آزادکشمیر اِن دنوں تحریکِ آزادی کے بیس کیمپ سے زیادہ قومی سیاست اور سیاست دانوں کا ’’ہائیڈ پارک‘‘ بنا ہوا ہے۔ وسطی لندن کے تاریخی ہائیڈ پارک کا ایک گوشۂ خاص ’’اسپیکرز کارنر‘‘ کہلاتا ہے۔ یہاں انقلابی مزاج، حالات ِزمانہ سے تنگ اور ستائے ہوئے لوگ ہمہ وقت تقریریں کرکے اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ یہ وہ گوشہ ہے جہاں آزادیِ اظہار کا قانون پوری طرح لاگو ہوتا ہے، اور کوئی شخص ملکہ برطانیہ کی شان میں گستاخی کرے یا برطانوی وزیراعظم کی معزولی اور اپنی وزارتِ عظمیٰ کا اعلان کرے، سب چلتا ہے۔ یہاں کوئی کسی کی تقریر میں رکاوٹ ڈالتا ہے نہ کوئی کسی کو تقریر مختصر کرنے کی پرچی تھماتا ہے۔ اس گوشے میں لوگوں کا کتھارسس ہوتا ہے۔ اپنی اس پہچان کی وجہ سے اب ہائیڈ پارک فری اسٹائل گفتگو کے حوالے سے ایک محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
آزادکشمیر میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے، اور تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادتیں انتخابی مہم کو بڑھانے اور جوش پیدا کرنے کے لیے آزادکشمیر کے دورے کررہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اب تک کئی انتخابی جلسوں سے خطا ب کرچکے ہیں۔ ان انتخابی جلسوں میں سوائے ڈی چوک کی سیاست کے، کوئی مثبت طرزِ فکر وعمل غالب دکھائی نہیں دے رہا۔ بلاول اور مریم کے تیروں کا ہدف عمران خان کی ذات ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ محض ٹی وی کوریج اور ایک خبر بنانے کی خاطر یہ طرزِ گفتگو اپنایا جارہا ہے۔ ان تقریروں سے کنٹرول لائن کے پار مثبت پیغام کے بجائے لاتعلقی کا پیغام جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور وہاں بھارتی محاصرے اور طویل لاک ڈائون سمیت دیگر معاملات پر لب کشائی کرنے کے بجائے عمران خان کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔ قومی سیاست دان جوشِ جذبات میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ آزاد کشمیر تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ ہے، اور یہاں ہونے والے خطابات مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور کسی امید افزا پیغام کے لیے استعمال ہونے چاہئیں۔ لیکن یہاں مودی کے بجائے عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے، جس سے سیدھے سبھائو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں حاصل ہونے والے مواقع کو اپنے سیاسی حساب چکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب آزادکشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہو کر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کشمیر مودی کو فروخت کردیا گیا اور سودے بازی ہوگئی، تو یہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے پیغام ہوتا ہے کہ اب وہ بھارت کے سامنے خود سپردگی اختیار کرلیں کیونکہ پاکستان اُن کی پشت سے ہٹ گیا ہے۔ایسے ہی مایوس کن پیغامات نے شیخ عبداللہ کو اپنی بائیس سالہ جدوجہد ترک کرکے اندراگاندھی کے آگے جھکنے پر مجبور کیا تھا۔اب پاکستان کے سیاست دان جو پیغامات دے رہے ہیں وہ کشمیریوں کو اسی انداز سے مایوس کر نے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ کسی سوچی سمجھی اسکیم کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کی تحریک میں پاکستان کی حمایت ایک بڑا عنصر ہے، اور اس عنصر کو منہا کرنے کا مقصد کشمیر کی تحریک کو بے یارومددگار کرنا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے اپنی سخت گیر پالیسی سے قومی سیاست میں کشیدگی بھرنے میں اہم کردار ادا کیا، مگر یہ حساب چکانے کے لیے موچی دروازے سے ڈی چوک تک بہت سے مقامات موجود ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کو اسلام آباد میں ہونے والی محلاتی سیاست اور سازشوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ ان کا مسئلہ یا تو کشمیر ہے یا پھر مقامی مسائل۔ ان دونوں مسائل پر قومی سیاست دان لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے گلگت بلتستان کی طرح انتخابی مہم کو ’’عمران سینٹرک‘‘ رکھا ہے۔ اس سے دلوں کا غبار تو نکل جاتا ہے مگر زمینی حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ یوں لگتا ہے کہ حزبِ اختلاف کے راہنما حالات کا رخ بھانپ چکے ہیں اور محض ہائیڈ پارک کے اسپیکرز کارنر کی طرح بھڑاس نکالی جارہی ہے۔ عمران خان بھی تلخیِ گفتار میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ جب وہ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے آئیں گے تو لامحالہ وہ بھی اس اسپیس اور سرزمین کو ڈی چوک کی طرح استعمال کریں گے، اور یوں رہی سہی کسر پوری ہوجائے گی۔ ان کے پاس جواب میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ وہ کشمیر پالیسی کے حوالے سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کی انکشاف انگیز کتاب کے چند پیراگراف ہی سنادیں تو مریم اور بلاول کے ’’کشمیر بیچ دیا… مودی کو دے دیا‘‘ اور ’’بزدل‘‘ جیسے تمام طعنوں کے زیادہ تیر واپس مڑ سکتے ہیں۔
نریندر مودی نے کشمیر کی شناخت چھیننے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا تھا۔ 2016ء سے مودی جو پاکستانی حکمرانوں پر ریشۂ خطمی ہوئے جاتے تھے تو اس کی وجہ پاکستان کو انگیج کرتے ہوئے یہ قدم اُٹھانا تھا۔ جواب میں میاں نوازشریف کی طرف سے خاموشی نیم رضا کے پیغامات جاتے تھے۔ برسوں تک وزیر خارجہ کا تقرر نہ ہونا اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا مدتوں تک مفقودالخبر رہنا اسلام آباد سے دہلی کے لیے جانے والے ایسے ہی سگنل تھے۔ ان تلخ باتوں کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھاکر رکھ دیا جائے کیونکہ آزادکشمیر میں مثبت انداز میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔یہاں کے عوام بے پناہ مسائل کا شکار ہیں۔یہ مسائل برسہا برس سے حل طلب چلے آرہے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان مسائل کے حل پر مثبت انداز میں اپنے پروگرام اور منشور کو بیان کیا جائے۔زہریلی تقریروں کے مقابلے سے زمینی صورتِ حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔کیا ہی اچھا ہو کہ بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان بلاول اور مریم کا جوابی انداز اپنانے کے بجائے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو امید اور رجائیت کا پیغام دیں اور آزادکشمیر کے ووٹر کو بتائیں کہ ان کے ذہن میں آزادکشمیر میں ترقی کا کون سا ماڈل ہے۔اپنے سیاسی حساب چکانے کے لیے پاکستان کے سیاست دانوں کے پاس کوہالہ سے کراچی تک بہت وسیع علاقہ اوربائیس کروڑ کی آبادی موجودہے۔ قومی سیاست دان آزادکشمیرکے مختصرآبادی اور محدودجغرافیے کے حامل مگر نظری اعتبار سے ہمالیہ سے بلند علاقے کو اپنی رواداری، روایات اور وضع داری میں مست ورقصاں رہنے دیں تو اچھا ہے۔