اللہ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت پیٹرولیم ہے۔ زمین سے نکالا جانے والا یہ سیّال سونا کارخانوں کے پہیّے کو رواں رکھے ہوئے ہے۔ زمین پر دوڑنے والی گاڑیاں ہوں یا آسمان پر اُڑتے طیارے، اور سمندر کے سینے پر مونگ دَلتے دیو ہیکل جہاز… ساری حرکت و برکت تیل کی مرہونِ منت ہے۔ یہی رحمت سخت سردیوں میں خواب گاہوں کو گرم اور یخ پانی کے درجہ حرارت کو آرام دہ حد پر رکھ کر خلقِ خدا کو راحت فراہم کررہی ہے۔ کروڑوں لوگوں کے لیے تیل روزگار اور خوشی و خوشحالی کی ضمانت ہے۔
لیکن انسان کی خودغرضی سے یہ عظیم الشان نعمت دنیا بھر میں کشیدگی اور قتل وغارت کا باعث بھی ہے۔ تیل پر قبضے کی شیطانی خواہش نے مشرق وسطیٰ کو یرغمال بنا رکھا ہے، جس کی وجہ سے کروڑوں افراد ملوکیت و آمریت کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ اسی نامراد نے پوری روہنگیا قوم پر ان کی اپنی زمین تنگ کردی، کہ اراکان سے متصل سمندر کی تہوں میں تیل و گیس کے چشموں پر چین کی نظر ہے تو دوسری طرف برما کے ساحل سے وسطی چین تک بچھائی جانے والی تیل پائپ لائن کے قرب وجوار میں مسلمان آبادی ”تحفظ“ کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز کا سبب تھی۔ تیل ہی نے کریمیا(Crimea)کے تاتاروں کو جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا کیا، کہ روس بحراسود سے تیل و گیس کشید کرنا چاہتا ہے۔
اب یہی تیل مشرق وسطیٰ کے دو قریبی دوستوں میں دوری بلکہ شدید کشیدگی کی وجہ بن رہا ہے۔ حالانکہ سعودی عرب کے محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے محمد بن زید نظریاتی اعتبار سے انتہائی قریب اور عمر میں فرق کے باوجود جگری دوست ہیں۔ ان کے مناصب میں بھی گہری مماثلت ہے، یعنی کہنے کو دونوں ولی عہد ہیں لیکن ان کا دبدبہ و اختیار حقیقی فرماں روا جیسا ہے۔ قطر کا ”مزاج“ درست کرنا ہو، اخوان المسلمون و حماس کی بیخ کنی، یمن میں طاقت کا استعمال یا بحر روم میں ترکی کا گھیرائو… تمام سیاسی و نظریاتی معاملات پر MBSاور MBZ کے نام سے مشہور ان دونوں شہزادوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
ان جگری دوستوں میں اختلاف تیل کی قیمتوں پر ہوا۔ کورونا وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا اور اقتصادی سرگرمیاں تقریباً منجمد ہوکر رہ گئیں۔ نتیجے کے طور پر تیل اور گیس کے استعمال میں کمی آئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ گزشتہ برس اپریل میں امریکی تیل WTIکی قیمت منفی 37 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ گاہک نہ ملنے کی وجہ سے آڑھتیوں نے ٹینکر مالکان کو پیسے دے کر تیل اٹھوایا، کہ گودام کا کرایہ ناقابلِ برداشت ہوگیا تھا۔
امریکہ میں تیل کی صنعت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے سابق صدر ٹرمپ نے اپنے دوستوں MBS اورMBZ سے تیل کی پیداوار میں کمی کا مطالبہ کیا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے روس کو سبق سکھانے کے لیے سعودی عرب نے پیداوار میں بھاری اضافہ کیا تھا۔ امریکی صدر کی درخواست پر سعودی وزیر توانائی عبدالعزیز بن سلمان پیداوار میں کمی پر راضی تو ہوگئے لیکن یہ شرط عائد کردی کہ اوپیک کے ساتھ تیل برآمد کرنے والے غیر اوپیک ممالک خاص طور سے روس، میکسیکو، کینیڈا، ناروے اور امریکی تیل کمپنیاں بھی کٹوتی پر راضی ہوں۔ طویل بحث مباحثے کے بعد تیل کی عالمی پیداوار میں 97 لاکھ بیرل یومیہ کمی پر اتفاق ہوگیا جو تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔
تمام ممالک نے طے شدہ کوٹے کی پاسداری کی، اور قیمتیں 25 ڈالر فی بیرل پر مستحکم ہوگئیں۔ گزشتہ برس کے اختتام سے کورونا کی صورتِ حال بہتر ہونا شروع ہوگئی، امریکہ اور یورپ میں کورونا سے تحفظ کی جدرین کاری (Vaccination) کا آغاز ہوا، اور اِس سال فروری سے مغربی دنیا کی معیشت میں استحکام کے آثار پیدا ہوئے، جس کے نتیجے میں ایندھن کی کھپت بڑھ گئی اور تیل کی قیمتوں نے اوپر کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ طلب کے بڑھتے ہی بازار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اوپیک اور روس پیداوار میں آہستہ آہستہ اضافے پر رضامند ہوگئے تاکہ نہ تو رسد میں بھاری کمی سے قیمتیں صارفین کی قوتِ خرید سے باہر ہوجائیں اور نہ موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیداوار اتنی بڑھا لی جائے کہ قیمتوں پر دبائو محسوس ہو۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ تیل کی قیمت میں صرف ایک ڈالر فی بیرل کا اضافہ پاکستان میں زرِمبادلہ کے ذخائر کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر ماہانہ کا نسخہ ہے۔
اوپیک کی نظر امریکہ کی سلیٹی (Shale)چٹانوں پر بھی ہے اور سعودی، تیل کی قیمتیں اتنی زیادہ نہیں بڑھانا چاہتے جہاں سلیٹی چٹانوں سے ایندھن کی کشید منافع بخش ہوجائے۔ کھپت، رسد اور قیمتوں پر باریک بینی سے نظر رکھنے کے ساتھ یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے اوپیک پلس (اوپیک اور تیل برآمد کرنے والے غیر اوپیک ممالک) کے اجلاس بہت باقاعدگی سے ہوتے رہے، اور پیداوار میں کمی بیشی پر مکمل اتفاق رہا۔ دوسری طرف کورونا پر قابو نے دنیا بھر کی معیشتوں پر مثبت اثرات مرتب کیے اور ایندھن کی طلب قبل از کورونا کی سطح پر آگئی۔
جون کے وسط میں امریکہ کے ماہرینِ توانائی نے خیال ظاہر کیا کہ اِس سال کے آخر تک تیل کی عالمی طلب 9 کروڑ 41 لاکھ بیرل یومیہ سے بڑھ کر 9 کروڑ 99 لاکھ بیرل روزانہ ہوجائے گی۔ جبکہ سرمایہ کار اداروں کا کہنا ہے کہ اگلے برس جنوری تک دنیا کو روزانہ 58 لاکھ بیرل اضافی تیل کی ضرورت ہوگی۔
یکم جولائی کو اوپیک پلس کے اجلاس میں اس معاملے پر غور ہوا۔ بات چیت کے دوران کویت اور متحدہ عرب امارات تیل کی بڑھتی ہوئی کھپت کے تناظر میں پیداوار میں بھاری اضافے کے حامی تھے، لیکن سعودی وزیر توانائی کا خیال تھا کہ خوش کن مفروضات کی بنیاد پر پیداوار میں اندھا دھند اضافہ خطرناک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ میں تو کورونا کی وبا پر بڑی حد تک قابو پایا جاچکا ہے لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں صورتِ حال ابھی تک معمول پر نہیں آئی۔ یہ نامراد وائرس شکلیں بدل بدل کر جوابی حملے کررہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ Delta Variant کیا آفت ڈھائے گا۔ سعودی وزیر تیل کا کہنا تھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے ایران پر جو تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں اُن کے خاتمے کی بات چل رہی ہے، اور اگر ایرانی تیل پر سے پابندی اٹھالی لی گئی تو 40 لاکھ بیرل اضافی تیل بازار میں آجائے گا۔ شہزادہ عبدالعزیز نے خدشہ ظاہر کیا کہ طلب میں اضافے کے حالیہ اشارے سراب ثابت ہوسکتے ہیں، اس لیے ہمیں پیداوار بڑھاتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
روس نے سعودی تجزیے سے اتفاق کیا اور طے پایا کہ اگست کے آغاز سے تیل کی پیداوار میں ہر ماہ 4 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کیا جائے، اور دسمبر تک مجموعی پیداوار کو 20 لاکھ بیرل یومیہ بڑھالیا جائے۔ اس دوران بازار پر کڑی نظر رکھی جائے گی، تاکہ حسبِ ضرورت پیداوار میں کمی بیشی کرکے قیمتوں کو مستحکم رکھا جاسکے۔ اس تجویز پر اصولی اتفاقِ رائے ہوگیا، اور وقفے کے دوران نام نہ بتانے کی شرط پر اوپیک کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ خبر صحافیوں کو بھی بتادی۔
