مستشرقین(Orientalists) سے مراد وہ مغربی اہلِ قلم ہیں جو اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب پر تحقیق و تالیف سے وابستہ ہوتے ہیں۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان میں سے کچھ لوگ اسلامی تہذیب کے مثبت پہلو اجاگر کرتے ہیں، اسے سراہتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ محض نکتہ چینی اور اعتراضات کے لیے دلائل اکٹھے کرتے ہیں۔
مستشرقین کا جو ٹھوس اور وقت طلب علمی کام ہے اس کے اثرات مغربی دنیا کی فکر کو کتنا متاثر کرتے ہیں، جبکہ ہم مسلمانوں پر ان کے اس دقیق کام کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
جو اسلام کا گہرا تاریخی مطالعہ کرے گا اور پھر اس پر تنقید کرے گا ظاہر ہے اُس کے لیے مسلمان کوئی نرم گوشہ اپنے اندر نہیں رکھ سکتے۔ ایک عام مسلمان قرآن و حدیث پر کوئی اعتراض دیکھے گا تو لاحول پڑھ کر لعنت ملامت ہی کرے گا۔ جو اونچی ذہنی سطح کا فرد ہوگا وہ قرآن و حدیث سے ہی دلیل لاکر ان اعتراضات کو مسترد کرے گا۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کی قصیدہ خوانی کرنے والے مستشرقین کیا واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے ہیں؟ کوئی غیر مسلم دانشور مسلمانوں کی تہذیب اور تاریخ پر توصیفی مقالہ لکھے تو یہ مسلمانوں کے لیے باعثِ تقویت ہوتا ہے، اور اس میں بھی شک نہیں کہ ان کا علمی و تحقیقی جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔
کچھ مسلمان دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے عظیم الشان ماضی کا ذکر کرکے وہ گویا افیون دے کر ان کے قویٰ کو مضمحل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ہمارا شاندار ماضی ہمارے ’’حال‘‘ کو بدل سکا کہ مستقبل پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو؟
آپ نے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنے آبا کا ذکر فخر سے کرتے ہیں۔ ساری زندگی ان کے کارناموں کو دہرا کر ماضی کے سنہرے خوابوں میں ہی ایک ناکارہ زندگی گزار دیتے ہیں۔ وہ ماضی کے نشے میں دھت رہنا چاہتے ہیں۔ اگر کبھی کروٹ لے کر اپنے احوال کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا بدخواہ (استعمار) پھر انہیں وہی عظمتِ رفتہ کی شراب پلاکر گہری نیند سلا دیتا ہے۔ ایک سمجھ دار فرد کی طرح ایک قوم کو بھی اس کی فکر کرنی چاہیے کہ ہمارا سنہرا ماضی ہماری رفتار اور طرزِعمل پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے؟
اب تک کی تحریر کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اپنے عظیم الشان ماضی سے بے خبر رکھیں، مگر اس کے نشے میں دھت ہوکر مستقبل کی صورت گری سے غافل نہ ہوں۔
اس وقت کا سب سے بڑا اور ہمہ گیر مسئلہ ایک فکری کش مکش ہے، یہ ایک ہمہ جہتی جنگ ہے۔
ایک طرف مستشرقین اور مغرب سے مرعوب ذہن حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکوک ٹھیرانے پر اپنی پوری زندگیاں کھپا رہے ہیں، تو دوسری طرف سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت و حدیث کی خدمت اور تحفظ کے لیے مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں امتِ مسلمہ کے بلند دماغ اور صاحبِ عزیمت لوگوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں وقف کردی ہیں۔
