شاہراہِ دستور پر واقع تین اہم عمارات ایوانِ صدر، دفتر خارجہ اور ان سے جڑی ہوئی عمارت ایوانِ وزیراعظم، اور ملک کی عسکری قیادت ان دنوں سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے کہ افغانستان کی صورتِ حال کا پاکستان پر اثر نہ پڑے۔ یہ بہت بڑا سوال اور چیلنج ہے۔ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے عسکری قدم اور اس کے مقابلے میں صدر اشرف غنی کا خود کو ہر حال میں ایک جائز حکومت کے طور پر منوانا زمینی حقائق کی چٹان سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق طالبان 70 سے 80 فیصد علاقے پر قابض ہوگئے ہیں اور ترکمانستان، تاجکستان اور ایران کی سرحد پر کچھ اہم علاقے اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔ ہرات میں بھی یہی صورتِ حال ہے اور طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ افغانستان میں مختلف جنگجو ملیشیا جو کچھ عرصے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھیں وہ بھی متحرک ہوچکی ہیں۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے، رشید دوستم، اسماعیل خان اور عطا محمد نور کی ملیشیا طالبان سے برسر پیکار ہیں۔ دوحہ معاہدے کی تفصیلات بھی عام نہیں کی جارہیں، لہٰذا ابہام بڑھ رہا ہے کہ طالبان کہاں تک پیش قدمی کریں گے۔ 2001ء میںطالبان کا مقابلہ شمالی اتحاد سے رہا، جسے امریکہ نے مدد فراہم کی، جب کہ پاکستان نے امریکہ کی اس شرط پر مدد کی تھی کہ وہ شمالی اتحاد کو اقتدار میں نہیں لائے گا۔ مگر امریکہ نے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی تھی۔
امریکی اور نیٹو افواج کا 90 فیصد سے زیادہ انخلا مکمل ہوچکا ہے۔ بگرام ایئربیس جہاں امریکہ نے ایک دنیا بسائی ہوئی تھی اب وہاں افغان عوام کا راج ہے۔ اشرف غنی سمجھتے ہیں کہ سرکاری اہلکار مزاحمت کیے بغیر طالبان کے ساتھ شامل ہوتے رہے تو ان کا مقابلہ مشکل ہوجائے گا، اسی لیے ان کا لہجہ تبدیل ہوگیا ہے۔ امریکہ کا ایک بیانیہ سامنے آیا ہے کہ اس جنگ میں ایک نسل کام آئی ہے۔ امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی اگلی نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں جھونکیں گے۔ عین ممکن ہے کہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا دور پھر سے شروع ہوجائے، جس میں شرکت کے لیے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی متحرک ہوچکے ہیں۔
پاکستان کو اس وقت دو بڑے مسائل درپیش ہیں، (1) پناہ گزینوں کی آمد (2) اگر افغانستان میں خانہ جنگی اگر ایسا ہوا تو اس کا اثر پاکستان پر سب سے زیادہ ہوگا۔ پاکستان بار بار جو اعلامیہ جاری کررہا ہے، جو پالیسی بیان دے رہا ہے اُس میں یہ کہہ رہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب افغان مل کر آگے بڑھیں اور مفاہمتی پالیسی اختیار کریں۔ ایک طرف چار عشروں سے یکے بعد دیگرے دو سپر طاقتوں کی مسلح مداخلت، تسلط، اور خانہ جنگی کی شکل میں آتش و آہن کی تباہ کاری سے دوچار ہونے والے افغان ہیں جو اپنے ملک میں امن اور سکون سے زندگی گزارنے کے منتظر ہیں، دوسری جانب وہ طاقتیں ہیں جو افغانستان میں برپا قیامت خیزی اور ہمسایوں پر اس کے منفی اثرات میں اپنا مفاد دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس خطے کا وہ واحد ملک ہے جو افغانستان کی صورتِ حال سے براہِ راست متاثر ہوگا۔ چین نے درست نشاندہی کی کہ افغانستان کا مستقبل چین اور پاکستان دونوں کے لیے اہم چیلنج ہے۔ چین کا پاکستان کے ساتھ مل کر مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے، قومی مفاہمت کے حصول اور پائیدار امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کے مؤقف پر مبنی بیان، پاک چین تعلقات کے 70سال مکمل ہونے کے حوالے سے تقریب میں وڈیو لنک سے خطاب میں سامنے آیا ہے۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی ہم منصب انتھونی بلنکن کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کی صورتِ حال پر بات چیت کی۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعاون اور سفارتی تعلقات بھی رہیں اور علاقائی امن بھی قائم ہوجائے۔ اسلام آباد کی خواہش ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلاء ذمہ دارانہ طریقے سے ہونا چاہیے۔ وزیرخارجہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں بھی افغان مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں، ہم پر انگلی اٹھانے والا امریکہ بھی آج کہہ رہا ہے کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار اور مددگار ہے۔ قومی سلامتی امور کے ذمہ دار حلقے سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی صورتِ حال ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے اور وہاں خانہ جنگی کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوگا، اسی لیے امریکہ سے کہا گیا ہے کہ افغانستان سے ذمہ دارانہ انخلاء یقینی بنائے۔ مگر امریکہ دانستہ طور پر اپنی خاص حکمت عملی اور اہداف کے باعث 20 سال کے بعد افغان حکومت کے بجائے اپنا اسلحہ لوٹ مار کے ماحول کے حوالے کرکے جارہا ہے، تاکہ کابل خانہ جنگی کے اندھے کنویں میں گر جائے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ مشورہ افغانستان کے تمام حلقوں کے لیے قابلِ توجہ ہونا چاہیے کہ امریکہ امن مذاکرات میں بیٹھے یا نہ بیٹھے، طالبان سمیت افغانوں کو بیٹھنا چاہیے۔ وزیر خارجہ اور آرمی چیف کے پچھلے عرصے کے دوران مختلف ممالک کے دوروں اور اہم رابطوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ افغان امن عمل کے حوالے سے اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں انہیں بے اثر نہ ہونے دیا جائے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قطر کا دورہ کیا، جہاں افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ تہران بھی سرگرم ہوا تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات مثبت نتائج لائیں۔ اسی دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم جے شنکر بھی تہران پہنچے تاکہ دہلی کو بھی کوئی کردار مل سکے۔ افغانستان میں دہلی کا کردار تلاش کرنے کی کوشش ہی مسائل کی جڑ ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 20 سال پر محیط افغان جنگ میں کچھ حاصل نہ ہونے، اور اس کے برعکس بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے باعث امریکہ مجبور ہوکر افغانستان سے واپس جارہا ہے، جبکہ اس کی واپسی کے بعد افغان عوام کے ہاتھوں کابل انتظامیہ کا بہت برا حشر ہوگا، اور افغان سرزمین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ یہی بات پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں اس ممکنہ صورت حال کا اس لیے بھی زیادہ نقصان ہوگا کہ خانہ جنگی کے نتیجے میں افغان مہاجرین کا نیا سیلاب ڈیورنڈلائن پر لگی باڑ کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوجائے گا، 1970ء کی دہائی میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے دوران پاکستان آنے والے لاکھوں افغان مہاجرین ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں جن کی اگلی نسل بھی پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کو بھی افغانستان میں خانہ جنگی سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، کیونکہ اسے افغان سرزمین پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملے گا۔ یقینی طور پر افغانستان کا عدم استحکام ہمارے عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ حقائق کو نظرانداز کرکے ہم سے ڈومور کا تقاضا کررہا ہے، مگر پاکستان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی افغان گروہ کا ساتھ نہیں دے گا، اور نہ افغانستان میں قیام امن اسلام آباد کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان اب ڈومور کے جواب میں نومور کی پالیسی پر کاربند ہے۔
بلاشبہ قومی سلامتی و خودمختاری کسی بھی ملک کی اوّلین ترجیح ہوتی ہیں، 20 سال کے بعد امریکی و نیٹو اتحادی افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں اور جگ ہنسائی بھی ہورہی ہے۔ امریکہ ٹریلین ڈالر کے نقصان کے بعد بھی عقل سے کام نہیں لے رہا بلکہ تذبذب کا شکار ہے کہ انخلاء کے بعد کیا پالیسی اپنائے جس کی بدولت وہ خطۂ جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ کھربوں ڈالر ضائع کرنے کے باوجود امریکی پالیسی ساز ادارے دنیا کو یہ نہیں بتاسکے کہ اس جنگ میں اُن کے مقاصد کیا تھے؟