وقفے کے بعد اجلاس جب دوبارہ شروع ہوا تو متحدہ امارات کے وزیر تیل سہیل المزروعی نے پیداوار کے لیے اپنے ملک کے کوٹے میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امارات کے سب سے بڑے گاہک ہندوستان میں تیل کی کھپت قبل از کورونا کی حد کو چھو رہی ہے، اور کوٹے کا موجودہ حجم ہندوستان کی طلب پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔ جناب مزروعی کا کہنا تھا کہ ہماری پیداواری گنجائش 43 لاکھ بیرل روزانہ ہے اور گاہک بھی موجود ہیں، لہٰذا 28 لاکھ بیرل یومیہ کا کوٹہ امارات کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ سعودی عرب نے کوٹے کی بات کو بے وقت کی راگنی قرار دیا۔ روس نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس مرحلے پر جب اوپیک پلس کا بنیادی ہدف تیل کی قیمتوں میں استحکام ہے، کوٹے پر گفتگو پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے۔ بحث مباحثے کے بعد اجلاس دوسرے دن تک کے لیے ملتوی ہوگیا۔
جمعہ کے اجلاس میں بھی متحدہ عرب امارات نے کوٹہ بڑھانے پر اصرار کیا، اور کہا جاتا ہے کہ سعودی و اماراتی وفد کے درمیان خاصی نوک جھونک ہوئی۔ متحدہ عرب امارات کا کہنا تھا کہ سیاحت کی صنعت قبل از کورونا کی سطح پر آگئی ہے اور جہازراں کمپنیاں اپنے بیڑے میں توسیع کے لیے اربوں ڈالر خرچ کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی یونائیٹڈ ائرلائنز کا حوالہ دیا گیا جو 270 نئے طیارے خرید رہی ہے، اور اس سودے کی مالیت 30 ارب ڈالر ہے۔ اسی کے ساتھ ہزاروں نئے ملازمین بھرتی کیے جارہے ہیں۔ اماراتیوں کا کہنا تھا کہ خطیر سرمایہ کاری اعتماد کو ظاہر کرتی ہے، اور معیشت میں بہتری کے واضح اشاروں کو سراب قرار دینا مناسب نہیں۔ سعودی عرب اور روس کوٹے پر گفتگو کے لیے رضامند نہ ہوئے اور اجلاس 5 جولائی تک کے لیے ملتوی ہوگیا۔ پیر کا اجلاس بھی کوٹے کے گرد گھومتا رہا۔ اماراتی وزیر تیل نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک نے پیداواری گنجائش میں اضافے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور ہم اپنی سرمایہ کاری کو کیسے ضایع ہونے دیں! اس پر سعودیوں کی جانب سے جواب آیا کہ اضافی گنجائش کی شیخی نہ بگھارو، ہم اپنی پیداوار دگنی کرسکتے ہیں، لیکن پھر اگر تیل پانی کے بھاؤ بکنے لگے تو ہم سے شکایت نہ کرنا۔ روس نے گنجائش کی بات کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں استحکام کے لیے تمام ممالک گنجائش سے کم تیل اپنے کنووں سے نکال رہے ہیں۔ کسی فیصلے کے بغیر یہ اجلاس بھی ختم ہوگیا۔ جب دوسرے دن دوبارہ بیٹھنے کی بات ہوئی تو سعودی عرب اور روس نے اصولی اتفاق کے بغیر اوپیک کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ تیل کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ یہ وقت کوٹے پر بات کرنے کا نہیں۔ بعد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اوپیک کے معتمد عام محمد برکندو نے کہا کہ اگلی نشست کی تاریخ کا اعلان ”مناسب“ وقت پر کیا جائے گا۔
اضافے پر اصرار کے باوجود متحدہ عرب امارات اب تک اپنے طے شدہ کوٹے پر عمل کررہا ہے، جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر اوپیک کی پیداوار میں اضافہ نہ ہوا تو اگلے چند ماہ میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ تیل کی قلت کا بھی خطرہ ہے، اور ماہرین درج ذیل تین امکانات کی توقع کررہےہیں:
1۔پیداوار کی موجودہ مجموعی حد برقرار رہے گی، یعنی کسی کے لیے کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس صورت میں سال کے اختتام تک تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافے کا خدشہ ہے۔
