پرانی دوا سے گردے کے کینسر کے علاج کی امید روشن

پہلے سے موجود ایک اہم دوا کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس سے گردے کے کینسر سے شفایابی کے بعد اس کے دوسرے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔ اس دوا کی فیز تھری طبی آزمائش کے نتائج سامنے آگئے ہیں اور یورپی ایسوسی ایشن آف یورولوجی کانگریس میں اس کی روداد پیش کی گئی ہے۔ اس اہم تحقیق کا مقصد آپریشن کے ذریعے گردے کی سرطانی رسولیاں نکالنے کے بعد گردوں کو سرطان کے دوسرے حملے سے بچانا تھا، جس کا واضح طریقہ اس سے قبل موجود نہ تھا۔ فیز تھری ٹرائل میں 1000 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا جو گردے کے کینسر کا شکار تھے، اور جراحی کی بدولت ان کے گردے کے سرطان اور رسولیوں کو نکالا گیا تھا۔ ان افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے نصف کو امینوتھراپی کی مشہور دوا پیمبرولائزومیب یا پیمبرو دی گئی، جبکہ دیگر نصف افراد کو فرضی دوا (پلیسیبو) کھلائی گئی۔ پیمبرو کئی اقسام کے سرطان میں کامیابی سے کھلائی جاتی ہے۔ بالخصوص گردے کے سرطان میں مبتلا آخری درجے کے افراد کو بھی یہ دوا دی جاتی ہے، اور بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس سے قبل 20 ممالک میں کی گئی ایک تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ یہ ابتدائی اسٹیج کے گردے کے مریضوں میں بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ دو سال بعد معلوم ہوا کہ جن افراد کو پیمبرو دی گئی تھی اُن میں فرضی دوا کھانے والوں کے مقابلے میں گردے کے سرطان کا خطرہ 33 فیصد تک کم دیکھا گیا۔ اس کے بعد مریضوں کا فالواپ بھی کیا گیا اور اگلے پانچ سال تک زندہ رہنے میں دوا کے کردار کو بھی نوٹ کیا گیا۔ اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر تھامس پاؤلیس ہیں جو لندن کی کوئن میری یونیورسٹی میں بارٹس کینسر انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پیمبرو گردے کے سرطان کو دوبارہ لوٹنے سے روکنے میں واضح اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پھر یہ زندگی کو بڑھانے میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر تھامس نے امید ظاہر کی کہ چند مزید ثبوتوں کے بعد اسے استعمال کی اجازت مل جائے گی۔