حج، قربانی اور کورونا

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے حج آخری اور تکمیلی رکن ہے۔ قرآن حکیم اور احادیثِ مبارکہ میں حج کی فرضیت، اہمیت، افادیت اور خیر و برکت کا تذکرہ جا بہ جا ملتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں ارشاد ربانی ہے:
’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا، اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقامِ عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا، مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
حج ایک معین وقت پر سال میں ایک بار اللہ تعالیٰ کے دربار یعنی بیت اللہ میں حاضر ہوکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ رہنمائی کے مطابق حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی سنت سے اپنی وابستگی کے اظہار کے ذریعے اپنے خالق و مالک کی رضا جوئی کے حصول کی منظم کوشش کا نام ہے۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اجتماعیت کے اظہار، پرہیز گاری اور تقویٰ کی افزائش کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ سطورِ بالا میں درج ارشادِ ربانی سے واضح ہے کہ حج تمام مسلمانوں پر فرض نہیںُ بلکہ اس کے لیے ’’استطاعت‘‘ کی شرط خود رب العالمین نے عائد کردی ہے۔اور صاحبِ استطاعت کے لیے بھی پوری زندگی میں صرف ایک بار حج فرض کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود الحمدللہ، جب حج کا موسم آتا ہے تو دنیا بھر سے اسلام کے پروانے کچھ اس انداز سے امڈے چلے آتے ہیں کہ حج کے ایام میں شہرِ امن و آشتی مکہ مکرمہ میں ایک نہایت روح پرور نظارہ اہلِ ایمان کو دیکھنے کو ملتا ہے۔ اللہ کے یہ سب سپاہی جب ایک ہی وردی میں ملبوس، کالے اور گورے، عربی اور عجمی کے امتیازات سے بالاتر ہوکر ’’لبیک اللَّھم لبیک، لا شریک لک لبیک‘‘ کے نعرے بلند کرتے اور ایک ہی امام کی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا پر رکوع و سجود بجا لاتے ہیں تو امت کی عالمگیریت، وحدت اور یکجہتی کا جو پیغام دنیا بھر میں پہنچتا ہے اس کا کوئی متبادل تلاش کرنا ممکن نہیں۔ مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کو مدلل، جامع، سہل اور دل نشین انداز میں پیش کرنے کی بے پناہ صلاحیت سے نوازا تھا، وہ حج سے متعلق اپنے خطبے میں فرماتے ہیں:
’’حج کا زمانہ تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم و دانا نے ایسا بے نظیر انتظام کردیا ہے کہ اِن شاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالمگیر تحریک مٹ نہیں سکتی، دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہوجائے، مگر یہ کعبے کا مرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے آدمی کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو…‘‘ (خطبات)
محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کا وہ عظیم الشان منشور، جس کی پیروی کرنے پر آج کے دور کا خود کو مہذب کہلانے والا اور جدیدیت کا علَم بردار انسان بھی مجبور ہے، یہ بے مثل منشور بھی حجۃ الوداع کے خطبے کی صورت ہی میں بنی نوع انسان کو عطا ہوا۔ اس موقع پر حج کے لیے جمع اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فرزندانِ توحید سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں جانوروں کی قربانی کرکے اپنے غریب اور وسائل سے محروم بھائیوں کے لیے عمدہ اور اعلیٰ غذا کی فراہمی کا اہتمام کرتے ہیں، اور اس دن کو اپنے اپنے مقام پر ’’یومِ عید‘‘ کے طور پر مناتے ہیں، تاہم گزشتہ دو برس سے کورونا کی وبا کے سبب اور جواز کی بناء پر حج، قربانی اور عید کے ان تمام پروگراموں کو بہت سی پابندیوں میں جکڑ کر محدود سے محدود تر کردیا گیا ہے۔ چنانچہ آنکھیں امتِ مسلمہ کے اس عالمگیر اجتماع کا روح پرور منظر دیکھنے کو ترس گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا اور امید ہے کہ اپنی خصوصی رحمت و شفقت سے امت کو جلد اس ناگہانی وبا سے نجات عطا فرمائے گا، اور پھر بفضل تعالیٰ
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
اِن شاء اللہ۔