خیبرپختون خوا کے فرزند، ترکی میں مقیم ڈاکٹر عالم خان کو اللہ رب کریم نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ انہوں نے پوری عرق ریزی اور دلائل کی قوت کے ساتھ لیڈن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے والے ہالینڈ کے مستشرق G.H.A Juynboll کے انکارِ حدیث سے متعلق نظریات کا احاطہ کیا ہے اور ان کا ٹھوس تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔
قرآن مجید پر عمل ہم سیرت و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جانے بغیر کر ہی نہیں سکتے۔ اللہ رب کریم نے اسی لیے کتاب کے ساتھ رسول بھی بھیجے، اور ان کے بھیجنے کی غرض و غایت بھی قرآن مجید میں کھول کھول کر بیان کردی:
’’اے نبیؐ! ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سیے اس کی طرف دعوت دینے والا بناکر، اور روشن چراغ بناکر۔‘‘ (الاحزاب 45۔46)
اب اگر سنت، سیرت اور حدیث محفوظ نہ ہوں تو قرآن کی من مانی تاویلوں کا راستہ کھل جائے گا۔ اس لیے مستشرقین سنت و حدیث کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے علمِ حدیث کے ذخیروں کو مائیکرو اسکوپ لے کر کھنگالتے ہیں۔ یونیورسٹی کی لائبریریوں میں اپنے بال سفید کردیتے ہیں تاکہ مسلمان کے عقیدے اور ایمان کو ڈگمگا سکیں۔ گوموش خانہ یونیورسٹی ترکی کے استاد ڈاکٹر عالم خان قابلِ مبارک باد ہیں کہ انہوں نے پوری عرق ریزی سے جونبول کے نظریات کا علمی تعاقب کرکے فرضِ کفایہ ادا کردیا۔
اسلامی تاریخ میں سنت کی صحت پر سب سے پہلی ضرب خوارج اور معتزلہ نے لگائی۔ معتزلہ نے سنت کے بجائے عقل اور قرآن پر اعتماد کیا، اور ہر اُس حکم کا انکار کیا جو عقل اور قرآن کے خلاف ہو، چاہے سنت سے ثابت ہورہا ہو۔ محدثین نے خوارج اور معتزلہ کے شبہات و اعتراضات کے تحقیقی اور مدلل جوابات دیئے، اور انکارِ سنت کا یہ فتنہ تقریباً بارہ صدیوں تک دبا رہا۔
جب مستشرقین نے اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ سنت کے حوالے سے مطالعہ شروع کیا تو ان کے تحقیقی مقالات منظرعام پر آنے سے اس فتنے کو دوبارہ ہوا ملی، اور فتنۂ انکارِ سنت کا آغاز یورپ کی سرزمین سے انیسویں صدی میں ہوا۔ انہی دنوں برصغیر پاک و ہند میں بھی ’’اہلِ قرآن‘‘ نے حدیث کی حجیت پر سوال اٹھانے شروع کردیئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس فتنے کا تاریخی پس منظر اپنی مشہور کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں بہت واضح طور پر بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فتنہ انکارِ سنت کا ظہور تیرہویں صدی عیسوی میں نئے سرے سے عراق سے ہوا تھا لیکن اس کو جِلا برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر ملی۔
مسلمانانِ برصغیر میں اس فتنے کا آغاز سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی نے کیا۔ بعدازاں مولوی عبداللہ چکڑالوی نے جماعت ’’اہلِ قرآن‘‘ کی بنیاد رکھ کر قرآن کے سوا کسی اور چیز کے وحی ہونے کا انکار کردیا۔ ایک کے بعد ایک لوگ اس عَلَم کو تھامتے رہے۔ فتنہ انکارِ سنت غلام احمد پرویز (1985ء) نے اُس وقت کمال کو پہنچادیا جب انہوں نے ساٹھ سے زائد کتابیں لکھ کر دین کے اصولوں سے متصادم اپنے نظریات کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر عالم خان استشراق کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ’’وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ مستشرقین نے اسلام کا تنقیدی جائزہ کب شروع کیا، کیوں کہ استشراق اور مستشرق جیسے الفاظ کا وجود اٹھارہویں صدی کے اختتام تک یورپین لغت میں نہیں تھا۔ لفظ استشراق 1799ء میں فرانسیسی زبان کی لغت میں پہلی بار منظرعام پر آیا، اور پورے 40 سال بعد انگریزی لغت میں ظہور پذیر ہوا‘‘۔
