مختلف اقدامات کے ذریعے بھارتی دبائو کے نتیجے میں پاکستان کا طرزعمل اور رویہ تبدیل ہوا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں لگوانے کا کریڈٹ بھی بھارتی حکومت کو جاتا ہے۔ جے شنکر نے کہا کہ جی سیون اور جی ٹوئنٹی جیسے عالمی فورمز پر وزیراعظم نریندر مودی کی ذاتی کوششوں نے دنیا کو باور کرایا کہ دہشت گردی ہم سب کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ڈوکلام کے معاملے پر بھارت نے چین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور چینی فوج کی طرف سے لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کا مناسب جواب دیا۔ اب دنیا جانتی ہے کہ بھارت چین کے دبائو کے سامنے نہیں جھکے گا۔
پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشیں نئی بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اوّل روز سے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اور اس کے حکمرانوں نے تقسیمِ برصغیر کے فوری بعد پاکستان کو دفاعی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، حتیٰ کہ اخلاقی لحاظ سے بھی نقصان پہنچانے اور غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشیں شروع کردی تھیں، اور جوناگڑھ، حیدر آباد اور کشمیر جیسی مسلم اکثریت کی ریاستوں پر طاقت کے بل بوتے پر قبضے اور پاکستان کے حصے کا فوجی سازو سامان اور مالی وسائل دینے سے انکار کرکے دونوں ملکوں کے مابین دشمنی کے بیج بو دیے تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت کی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔
بھارت کے وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا یہ اعتراف بھی پہلی بار نہیں کیا گیا، چند برس قبل بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے خود ڈھاکا میں کھڑے ہوکر یہ اعتراف کیا تھا کہ ہم نے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد سے آج تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں بھارت کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ بھارت کے ہرات، جلال آباد، مزار شریف اور دیگر شہروں میں قائم قونصلیٹ پاکستان دشمن سرگرمیوں میں دن رات مصروف ہیں، خاص طور پر بلوچستان اور صوبہ خیبر میں دہشت گردی کے جس واقعے کی تہہ میں جایا جائے بھارت کا ملوث ہونا پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا دفتر خارجہ اور دیگر متعلقہ ادارے بھارت کی پاکستان میں اس جارحانہ مداخلت کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے میں اب تک قطعی ناکام رہے ہیں۔ جب کہ چانکیہ کے پیروکار بھارتی حکمران اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ جھوٹ اس قدر تکرار سے بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے۔ وہ جھوٹ کا سہارا لے کر پروپیگنڈے کے زور پر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بھارت نے اس حربے کے ذریعے مقبوضہ اور آزاد جموں و کشمیر کے عوام کی اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں سو فیصد جائز جدوجہدِ آزادی کو دہشت گردی باور کرا دیا ہے، اور پروپیگنڈے ہی کے بل بوتے پر وہ کشمیری مجاہدین کی مختلف تنظیموں پر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ عالمی دبائو کے ذریعے خود پاکستان میں بھی پابندیاں لگوانے میں کامیاب رہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستانی حکومت اپنا درست اور مبنی برحقیقت مؤقف بھی دنیا سے منوانے میں ناکام رہی ہے۔ خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر نے کہا تھا ؎
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
یہ معاملہ پاکستان کے حکمرانوں اور حکمت کاروں کے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے کہ ان کی پالیسیوں اور حکمتِ عملی میں کیا خامی ہے کہ وہ سچ کو دنیا پر عیاں کرنے اور اپنے مبنی برحقیقت مؤقف کو منوانے میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ فیٹف کے حالیہ اجلاس جس میں اپنی کامیابی کا فخریہ اعلان بھارتی وزیر خارجہ نے کیا ہے، کے فوری بعد پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا تھا کہ یہ فیٹف کا پلیٹ فارم اور اس کے فیصلے سیاسی ہیں یا تکنیکی…؟ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا محض ایک بار سوال اٹھاکر خاموش ہوجانا کافی ہے؟ یا اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس معاملے کو تسلسل سے دنیا کے سامنے دلائل و براہین کے ساتھ بار بار اجاگر کیا جانا ضروری ہے؟