حکومتی دعوے یا الفاظ کا گورکھ دھندا

حکومت اور حکمران جماعت تسلسل کے ساتھ دعوے کررہی ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقم یعنی ترسیلِ زر میں اضافہ ہوا ہے، ملکی برآمدات بڑھی ہیں، انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، اہم فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، نیب نے اربوں روپے کی لوٹی ہوئی دولت واپس قومی خزانے میں جمع کرائی ہے، قرضوں کی ادائیگی کی صورتِ حال میں بہتری آئی ہے، اور آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑانے کی سبیل پیدا ہورہی ہے، اسٹیٹ بینک اور دوسرے بینکوں کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ سرکاری دفاتر میں اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔
حکومت کے ان تمام دعووں کو اپوزیشن نے یکسر مسترد کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ اور اعداد و شمار کا دھوکا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن لیڈر سمیت کسی اپوزیشن جماعت یا رہنما نے حکومتی دعووں کی تردید میں ٹھوس ثبوت اور اعداد و شمار پیش نہیں کیے، تاہم ان کا یہ استدلال عام آدمی کو متاثر کررہا ہے کہ اگر حکومتی دعووں کے مطابق ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے تو اس کے اثرات ظاہر کیوں نہیں ہورہے؟ مہنگائی میں کمی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ عام آدمی تک اس کے ثمرات کیوں نہیں پہنچ پارہے؟ حکومت کیوں ہر دوچار ہفتوں بعد پانی، بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے؟ سونے کی قیمت کیوں ہر روز بڑھ رہی ہے، اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کیوں مستحکم نہیں ہورہا؟ٹھوس اعداد و شمار نہ ہونے کے باوجود اپوزیشن کے ان الزامات میں خاصی جان ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو بتائے کہ معیشت میں بہتری کے اُس کے بیان کردہ اشاریوں کے باوجود مہنگائی میں کوئی کمی کیوں نہیں آرہی، اور عام آدمی صورتِ حال سے کیوں مطمئن نہیں ہے؟
حکومت اور اپوزیشن کی تعریف وتنقید تو ہمارے ہاں اس قدر چلتی ہے کہ شاید ہماری کسی اپوزیشن نے آج تک کسی حکومتی اقدام کو نہیں سراہا۔ اسی طرح حکومت نے بھی اپوزیشن کی کسی تجویز اور تنقید کو کبھی سودمند نہیں جانا۔ اس سارے جھگڑے میں عام آدمی مارا جاتا ہے، خصوصاً متوسط طبقے اور اس میں بھی لوئر مڈل کلاس کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی ہی صورتِ حال رہی (جس کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں) تو اگلے پانچ سال میں لوئر مڈل کلاس مکمل طور سے ختم ہوجائے گی۔ ان ماہرین کے مطابق ان میں سے کچھ لوگ جائز مواقع ملنے پر اَپر مڈل کلاس یا اشرافیہ اور امراء میں شامل ہوجائیں گے، جبکہ کچھ لوگ رشوت، کمیشن، لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی اور کرپشن کے ذریعے اپنی کلاس تبدیل کرلیں گے، لیکن باقی مڈل کلاس بدتر معاشی حالات کے باعث غریب طبقے میں شامل ہوجائے گی، اور ان کی بھی بڑی تعداد خطِ غربت سے نیچے ہوگی۔ یہ بات خاصی درست لگتی ہے کہ لوئر مڈل کلاس اس وقت اپنی بقا کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، لیکن اس تگ و دو سے اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ لوئر مڈل کلاس کا سفید پوش طبقہ جو کسی کے سامنے اب تک ہاتھ پھیلانے سے گریزاں ہے اس کی مجبوری ہے کہ اس کی وراثت یا تو بالکل نہیں ہے، یا اسے وراثت میں اتنا تھوڑا حصہ مل سکا ہے جو اس کی حالت بدل نہیں سکتا۔ اس کی تنخواہ یا آمدنی انتہائی محدود ہے جس میں وہ بمشکل اپنے روزمرہ کے معمولات اور کچن چلا پاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پانی، بجلی، گیس کے بلوں نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا بار بار کا اضافہ اس کا پورا بجٹ خراب کردیتا ہے۔ بازار سے خریدی گئی ہر چیز پر اسے جی ایس ٹی اور دوسرا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس طبقے کا واحد شوق اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا ہے، جس کے لیے وہ پہلے نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولوں کے ہاتھوں لٹتا ہے، پھر پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو بھیج کر اپنی کھال اترواتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے تقریباً سو فیصد طلبہ و طالبات اور ان کے والدین فیسوں میں کمی کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
اس طبقے کے اپنے اوپر جبر کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے اور بچوں کی اعلیٰ (اپنی نظر میں) تعلیم کے لیے اپنی زندگی سے بہت سی چیزیں نکال دی ہیں۔ مثلاً اب اس طبقے کے لوگ شادی بیاہ پر سونا چاندی کے بجائے مصنوعی زیورات سے کام چلارہے ہیں، اس طبقے کے لوگ نکاح پر مقرر کردہ مہر ساری زندگی ادا نہیں کرپاتے۔ ان خاندانوں کی زندگی میں تفریح نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ پہلے سینما ایک سستی تفریح تھی، اب وہ بھی انتہائی مہنگی ہوگئی ہے۔ اس طبقے کی خواتین تمام دن بجلی کے بٹن بند کرنے کی مشقت کرتی ہیں۔ مہمانوں کی آمد انہیں اداس کرجاتی ہے۔ اس طبقے کے بڑی عمر کے لوگ بیمار ہونے کی صورت میں ازخود کوئی سستی سی گولی کھا لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیماری اندر ہی اندر بڑھتی رہتی ہے۔ یہ لوگ بیمار ہونے پر دوا لینے جائیں اور ڈاکٹر دس دن تک دوا کھانے کی ہدایت کرے تو دو دن سے زیادہ کی دوا نہیں لیتے۔ اس طبقے نے اب بکرے کا گوشت، انار اور سیب کھانا چھوڑ دیا ہے۔ گھر کے کسی فرد میں کوئی موذی بیماری نکل آئے تو ان کے گھر کا سامان بک جاتا ہے۔ یہ طبقہ اب پرانے صوفے، پرانا فرنیچر اور پرانی موٹر سائیکل یا گاڑی خریدنے کا عادی ہوگیا ہے۔ اس طبقے کے بہت سے لوگوں نے شادیوں میں جانا بند کردیا ہے کہ سلامی دینے کی اُن میں سکت نہیں۔ یہ لوگ محلے داروں یا رشتے داروں کو اب عید،بقرعید پر بھی اپنے گھر کھانے پر نہیں بلاتے۔ اس طبقے کے لوگ سال میں ایک بار بھی کسی سیاحتی مقام پر جاسکتے ہیں نہ ہوٹل میں فیملی کے ساتھ کھانا کھاسکتے ہیں۔ آئندہ اس طبقے کے لیے مزید مشکل وقت آرہا ہے، اور لگتا ہے اگلے پانچ سال میں یہ طبقہ غریب طبقے میں شامل ہوجائے گا، اور ان میں سے کچھ لوگ چھپ چھپا کر لنگر خانوں سے کھانا کھارہے ہوں گے۔