مستشرقین نے اسلام میں دلچسپی لینا کب شروع کی، اس کا تاریخی تعین تو ناممکن ہے، لیکن قرآن کے مغربی زبانوں میں ترجمے ہوتے تھے۔ قرآن کا پہلا لاطینی ترجمہ 1143ء میں کیا گیا۔ اس سے ثبوت ملتا ہے کہ مغرب میں اسلام کے باقاعدہ مطالعے کا آغاز بارہویں صدی عیسوی میں ہوا تھا۔
ڈاکٹر عالم کہتے ہیں کہ مستشرقین کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کرنا تنگ نظری ہوگی۔ ان کی بدولت ہمیں ہمارے علمی ورثے کا نایاب سرمایہ حاصل ہوا۔ انہوں نے عربی زبان، سیرت، تاریخ اور علم الانساب کے ایسے مخطوطوں کی تحقیق اور طباعت کا اہتمام بھی کیا ہے جن سے عالمِ اسلام لاعلم تھا۔ کتب خانوں میں ان کا وجود نہیں تھا۔ ان کتابوں کے منظرعام پر آنے میں ہم مستشرقین کے مقروض ہیں۔ اس کی زندہ مثال امام السمعانی(وفات: 562ھ) کی کتاب ’’کتاب الانساب‘‘ اور ’’المعجم المفھرس‘‘ ہیں۔
مدارس اور جامعات میں ان ہزاروں مخطوطات، فہارس کو بحیثیت مصادر لیا جاتا ہے۔ ان میں سیرت ابن ہشام، البلاذریؒ کی فتوح البلدان، الواقدی کی الطبقات الکبری، الیاقوت کی معجم الانبا، المبرد کی الکامل، اور طبری کے علاوہ بھی کئی نادر کتابیں شامل ہیں۔
انیسویں صدی کے بعد استشراق اور مستشرق کا مفہوم بدل چکا ہے۔ عالمِ اسلام اور یورپ میں ہر اُس عالم کو مستشرق کہا گیا ہے جس نے عربی اور اسلامی علوم پر کام کیا ہے۔ اس کا آغاز گولڈ زیہر سے بتایا جاتا ہے، جس نے 1890ء میں ’’مسلم اسٹڈیز‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر نہ صرف سنت کی صحت پر انگلی اٹھائی اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پہلی صدی ہجری کے مسلمان ’’حکمران‘‘ بن کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے، یا ’’علما‘‘ بن کر حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے احادیث گھڑتے تھے (معاذ اللہ)۔
گولڈ زیہر کے بعد برطانوی مستشرق جوزف شاخت (وفات:1969ء) نے بھی احادیث کا تنقیدی مطالعہ ایک الگ منہج پر کیا۔ احادیث کے متعلق بنیادی نظریات اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اصول الفقہ المحمدیہ‘‘ میں قلم بند کیے جو مستشرقین کے ہاں ’’انجیل ثانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اور تقریر نہیں ہیں بلکہ یہ مسلمانوں نے اپنے فقہی اختلافات میں گھڑی ہیں۔
اوّل الذکر نے ’’متون‘‘ پر کام کیا، جب کہ مؤخر الذکر نے ’’اسانید‘‘ پر تحقیق کی۔
مذکورہ دونوں مستشرقین کو بنیاد بناتے ہوئے البرٹ جونبول (وفات: 2010ء) نے ایک نیا منہج پیش کیا۔ انہوں نے متون اور اسانید کا جائزہ لیتے ہوئے حجیتِ حدیث ہی سے انکار کردیا۔ انہوں نے ہالینڈ کے مشہور یہودی مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ یہ گھرانہ علم استشراق کے حوالے سے بہت معروف تھا۔
جونبول کے دادا تھیوڈرس ویلم جوہانس جونبول لیڈن یونیورسٹی میں عربی و عبرانی زبان کے پروفیسر تھے ۔ ان کے بچے ایک دوسرے کو یہ علمی میراث منتقل کرتے رہے۔ ان کے بیٹے اور پوتے بھی یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ علمی اور تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھے رہے۔ ان کا بیٹا ہنڈریک ہرمان (1867ء۔1947ء ) لیڈن یونیورسٹی میں انڈونیشن ثقافت کے ماہرین میں شمار ہوتا تھا۔
