کتاب
:
سلطان الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدیؒ
شخصیت، احوال و آثار اور فکر و فن
مصنف
:
ڈاکٹر انجم رحمانی
صفحات
:
432 قیمت: 1200 روپے
ناشر
:
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ۔ منصورہ، ملتان روڈ۔ لاہور
فون نمبر
:
042-35252501-2
موبائل
:
0322-4673731
ای میل
:
Islamicpak@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.Islamicpak.com.pk
حافظ محمد یوسف سدیدیؒ بے نظیر انسان، مومن اور بہترین خطاط تھے۔ ڈاکٹر انجم رحمانی اور ہمارے دوست تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی دوستی کا حق یہ کتاب لکھ کر ادا کیا ہے۔ جناب طارق محمود منیجنگ ڈائریکٹر اسلامک پبلی کیشنز نے سدیدی صاحب اور ڈاکٹر انجم رحمانی کا تعارف کرایا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’پاکستانی نژاد حافظ محمد یوسف سدیدیؒ بیسویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام کے ایک منفرد خطاط تھے۔ وہ اپنے معاصر عرب، ترک، افغان اور برصغیر پاکستان و ہند کے خطاط حضرات سے اس لیے ممتاز تھے کہ وہ ان کے مقابلے میں بیک وقت عربی و فارسی کی جملہ شاخوں میں اعلیٰ مہارت کے ساتھ لکھ سکتے تھے۔ جلی و خفی نویسی، زودوکثرت نویسی میں بھی وہ اسلامی خط کی تاریخ کے ایک نمایاں استاد تھے۔ مخطوطہ شناسی میں بھی یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ خط کے معاملے میں عمر بھر ان کا رویہ طالب علمانہ رہا۔ جہاں کہیں بھی گئے وہاں پر موجود اساتذہ کے قطعات، عمارتی کتبات، مخطوطات اور وصلیات ان کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔ انہیں بیسویں صدی کا منفرد کتبہ نویس کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ان کے کتبات نہ صرف پاکستان کی بیشتر قومی عمارات: مقبرہ علامہ محمد اقبالؒ، مینارِ پاکستان، منصورہ مسجد، مسجدِ شہداء، مقبرہ قطب الدین ایبک، اسلامک سمٹ مینار، مقبرۂ وارث شاہ کی زینت ہیں، بلکہ بیرونِ ملک ہندوستان، افغانستان، سعودی عرب، عمان، اسپین، افریقہ اور امریکہ وغیرہ میں کئی عمارات پر بھی ان کے کتبات موجود ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران شاہ فہد کی خواہش پر ان کی کتابت سے آراستہ غلافِ کعبہ کا ملتزم کا حصہ آج بھی اقوام متحدہ کے دفتر میں بطور فن پارہ آویزاں ہے۔ نیز انہیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے برصغیر سے معدوم ہونے والے عربی خطوط کو نہ صرف زندہ کیا بلکہ ان کو آئندہ نسلوں میں بھی منتقل کیا ہے۔ ’’سلطان الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدی‘‘ ان کے احوال و آثار کے بارے میں منظر عام پر آنے والی سب سے پہلی کتاب ہے، جس میں ان کے فن پاروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مولف ڈاکٹر انجم رحمانی کی متعدد کتب بین الاقوامی شہرت کے حامل اداروں یونیسکو، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، مارگ (ممبئی، بھارت) اور نامور مقامی اداروں کی طرف سے انگریزی، اردو اور فارسی زبانوں میں فنِ تعمیر، خطاطی، تعلیم و ادب، تاریخ و ثقافت، آثارِ قدیمہ جیسے موضوعات پر شائع ہوکر عوامی پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ وہ 33 سال لاہور عجائب گھر میں ڈائریکٹر سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہے، اور اس عرصے میں اسلامی نوادرات کے شعبے کی ترقی پر خصوصی توجہ دی۔ پنجاب یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پڑھانے کے علاوہ وہ 13 سال تک جی سی یونیورسٹی، لاہور میں تاریخ اور فنِ تعمیر کا کورس پڑھاتے رہے۔ موجودہ کتاب اُن کے حافظ صاحب سے براہِ راست بارہ سالہ روابط کے دوران اُن سے ہونے والی گفتگو اور اُن کے روزمرہ معمولات کے بارے میں مشاہدات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب ایک طرح کی آپ بیتی بھی ہے اور تاریخ و ثقافت کا گلدستہ بھی۔ نیز بیسویں صدی عیسوی میں دنیائے اسلام میں خطاطی کی صورتِ حال کا جائزہ بھی پیش کرتی ہے۔ مولف نے کتاب کو نہایت آسان، رواں زبان اور شگفتہ پیرائے میں لکھ کر اسے ہر عمر کے قاری کے لیے دلچسپ بنادیا ہے۔ امید ہے یہ کتاب عوامی پذیرائی حاصل کرے گی‘‘۔
حافظ صاحب وسیع القلب اور وسیع النظر اور معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر کے محبوب تھے۔ اُن میں سے چند اہلِ علم و فضل کی آرا درج ذیل ہیں:
حافظ محمد یوسف سدیدیؒ کا فنِ خطاطی مشاہیر کی نظر میں
حضرت ابو اُنیس صوفی محمد برکت علیؒ:’’رئیس القلم‘‘
پیر غلام فخر الدین سیالویؒ: ’’خوش سیرت اور بلند اخلاق انسان تھے اور فنِ خطاطی میں نازشِ دوراں تھے۔‘‘
حضرت خواجہ حمید الدین معظیمیؒ:’’ سلطان الخطاطین‘‘
سید شرافت نوشاہیؒ:’’سدیدی صاحب اس وقت (1976ء) سرزمینِ پاکستان کے مایہ ناز خطاط اور نامور خوش نویس ہیں۔ خطِ نسخ، نستعلیق، کوفی وغیرہ میں استادِ کامل ہیں۔‘‘
سید انور حسین نفیس رقم:’’ہفت قلم خطاط‘‘۔
جالی مصور:’’وہ خطاطی کا ایک ایسا سمندر تھے جس کی اتھاہ گہرائیوں کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزادؒ: ’’جس طرزِ خط میں تم نے کتابت کی ہے میں اس سے بہت خوش ہوں۔تم نے بالکل عربوں کے انداز میں لکھا ہے۔‘‘
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:’’حافظ محمد یوسف سدیدی عصرِ حاضر کے بہت بڑے خطاط ہیں۔ حسن اور دلکشی صرف حافظ صاحب کی خطاطی ہی میں ممکن ہے۔‘‘
میاں طفیل محمدؒ: ’’ایک بلند پایہ خطاط اور خدا پرست انسان تھے۔‘‘
مولانا کوکب نورانی: ’’جلی نویسی میں لاثانی اور بلاشبہ امام الخطاطین تھے۔‘‘
استاد احسان دانش: ’’ایک عظیم فن کار اور موجودہ دور میں خطاطی کی آبرو ہیں۔‘‘
احمد ندیم قاسمی: ’’امام الخطاطین، عالمی کمالِ فن کا خطاط۔‘‘
منوّ بھائی: ’’وہ عالمی شہرت کے ایک عظیم خطاط تھے۔‘‘
ظہیر بابر: ’’وہ عالمِ اسلام کے صفِ اوّل کے خطاط تھے۔ ہر خط ان کے قلم کا غلام تھا، جو لفظ (باقی صفحہ 41پر)
بھی ان کے قلم سے رقم ہوتا وہ موتی بن جاتا۔ وہ کوئی بھی عبارت کسی بھی خط میں یکساں مہارت اور روانی سے لکھتے تھے۔
غلام حیدر وائیں:’’بیسویں صدی کے صفِ اوّل کے مایہ ناز خطاط اور ایک نیک سیرت اور باکردار مسلمان تھے۔‘‘
مختار مسعود:’’حافظ صاحب ایک عظیم فنکار تھے۔‘‘
بشیر موجد:’’صف ِاوّل کے خطاطوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔‘‘
کتاب میں احوال حافظ محمد یوسف سدیدیؒ، شخصیت اور فکر و فن کا تجزیہ، حافظ صاحب کے فنِ خطاطی کے بارے میں نظریات، فنِ خطاطی کے فروغ کے لیے حافظ صاحب کی کاوشیں اور اعزازات، حافظ صاحب کے قلمی آثار، علمی و خطی آثار حافظ محمد یوسف سدیدیؒ کے عنوانات کے تحت بیش قیمت معلومات بڑی محنت سے جمع کردی گئی ہیں۔