صدر جو بائیڈن انخلاء کے بعد افغان عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ بی بی سی کو انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’انخلاء کے بعد افغان افراتفری کی ذمہ داری امریکہ پر عائد نہیں ہوگی‘‘۔ دوسری جانب امریکی پالیسی ساز ادارے اس حوالے سے پریشان نظر آتے ہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افغان سرزمین مستقبل قریب میں دوبارہ امریکہ و یورپ کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یہ تذبذب امریکہ کو لے ڈوبے گا۔ بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ بین الافغان ڈائیلاگ نتیجہ خیز نہیں ہوا، افغان فورسز امریکی فوج کی ملازم تھیں جو ذلت آمیز امریکی فوجی انخلا کے بعد بے اثر ہوگئی ہیں، پڑوسی ممالک ایران، چین، پاکستان اور روس مستقبل میں افغانستان میں امریکی پالیسی کی حمایت اور تائید نہیں کررہے۔ یہ تمام حقائق جان کر ہی حال ہی میں سابق برطانوی آرمی چیف لارڈ بینیٹ نے بیان دیا کہ یہ جنگ طالبان جیت چکے ہیں۔ نیٹو ممالک اور امریکہ کی اس خطے پر اجارہ داری اور پاکستان پر بالادستی قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا، اور بھارت کی سرمایہ کاری بھی ڈوب چکی ہے، مگر اب وہ چانکیائی سیاست کے ساتھ ایک نیاکھیل کھیلنا چاہتا ہے، اسی لیے افغان فوج کے لیے خصوصی طیاروں کے ذریعے اسلحہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ طالبان کا اس پر حقیقی ردعمل کیا ہے؟ قندھار میں بھارتی قونصل خانے پر طالبان کے کنٹرول کی اطلاعات بھی ہیں۔ بھارت وہاں سے ’را‘ کے اپنے ایجنٹ کیسے باہر لے گیا؟ یہ دوسرا بڑا سوال ہے۔ 20 سالہ طویل جنگ میں امریکہ نے جو نقصان اٹھایا ہے، بھارت کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے، لیکن بھارت یہاں آکر پاکستان اور چین سے سودے بازی چاہتا ہے۔ بھارتی طیارے جو ’را‘ کے ایجنٹوں کو نکالنے کے لیے آئے، وہ اسلحہ کی بڑی کھیپ لے کر آئے۔ مودی حکومت ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے، وہ عالمی اداروں کو متوجہ کرکے ہم پر پابندیاں لگوانا چاہتی ہے اور امریکہ بھارت کا سرپرست بنا ہوا ہے، اسی لیے پاکستان نے واضح بیان دیا کہ ہم پُرامن افغانستان چاہتے ہیں۔
امریکی فوج نے جس طرح بگرام ایئر بیس کو رات کے اندھیرے میں خالی کیا ہے، اور اس کی پیشگی اطلاع افغان حکومت کو بھی نہیں تھی، یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ امریکہ و افغان حکومت کے درمیان سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ حال ہی میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا دورۂ واشنگٹن بھی ناکام ثابت ہوا، دونوں راہنما امریکی ضمانت حاصل نہ کرسکے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی افواج نے اپنا سامان افغان آرمی کو دینے کے بجائے اڈوں پر چھوڑ کر بھاگنے میں کیوں عافیت سمجھی؟
طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ شمالی افغانستان ان کے قابو میں ہے۔ طالبان کے راستے میں رکاوٹ امریکی جنگی ہوائی جہاز تھے، اب وہ مشکل بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کبھی نہ تو طالبان کی برتری کو تسلیم کرے گی نہ طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے دے گی۔ انہوں نے حسبِ روایت پاکستان کے بارے میں کہا کہ امریکیوں کے مطابق اب فیصلہ طالبان اور پاکستان کو کرنا ہے کہ حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جانا ہے یا امن کے قیام کے لیے کوشش کرنی ہے۔ طالبان کے قندھار، کابل، خوست، پکتیا، لوگر اور جلال آباد کے قریب پہنچنے پر بڑی تعداد میں افغانوں کی پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ طالبان کے لیے اہم ترین کابل پر قبضہ کرنا ہے۔ وہ اُس وقت تک افغانستان میں برسراقتدار نہیں آسکتے جب تک کابل کا کنٹرول حاصل نہ کریں۔ قندھار بھی طالبان کے لیے بہت اہم ہے۔ ماضی میں قندھار ان کا مرکز تھا۔ قندھار اور کابل میں شدید لڑائی کا خطرہ موجود ہے۔ طالبان کے لیے اس وقت موسم بھی سازگار ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ سردیوں سے پہلے کابل پر قبضہ کرلیں۔ اس جنگ میں کون کس کی حمایت کرے گا اور کس کا کتنا جانی و مالی نقصان ہوگا؟ یہ تو آنے والے وقت میں پتا چلے گا۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہے کہ اُس کے نہ صرف اربوں روپے افغانستان میں لگے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو بطور بیس کیمپ استعمال کرنے کے مواقع ختم ہوجائیں گے۔ لاکھوں افغانوں کی آمد پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کرے گی۔