اس کی بیٹی ماریا نے بھی ہالینڈ میں عربی زبان کی تاریخ پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ جونبول نے بھی عربی زبان میں خوب مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ 1960ء کی دہائی میں عربی کے استاد بن گئے۔ وہ چاہتے تو اپنے خاندان کے نقشِ قدم پر چل کر مشرقی زبان یا انڈونیشین ثقافت میں سے کسی میں تخصص کرسکتے تھے، مگر انہوں نے خلافِ توقع اسلامی شریعت کے دوسرے ماخذ ’’سنت‘‘ کو تحقیق کے لیے منتخب کیا۔ اس کے لیے انہوں نے قاہرہ اور مصر کا سفر کیا۔
جونبول نے 1969ء میں اپنی تحقیق مکمل کی، اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حق دار قرار پائے۔ ان کی وسعتِ علمی کی جھلک 22 سال میں مرتب ان کی انسائیکلوپیڈیا میں نظر آتی ہے جس میں انہوں نے صحاح ستہ کی اسانید اور اُن راویوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے جن کے ذریعے مسلمانوں کو احادیث کا علمی ورثہ ملا۔
یہ تھا جونبول کا استشراقی سفر، جو 1985ء سے شروع ہوکر 2007ء میں ختم ہوا۔ وہ 9 دسمبر 2010ء کو وفات پاگئے۔ ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں لیڈن یونیورسٹی نے ’’جونبول فائونڈیشن‘‘ کے تعاون سے فیلوشپ کا پروگرام شروع کیا ہے جس سے ہر سال سینکڑوں طالب علم مستفید ہوتے ہیں۔
جونبول بڑا علمی ذخیرہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف سنتِ رسولؐ پر بہت کام کیا بلکہ اپنے اسلاف کے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے حدیث اور تاریخ کی کتابوں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ روز لیڈن یونیورسٹی کی لائبریری جاتے اور استشراقی کتب اور مقالات کے لیے مختص ہال میں بیٹھتے۔ صحت ٹھیک نہ ہونے کے باعث وزنی کتابیں اٹھانا ان کے لیے ممکن نہ رہا، لہٰذا لائبریری کی طرف سے ان کو خصوصی ٹرالی مہیا کی گئی جو لائبریری میں ان کی موجودگی کی علامت بن گئی۔ انہوں نے اپنی تمام رسمی اور غیر رسمی مصروفیات کو ترک کرکے صرف استشراق اور سنت کے حوالے سے کانفرنسوں اور طلبہ کے سیمینارز تک خود کو محدود کردیا۔ انہوں نے اپنی ہر کتاب اور مقالے میں نہ صرف سنت سے متعلق اپنے نظریات کا مدلل دفاع کیا ہے، بلکہ اپنے اسلاف کے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے حدیث اور تاریخ کی کتابوں کا انتہائی گہرا مطالعہ کیا ہے۔
ڈاکٹر جونبول نے جتنی گہری نظر سے اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ لگا کر حدیث پر اعتراضات پیش کیے، ڈاکٹر عالم خان نے بھی اسی گہرائی سے جونبول کی تحقیق کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، اور حدیث کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عالم، جونبول کے نظریات کا احاطہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر جونبول نے پہلی صدی ہجری میں اسناد کے وجود کے بارے میں تمام روایات کا احاطہ نہیں کیا، اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے نصف اوّل میں اسناد کا وجود نہیں تھا اور محدثین سند کے بغیر احادیث روایت کرتے تھے، حالانکہ مستند روایات سے ثابت ہوا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی اسناد کا آغاز ہوگیا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؒ جیسے صحابہ کرام نے کئی احادیث میں اپنی اسانید اور مصادر کی تصریح کی، جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تھیں۔
