پاک افغان تعلقات ماضی حال اور مستقبل

گزشتہ ہفتے انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام افغانستان سے امریکی ودیگر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بدلتی ہوئی صورت حال، اور ان حالات کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے ایک خصوصی لیکچر کا اہتمام کیاگیا، جس کے مہمانِ خصوصی افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) اسلام آباد کے وائس چیئرمین جناب سید ابرار حسین تھے، جب کہ اس تقریب کی صدارت امیر جماعت اسلامی پاکستان کے افغان امور کے مشیر جناب شبیر احمد خان نے کی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا، جب کہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض آئی آر ایس کے ڈپٹی چیئرمین اور فارن پالیسی گروپ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن قریشی نے انجام دیئے۔
…٭…٭…٭…
ڈاکٹر محمد اقبال خلیل چیئرمین آئی آر ایس پشاور نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جاری حالیہ شورش پچھلے چالیس سال کا تسلسل ہے۔ اس بدامنی کا آغاز سردار دائود کی جانب سے ظاہر شاہ کا تختہ الٹنے سے ہوا تھا۔ بعد میں سوویت افواج کی مداخلت اور اُن کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا تھا۔ افغان جہاد کی کامیابی کے نتیجے میں سوویت یونین کو تو افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑ گیا تھا، لیکن بعد میں افغان خانہ جنگی سے سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کے حصے میں آیا تھا۔ افغان جنگ کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد نے پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ حالیہ تشدد کی لہر میں اگر مزید تیزی آتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر ایک بار پھر پاکستان پر سب سے زیادہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ آج کالیکچرپاک افغان تعلقات کے اہم ترین موضوع پر تبادلہ خیال کے لیے منعقد کیاکیا گیا، جس کے لیے ہم افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرارحسین، اور جماعت اسلامی کے افغان امور کے نگران شبیر احمد خان کے مشکور ہیں جنھوں نے اس پروگرام کے لیے ہمیں وقت دیا۔
سید ابرار حسین سابق سفیر پاکستان نے ’’پاک افغان تعلقات، ماضی حال اور مستقبل‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 6پڑوسی ممالک ہیں جن میں سب سے طویل سرحد پاکستان کے ساتھ ہے جو ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کا اثر بھی پاکستان پر دیگر پڑوسی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے حتیٰ کہ پورے براعظم ایشیا میں افغانستان کی حیثیت انتہائی کلیدی اہمیت کی حامل ہے، جس کی طرف علامہ محمد اقبال نے آج سے سو سال قبل اشارہ کرتے ہوئے افغانستان کو براعظم ایشیا کے قلب سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملتِ افغاں در آں پیکرِ دل است
از فسادِ او فساد آسیا
در کشادِ او کشاد آسیا
افغانستان کی پاکستان کے تناظر میں اہمیت کا اندازہ اس کی پاکستان کے ساتھ ہونے والی آمدو رفت، تجارت اور عوامی روابط سے لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی تاریخ، کلچر، زبان اور تہذیب یکساں ہے، اس لیے پاکستان پر افغانستان کا اثر دیگر پڑوسیوں کی نسبت سب سے زیادہ پڑتا ہے۔ روزانہ چالیس پچاس ہزار افراد پاکستان افغانستان سرحد کے راستے دونوں جانب آمد ورفت کرتے ہیں۔ پاک افغان تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سربراہان کے درمیان قریبی آمد و رفت ہوتی ہے۔ پاکستانی صدر، وزرائے اعظم، افغان سربراہان ایک دوسرے کے ہاں متواتر دورے کرتے ہیں، جب کہ دیگر ممالک کے درمیان اتنی گرمجوشی نہیں پائی جاتی۔ ہم پاک افغان سرحد کو بین لاقوامی سرحد تسلیم کرتے ہیں، جبکہ افغان اسے ڈیورنڈ لائن قرار دے کر اسے مستقل سرحد ماننے سے انکاری ہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ انگریزوں کے انخلا اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہ دعویٰ اپنی اہمیت کھو چکا ہے، کیونکہ پاکستان ایک حقیقت ہے اور پاکستان انگریزوں سے کیے گئے سابقہ تمام معاہدوں کا چونکہ بین الاقوامی طور پر پابند ہے، اس لیے ڈیورنڈ معاہدے کے تحت پاک افغان سرحد اب ایک بین الاقوامی سرحدہے، لیکن افغان قوم پرست اسے محض ایک سیاسی اسٹنٹ کے طور پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں جس کی کوئی بین الاقوامی اہمیت نہیں ہے۔
