موسمی آفتیں:صاف ستھری بجلی کیسے حاصل کریں؟ (چوتھا حصہ)

چوتھا باب
وہ ساری اضافی (صاف ستھری) بجلی، جوہم استعمال کررہے ہوں گے، اور یہ باور کررہے ہوں گے کہ سورج اور ہوا کا کردار بہت اہم ہے، سن 2050ء تک امریکی پاور گرڈ مکمل کاربن سے پاک ہوجائے گی اور اس کے لیے اسے ہردس سال میں 75 گیگا واٹ اضافی معاون بجلی درکار ہوگی۔
کیا یہ بہت زیادہ ہے؟ گزشتہ دہائی میں، ہم نے سالانہ 22 گیگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی ہے۔ اب ہمیں ہر سال تین گنا زائد اضافی بجلی پیدا کرنی ہوگی، اور اسے تین دہائیوں تک برقرار رکھنا ہوگا۔ جوں جوں ہم سولر پینل بڑھائیں گے اور ٹربائن لگائیں گے، یہ کرنا ہمارے لیے تھوڑا بہت آسان ہوگا۔ اس دوران ہمیں ایسی ایجادات پر بھی توجہ دینی ہوگی جو سورج اور ہوا سے زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرسکیں۔ جیسے جیسے ہم نئی ٹیکنالوجی سے کام لیں گے، کم سے کم زمین سے زیادہ سے زیادہ توانائی پیدا کی جاسکے گی۔ بہرکیف زیادہ طاقتور پینل اور ٹربائن بھی کافی نہ ہوں گے، کیونکہ بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی ضروریات میں بھی بہت فرق آچکا ہے۔
الیکٹرک گرڈ کی ابتدا سے، امریکہ کے تیزی سے ترقی کرتے شہروں کے قریب پاور پلانٹ لگائے گئے، کیونکہ یہ آسان تھا کہ ریل روڈ اور پائپ لائنوں کے ذریعے قدرتی ایندھن جہاں چاہیں منتقل کرسکیں، اور اس سے بجلی پیدا کی جاسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ کے پاور گرڈ کا بہت کچھ انحصار ریل روڈ اور پائپ لائنوں پر رہا۔ ٹرانسمیشن لائنوں کے ذریعے قریبی شہروں میں بجلی کی فراہمی آسان ہوئی۔
یہ نمونہ شمسی اور ہوا کی بجلی کے معاملے میں کارآمد نہیں۔ تم شمسی توانائی کو ریل کار کے ذریعے کسی پاور پلانٹ تک نہیں پہنچا سکتے، اسے اس کی جگہ پر ہی بجلی میں ڈھالنا ہوگا۔ امریکہ میں بیشتر شمسی توانائی جنوب مغرب میں فراہم ہوتی ہے، اور زیادہ تر ہوا بڑے میدانی علاقوں (Great Plains) میں پائی جاتی ہے، جو بڑے شہری علاقوں سے دور ہیں۔ مختصراً یہ کہ بجلی کا تعطل، جیسے جیسے ہم صفر کاربن کی جانب بڑھیں گے، بجلی کی لاگت بڑھاتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جو شہر گرین توانائی پیدا کررہے ہیں، وہ سورج اور ہوا کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع پر بھی انحصار کررہے ہیں، جیسا کہ گیس سے چلنے والے پاور پلانٹ جو کسی بھی طور صفر کاربن بجلی مہیا نہیں کررہے۔
بہرحال قابلِ تغیر ذرائع توانائی جیسے سورج اور ہوا صفر تک جانے میں ہماری ٹھوس مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں جہاں جہاں مالی اور معاشی طورپر ممکن ہو، قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع تیزی سے استعمال کرنے ہوں گے۔ یہ حیران کن ہے کہ گزشتہ دہائی میں شمسی اور ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کی لاگت تیزی سے گری ہے: مثال کے طور پر سولر سیل 2010 ء سے 2020ء تک دس گنا سستے ہوئے ہیں۔ صرف سال 2019ء میں ایک سولر سسٹم کی لاگت گیارہ فیصد تک کم ہوئی۔ اس تخفیف میں ’’عمل کے ذریعے سیکھنے اور جاننے‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ سادہ حقیقت ہے کہ نت نئی پیداوار کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔
ہمیں وہ ساری رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے، جوقابلِ تجدید توانائی ذرائع کے حصول میں آڑے آرہی ہوں۔ مثال کے طور پر ریاست ایریزونا اضافی شمسی توانائی پڑوسیوں کو مہیا کرسکتی ہے، مگر کسی دور کی ریاست تک نہیں پہنچا سکتی۔ ہم یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں، ہائی وولٹیج کرنٹ والی خاص طویل فاصلے تک جانے والی پاور لائنوں سے یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمارے پاس پہلے ہی موجود ہے: امریکہ میں پہلے ہی سے کئی ایسی لائنیں نصب ہیں، سب سے بڑی واشنگٹن اسٹیٹ سے کیلی فورنیا تک جاتی ہے۔ مگر ان لائنوں کی راہ میں بڑی سیاسی رکاوٹیں حائل ہیں، یہ الیکٹرک گرڈ سسٹم اپ گریڈ ہونے نہیں دے رہیں۔ ذرا سوچیے کتنے زمیندار، یوٹیلٹی کمپنیاں، اور مقامی حکومتیں ہیں کہ جنہیں یکجا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاور لائن تعمیر کی جاسکیں، جو شمسی توانائی کوجنوب مغرب سے نیو انگلینڈ تک صارفین کو پہنچائیں۔ صرف درست راستے منتخب کرنے ہوں گے، کیونکہ جب تم بڑی پاور لائن کسی پارک کے بیچ میں سے لے جاؤ گے تولوگ یقیناً اعتراض کریں گے۔
ٹرانس ویسٹ ایکسپریس پرکنسٹرکشن، ایک ٹرانسمیشن منصوبہ جو ہوا سے پیدا کردہ بجلی وائیومنگ سے کیلی فورنیا منتقل کرتا ہے اور جنوب مغرب تک پہنچاتا ہے، رواں سال (2021ء) شروع ہورہا ہے۔ توقع ہے کہ یہ پراجیکٹ2024ء تک آپریشنل ہوجائے گا، یعنی منصوبہ بندی شروع ہونے کے سترہ سال بعد۔ لیکن اگر ہم اس عمل میں تیزی لے آئیں تویہ بڑی تبدیلی لاسکتا ہے۔ میں ایک پراجیکٹ میں فنڈنگ کررہا ہوں کہ جس کے تحت ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل بنایا جاسکے جوامریکہ کے سارے پاورگرڈز کا احاطہ کرسکے۔
اس ماڈل کے استعمال سے ، ماہرین کی تحقیق کہتی ہے کہ مغربی ریاستیں 2030ء تک قابلِ تجدید توانائی کے ساٹھ فیصد اہداف مکمل کرلیں گی۔ مشرقی ریاستیں یہی اہداف اس دوران ستّر فیصد تک حاصل کرلیں گی۔ یہ ماڈل علاقائی اور قومی سطح پرٹرانسمیشن کے امکانات بھی ظاہر کرتا ہے۔ ایک مشترکہ قومی گرڈ کی تعمیر کے ذریعے، کہ جسے بہترین مقامات پرقابلِ تجدیدتوانائی ذرائع سے منسلک کیا گیا ہو، اس طرح بہت سارا سرمایہ بچایا جاسکتا ہے۔ آنے والے سالوں میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ بجلی درکار ہوگی، اس کے لیے ہمیں مذکورہ ماڈل کی ضرورت ہوگی، جو دنیا بھر میں گرڈز کی ضرورت پوری کرسکے۔ یہ ہمیں بہت سے سوالوں کے جواب دے گا۔ مثال کے طورپر کس مقام پرکلین انرجی کے کون سے ذرائع دستیاب ہوں گے؟ ٹرانسمیشن لائنیں کہاں لگنی چاہئیں؟ کون سے قواعد راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ اس طرح کے بہت سے منصوبے سامنے آئیں گے۔
بہت بڑے پیمانے پر گلی گلی کھدائی اور تنصیب کا کام ہوگا، اس لیے اسے ہر طبقہ محسوس کرے گا، اور اس کے مقامی اور سیاسی ردعمل سامنے آئیں گے۔ چند کمپنیاں اگلی نسل میں ٹرانسمیشن کی جدت پرکام کررہی ہیں تاکہ ’’گرمی کا مسئلہ‘‘ اور زیر زمین لائنوں کی لاگت گھٹائی جاسکے۔ امریکہ میں یہ کام مناسب رفتار سے جاری ہے۔ (جاری ہے)