اسانید میں السلسلۃ الذہبیۃ (مالک عن نافع عن ابن عمر) کو سب سے موثق سند قرار دیا گیا ہے۔ اس پر مفصل تحقیق کی ہے کہ نافع ایک خیالی شخصیت ہے، اس کا کوئی تاریخی وجود نہیں ہے۔ اس لیے طبقات اور جرح و تعدیل کی کتابوں میں دوسری صدی ہجری کے بعد نافع نام کے کسی راوی کا تذکرہ نہیں ملتا۔
تحقیق سے ثابت ہوا کہ نافع کی مفصل سوانح عمری ابن سعدؒ نے ذکر کی ہے، لیکن جونبول کے پاس الطبقات الکبریٰ کا ناقص نسخہ موجود تھا جس کی وجہ سے ان کو نافعؒ کا تذکرہ الطبقات میں نہیں ملا۔
امام زہریؒ کے بارے میں گولڈ زیہر کے نظریے کو ایک نئے منہج سے پیش کرتے ہوئے ’’امام زہریؒ‘‘ کو مشکوک قرار دیا ہے کہ طبقات اور جرح و تعدیل کی کتب میں ’’الزہری‘‘ نام سے موسوم ایک سو بیس راوی موجود ہیں جو اس کے موضوع ہونے کی واضح نشانی ہے۔
جب امام زہریؒ سے متعلق جونبول کے شبہات کا تحقیقی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے نتائج حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ کیوں کہ زہری نام نہیں بلکہ بنو زہرہ قبیلے کی طرف نسبت ہے۔ اس قبیلے کے علما اور محدثین کئی ادوار میں گزرے ہیں، لیکن جس محدث کے لیے یہ نام کی حیثیت اختیار کرگیا وہ صرف ابن شہاب زہری ہیں۔ ڈاکٹر جونبول نے امام زہریؒ کے حوالے سے یہ قوی دلیل پیش کی کہ امام مالک نے موطا میں کہیں بھی زہری کا حوالہ نہیں دیا۔ جب اس کی تحقیق کی گئی تو واضح ہوا کہ امام مالک زہری کے بجائے ابن شہاب کا ذکر کرتے تھے۔ موطا میں 52 احادیث میں ابن شہاب درج ہے۔
اصولِ حدیث میں المتفق والمفترق ایک اہم موضوع ہے۔ محدثین نے اس حوالے سے بہت عرق ریزی سے تحقیق کی ہے۔ اُن تمام راویوں کے بارے میں کتابیں تحریر کی ہیں جن کے والد اور دادا کے ناموں میں مماثلت تھی۔ ڈاکٹر جونبول کا خیال ہے کہ اس قسم کے راویوں سے وضاعون الحدیث نے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کو اپنی موضوع اسانید میں استعمال کیا ہے۔ اس کی دلیل یہ پیش کی کہ طبقات اور جرح و تعدیل میں حفص بن عمر کے نام سے پندرہ راوی مذکور ہیں، جب کہ پانچ راوی استاد شعبہ بن حجاج کے شاگرد گزرے ہیں، جبکہ الطبقات الکبریٰ میں ابن سعدؒ نے صرف ایک راوی حفص بن عمر حوفیؒ کے حالات بیان کیے ہیں۔ شعبہؒ کے اگر پانچ شاگرد تھے تو ابن سعدؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا؟
جب ڈاکٹر جونبول کے نظریات کی تحقیق کی گئی تو ثابت ہوا کہ شعبہ بن حجاج کے شاگرد حفص بن عمرؒ کے بجائے القاب، کنیتوں اور نسبت سے مشہور تھے۔
اب یہ اعتراض کہ ابن سعدؒ نے الطبقات الکبریٰ میں شعبہؒ کے تمام شاگردوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ غیر معروف راویوں کے حالاتِ زندگی بیان نہیں کرتے۔
اسی طرح حدیث متواتر کے حوالے سے جب جونبول کے جملہ شبہات اور دلائل کی تحقیق کی گئی تو واضح ہوا کہ انہوں نے فقہا اور محدثین کے منہج کے درمیان فرق نہیں کیا۔ انہوں نے احادیث کی تحقیق میں تساہل سے کام لیا ہے۔ کچھ احادیث کو سعید بن مسیبؒ کے فتاویٰ میں شمار کرکے ان روایات پر تنقید کی ہے جن میں ان کو احادیث کی صورت میں نقل کیا گیا ہے۔ جونبول نے اصول الحدیث کی ابتدائی کتب میں متواتر کی اصطلاح کے عدم وجود پر انگلی اٹھائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطیب بغدادی سے پہلے محدثین متواتر کو علم اصولِ فقہ کی اصطلاح میں شمار کرتے تھے، اس لیے انہوں نے اس کا ذکر اپنی کتابوں میں نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیںکہ وہ متواتر سے لاعلم تھے، کیوں کہ امام شافعیؒ، امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام طحاویؒ نے خطیب بغدادی سے پہلے متواتر کا تذکرہ کیا ہے۔