2010 ء میں پاک افغان تجارت کا جونیا معاہدہ ہوا اُس کے تحت پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہورہی ہے۔ افغانستان کی 2۔3 بلین ڈالر سے زیادہ تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی کُل تجارت کا حجم 8۔10 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت 80 فیصد کنٹینرز کی بغیر اسکینر کے کلیئرنس ہوتی ہے۔ 70 فیصدکنٹینرز کی کلیئرنس 48 گھنٹوں میں ہوتی ہے۔ اسی طرح اس معاہدے کے تحت افغان ٹرک اپنا سامان واہگہ بارڈر تک لے جا سکتے ہیں، البتہ بھارتی سامان کو زمینی راستے سے افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس معاہدے کے تحت دو طرفہ اجلاس ہر 6 ماہ بعد ہونے چاہیے تھے، جو باقاعدگی سے نہیں ہورہے ہیں، یعنی دس سال میں صرف آٹھ اجلاس ہوئے ہیں، جس کے نہ ہونے کی وجوہات میں سرفہرست وجہ دونوں طرف کے تعلقات میں سردمہری اور اتار چڑھائو ہے۔ دو طرفہ تجارت میں 2 بلین ڈالر سے زائد تجارت پاکستان، جبکہ 500 ملین ڈالر تجارت افغانستان کی جانب سے ہوتی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے تجارت کا حجم کم جبکہ پاکستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے متعلق یہ الزام من گھڑت ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی، یا پاکستان کا افغان ترقی میں کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے مختلف شہروں مثلاً کابل، بلخ، مزار شریف اور ننگرہار میں 6 فیکلٹی بنائی ہیں۔ رحمٰن بابا اسکول کے علاوہ نشتر کڈنی سینٹر جلال آباد، اور کابل میں تین سو بستروں پرمشتمل جناح ہسپتال بنایا گیا ہے۔ طورخم جلال آباد شاہراہ تعمیر کی گئی ہے۔
دوطرفہ سیکورٹی تعلقات میں بھی بعض مواقع پر گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے، حتیٰ کہ ایک موقع پر افغان آرمی چیف کاکول کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں بطور مہمانِ خصوصی بھی شرکت کرچکے ہیں، جب کہ پاکستان کے آرمی چیف بھی پچھلے چند سالوں کے دوران افغانستان کے متعدد دورے کرچکے ہیں، لیکن دہشت گردی کے حوالے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف الزامات عائد کرتے رہے ہیں بلکہ دونوں جانب شدید بداعتمادی بھی پائی جاتی ہے۔
افغان حکومت پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی، جبکہ پاکستان افغان حکومت پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ اس پس منظر میں اصل ضرورت NDS اور آئی ایس آئی کے درمیان قریبی روابط اور معاہدوں کی ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں کوششیں ہوئیں، لیکن بھارت نے ان تعلقات کو بڑھنے نہیں دیا۔ پاک افغان سرحد پر آمد ورفت اور تجارت کے لیے طے شدہ ایس او پیز پر بین الاقوامی قوانین کے تحت بالعموم عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کی وجہ افغانوں کا یہ خوف ہے کہ اس طرزعمل سے یہ سرحد مستقل سرحد تسلیم کرلی جائے گی، جو وہ نہیں چاہتے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارا صدیوں پرانا ثقافتی، روحانی اور مذہبی تعلق ہے۔ پاکستان سے چالیس پچاس ہزار افغان گریجویٹ نکل کر گئے ہیں جوپاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ پاک افغان سرحد پر آمدورفت دنیا کے کسی بھی دوممالک سے زیادہ ہے۔ افغان عوام اپنی صحت، تعلیم اور کاروبار کے لیے سرحد کے اس پار آزادانہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ افغان مہاجرین کو یہاں ماضی میں جو آزادیاں حاصل رہی ہیں ان کا درست استعمال نہیں ہوا۔ دوطرفہ عوامی روابط کے ساتھ ساتھ میڈیا تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔
بھارت افغان سرزمین کو ہر سطح اور ہر لحاظ سے پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ بھارت نے میڈیا میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، اس لیے وہاں کا میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ افغان مہاجرین کی 30 لاکھ تعداد اب بھی پاکستان میں موجود ہے۔ ان مہاجرین کو پاکستان کے سفیر بنانے کی ضرورت ہے۔کچھ عناصر دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے خلاف ہیں، انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان بدگمانیاں پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ عناصر دونوں جانب آگ لگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں جاری بدامنی کا سب سے زیادہ اثر دیگر پڑوسیوں کی نسبت پاکستان پر پڑ رہا ہے، اور آگے بھی پڑنے کا امکان ہے، کیونکہ اگر افغان خانہ جنگی بڑھتی ہے تو نئے مہاجرین کے آمدکو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ مری مذاکرات پاکستان کی جانب سے ایک اچھی پیش رفت تھی، لیکن مولوی محمد عمر کی فوتگی کی خبر ایک ایسے موقع پر افغان حکومت کی جانب سے جاری کی گئی جب مری مذاکرات کا دوسرا دور ہونے والا تھا۔ اس موقع پر افغان حکومت نے بلاوجہ ملا محمد عمر کی زابل میں تصدیق شدہ فوتگی کو کراچی میں ان کے علاج اور فوتگی سے جوڑنے کی کوشش کی، جس سے دونوں جانب بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔
29 فروری 2020ء کو طالبان امریکہ معاہدے سے افغانستان کا منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوا، حالانکہ اس سے قبل ماسکو میں بھی کوششیں ہوئیں۔ جبکہ چین، روس، پاکستان اور ایران کی جانب سے بھی مذاکرات کی میز بچھانے کا عمل شروع ہوا، لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئے۔ دوحہ معاہدے سے نہ صرف امریکہ اور نیٹو کے انخلا کا ٹائم فریم طے ہوا، بلکہ اس معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہوئی، لیکن اس پر چونکہ معاہدے کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوا، اس لیے اس حوالے سے اب مشکلات پیش آرہی ہیں۔ طالبان اشرف غنی کو افغان عوام کا نمائندہ سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ افغان صدارتی انتخابات میں صرف 20 فیصد افغانوں نے حصہ لیا ہے، جب کہ نتائج میں صرف 10 فیصد ووٹ اشرف غنی کے حق میں آئے ہیں، اس لیے اشرف غنی کمزور وکٹ پر ہیں۔ جبکہ دوسری جانب طالبان کا افغانستان کے 85 فیصد رقبے پر قبضے کا دعویٰ اگرغلط بھی ہے پھر بھی اس بات کو تو امریکی اداروں سمیت ہرکوئی تسلیم کرتا ہے کہ 60 فیصد رقبے پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے اور وہ مزید آگے بڑھ رہے ہیں۔طالبان نے امن پلان دینے کا اعلان افغان حکومت پر اپنا دبائو بڑھانے کے لیے دیا ہے۔ طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ کابل پر طاقت کے ذریعے قبضے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن اگر افغان حکومت مذاکرات اور طالبان کی شرائط پر آمادہ نہیں ہوتی تو طالبان کابل پر بزور طاقت بھی قبضے کی کوشش کر سکتے ہیں جس سے ایک بڑی خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔ البتہ1990ء اور 1995ء کے بر عکس موجودہ حالات مختلف ہیں۔ طالبان کو چھوٹے بڑے جنگجو دھڑوں کے بجائے ایک ریگولر تربیت یافتہ آرمی کا سامنا ہے۔ شمالی اتحاد نے بھی اپنے لشکروںکو ازسرنو منظم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کمانڈر اسماعیل خان، جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور، اور دیگر گروپ اپنے آپ کو مسلح کررہے ہیں، حتیٰ کہ افغان صدر بھی عوام سے طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح لشکر بنانے کی اپیل کرچکے ہیں، جس سے افغانستان میں مزید خونریزی کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ خانہ جنگی بڑھنے سے پاکستان پر براہِ راست اثر پڑے گا۔ بھارت اس موقع کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔ پاکستان خاص کر ہمارے سرحدی علاقوں میں بدامنی پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر ہمیں ابھی سے تیاری کرنی چاہیے۔ پاکستان کو ایران کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ ایران کا ہزارہ کمیونٹی اور تاجکوں پر کافی کنٹرول ہے، اس لیے پاکستان کو پُرامن تصفیے کے لیے کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ ہمیںداعش کے عنصرکو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ علاقائی طاقتیں امریکی انخلا کے تو حق میں تھیں لیکن انہیں طالبان اور داعش سے بھی خدشات لاحق ہیں، البتہ طالبان چونکہ بین الاقوامی ایجنڈا نہیں رکھتے اس لیے علاقائی طاقتیں ان کے لیے تو نرم گوشہ رکھتی ہیں، لیکن داعش چونکہ پورے علاقے کو زیر اثر لانے کے عزائم رکھتی ہے اس لیے علاقائی طاقتیں داعش کی نسبت طالبان سے بات چیت کو ترجیح دیںگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے پہلے سابق کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کے مقابلے میں افغان مجاہدین کی حمایت کی، بعد ازاں ان مجاہدین کی خانہ جنگی میں بھی بعض گروپوں کی سرپرستی کے الزامات کے تحت مخالف مجاہدین دھڑے پاکستان سے ناراض ہوئے۔ طالبان کے ظہور میں آنے کے بعد ہم نے سابق مجاہد تنظیموں کے مقابلے میں طالبان کی حمایت کی، اور آخر میں ان ہی طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا، حتیٰ کہ ان کے اسلام آباد میں مقیم سفیرکو بھی نہیں بخشا گیا۔ لہٰذا اب ایک بار پھر ہم دوراہے پر کھڑے ہیں، ایسے میں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ افغان ہمیں عزت و احترام دیں اور اُن کے دلوں میں ہمارے لیے احترام اور محبت کے جذبات پیدا ہوں تو یہ یقیناً ہم سب کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
شبیر احمد خان نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ اس کے حالیہ دور میں تحریک اسلامی کے پس منظر میں 1970ء کی دہائی میں روابط کا آغاز ہوا۔ منہاج الدین گہیز نے جو ایک نامی گرامی صحافی اور دانشور تھے، قاضی حسین احمد مرحوم سے پشاور میں ہونے والے ایک اجتماع میں ملاقات کی۔ گہیز صاحب کو بعد ازاں قاضی صاحب لاہور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب سے ملاقات کے لیے لے گئے، جہاں مولانا مودودیؒ نے تحریک اسلامی کا لٹریچر پشتو اور فارسی میں ترجمہ کرنے کے ایک پراجیکٹ کا آغازکیا، جس میں کچھ فنڈنگ بعد میں قاضی صاحب نے خود بھی کی اور پشاور کے بعض صاحبِ ثروت افراد کو بھی اس کام میں شریک کیا۔ افغان جہاد دراصل اسی تحریک کا تسلسل تھا جس کی آبیاری اسلامی لٹریچر کے تراجم کے ذریعے کی گئی۔ افغان جہاد اور مہاجرین کے بعد افغان دھڑوں میں خانہ جنگی کے خاتمے میں بھی قاضی صاحب اور جماعت کے دیگر زعماء نے اہم کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب نے رمضان المبارک کا پورا مہینہ کابل میں گزارا، تاکہ فریقین کے درمیان جنگ بندی ہو، افغان عوام کو ریلیف ملے، اور افغان جہاد کے ثمرات افغان عوام کو ملیں۔ بعد میں طالبان کے دور میں بھی جماعت اسلامی نے افغانوں کے ساتھ روابط بحال رکھے، اور اب بھی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان امن میں ہم سے جو کردار ہوسکے گا وہ ضرور ادا کریں گے، کیونکہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے، اور افغان خانہ جنگی کا اثر چونکہ پاکستان پر سب سے زیادہ پڑنے کا خدشہ ہے اس لیے ہماری کوشش ہے کہ مزید خون خرابہ نہ ہو، اورافغان دھڑے باہم مل بیٹھ کر پُرامن طور پر اپنے مسائل حل کریں، جس سے دونوں برادر ممالک کے درمیان بھی اِن شاء اللہ پُرامن تعلقات استوار ہونے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