2۔متحدہ عرب امارات کو بہلا پھسلا کر موجودہ کوٹے پر راضی کرلیا جائے۔ اس صورت میں دسمبر تک پیداوار 20 لاکھ بیرل یومیہ بڑھ جائے گی جس سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہوگا۔
3۔یہ بھی ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات اوپیک کو نظرانداز کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر اپنے کنووں سے زیادہ تیل نکالنا شروع کردے۔ اس صورت میں سعودی عرب اپنی پیداوار میں بھاری اضافہ کرکے امارات کو ”سبق“ سکھانے کی کوشش کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل سے نیچے آسکتی ہے۔
تیل کی پیداوار پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کشیدگی اب ایک تجارتی جنگ کی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے، اور اس ”جھگڑے“ میں اسرائیل کے اقتصادی مفادات کو بھی ضرب لگ سکتی ہے۔ بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل خلیج تعاون کونسل (GCC) کے درمیان افراد اور اسباب کی آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں۔ ان ممالک نے باہمی درآمدات کے لیے صفر یا بہت ہی کم محصولات طے کیے ہیں۔ معاہدہ ابراہیم کے تحت جب اسرائیل نے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے سیاسی روابط قائم کیے اُس وقت دوسری باتوں کے علاوہ تل ابیب کی نظر خلیجی ممالک کی معیشت پر بھی تھی۔ اسرائیل نے سفارتی تعلقات بحال ہوتے ہی امارات اور بحرین کے Duty Free Zone میں سرمایہ کاری شروع کردی، جہاں بننے والی مصنوعات پر GCC نرخ سے درآمدی محصولات لاگو ہوتے ہیں۔
بلومبرگ اور رائٹرز کے مطابق اس ہفتے سعودی عرب نے اپنے کسٹم قوانین میں ایک ترمیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت GCC ترجیحی و رعایتی محصولات کا اطلاق Duty Free Zone میں بننے والی اُن مصنوعات پر نہیں ہوگا جو ایسے کارخانوں میں بنتی ہیں جن کی ملکیت 25 فیصد سے زیادہ غیر مقامی ہو، یا جن مصنوعات کے لیے 40 فیصد سے زیادہ خام مال باہر سے آتا ہو۔ بظاہر اس ترمیم کا مقصد خلیجی تاجروں اور محنت کشوں کا تحفظ ہے، لیکن اس کا واضح ہدف امارات کے جبل علی فری زون جیسے مراکز ہیں جہاں اسرائیل بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔
دوسری طرف تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکہ کا دبائو بھی بڑھتا جارہا ہے۔ بدھ 7 جولائی کو امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون اور سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کی واشنگٹن میں ملاقات کے دوران دوسرے نکات کے ساتھ تیل کی پیداوار بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر بائیڈن کا اصرار کتنا مؤثر رہے گا۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں MBSکے مبینہ کردار پر آج کل یہاں بحث عروج پر ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک طبقہ اِس پورے واقعے کی تحقیقات کے لیے صدر بائیڈن پر دبائو ڈال رہا ہے، جس کی وجہ سے ریاض کسی حد تک دفاعی پوزیشن میں ہے۔ اس کے علاوہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے امریکی اقتصادیات کی بعد ازکورونا تعمیرنو کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ ان عوامل کی بنا پر سعودی عرب کے لیے امریکہ کے مطالبے کو یکسر رد کردینا ممکن نہیں ہوگا۔ جہاں تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی باہمی چپقلش کا تعلق ہے تو GCCترجیحی محصولات میں رد و بدل کرکے MBS نے اس تنازعے میں اسرائیل کو بھی ایک فریق بنالیا ہے۔ محمد بن سلمان کے اماراتی ہم منصب، اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ریاض کو توقع ہے کہ اسرائیلی رہنما اپنے اماراتی دوستوں کو اس معاملے میں ”معقولیت“ اختیار کرنے پر رضامند کرلیں گے۔
…٭…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