جونبول نے احادیث کی کتب میں اسانید کو غور سے نہیں پڑھا، اور بعض اسانید پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے، جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ کی اسانید میں ظاہر کیا کہ قاسم بن عبدالرحمٰن، امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہی نہیں۔ جبکہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہ ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں۔
ان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ روایات کے الفاظ کا ’’ارتقائی سفر‘‘ ہوا ہے۔ جونبول کا خیال ہے کہ ابتدا میں محدثین حدیث کو من قال کے الفاظ سے روایت کرتے تھے، اور متاخر محدثین نے اس کو من کذب سے روایت کیا ہے، حالانکہ جونبول بھی یہ مانتے ہیں کہ معمر بن راشد اور ربیع بن حبیب جیسے متقدمین محدثین میں سے ہیں اور دونوں محدثین نے روایت کا آغاز من کذب سے کیا ہے۔
اسانید کی تحقیق سے جونبول کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا کہ ہر وہ حدیث جس میں ’’الفیاحۃ‘‘ یا اس کے مشابہ الفاظ موجود ہیں وہ عراقیوں نے روایت کی ہے۔ کئی ایسی روایات احادیث کی کتب میں موجود ہیں جن میں ’’الفیاحۃ‘‘ یا اس سے مشابہ الفاظ موجود ہیں اور حجازی اسانید سے روایت کی گئی ہیں۔
جونبول نے اپنے استدلال میں سیاق و سباق اور مستند تاریخ کو نظرانداز کیا ہے، جس کی وجہ سے اپنی تحقیق میں تاریخ سے متصادم نتائج اخذ کیے ہیں۔
مصر اور اندلس میں بھی روایتِ حدیث اور علم فقہ کے آغاز کا استدلال الآوائل سے کیا ہے، اور اس میں بھی مستند تاریخ کو نظرانداز کیا ہے، کیونکہ مصر کی سرزمین پر یزید بن حبیبؒ سے پہلے بھی عبداللہ بن عمر بن العاصؓ، عبداللہ بن حارثؓ، عبداللہ بن سعدؓ اور مسلمہ بن مخلدؓ جیسے صحابہ کرام اور کبار تابعین موجود تھے جن سے اہلِ مصر نے احادیث روایت کی ہیں، اندلس کا بھی یہی معاملہ ہے۔
ابن سیرین کی روایت اور فتنے کی تاریخ کے حوالے سے جب جونبول کے مقالے کی تحقیق کی گئی تو ثابت ہوا کہ جونبول نے صرف فتنے کی تحقیق کی ہے، حالانکہ اسلام میں فتنہ ایک بار نہیں کئی بار ظہور پذیر ہوا ہے، اس لیے الفتنہ الاولیف کی تحقیق کرنی چاہیے اور مستند تاریخ اور روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخِ اسلام میں جس کو الفتنہ الاولیٰ قرار دیا گیا ہے وہ قتلِ عثمانؓ ہے، نہ کہ خروج ابن زبیر‘‘۔
ڈاکٹر عالم خان کی 360 صفحات کی کتاب میں 30 صفحات کتابیات کے لیے مختص ہیں۔
فتنوں کے اس دور میں فتنہ انکارِ حدیث ہو، یا فتنہ قادیانیت، یا قرآن مجید کی آیات کو اپنی مرضی کے مفہوم پہنانے کی کوشش… اسلام کا نیا ایڈیشن پیش کرنے کے لیے مسلم دنیا میں نقب لگائی جارہی ہے۔
مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنا ایک بات ہے، اور اس کے لیے بنیادیں تعمیر کرنا، تشکیک کا گرد و غبار اور راہ کے کانٹے صاف کرنا دوسری بات۔ مسلمانوں میں ڈاکٹر عالم خان جیسے نفوس کی ضرورت ہے، جو اپنی فکری کاوشوں سے سرمایہ دارانہ تہذیب کی گود میں پلے حواریوں کی سازشوں کے آئینے میں انہیں ان کا چہرہ دکھائیں۔
علوم قرآنی، احادیث، فقہ، تاریخ، علم العقائد، علم الکلام، دنیا کے بڑے مذاہب اور ان کی تاریخ سے آشنا ہوئے بغیر ہم کیسے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھ سکتے ہیں!