قربانی حضرت ابراہیمؑ کی ایک ایسی یادگار ہے جس کو زندہ رکھنے کا حکم قیامت تک کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ جن کی تاریخ قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ جب آپؑ نے اپنی قوم کا حال دیکھا کہ یہ شرک میں ڈوبی ہوئی ہے تو آپؑ نے کلیتہً ان کے اعمال کا انکار کردیا اور انہیں ایک اللہ کی پرستش کے لیے کہا۔ اس پر ان کے گھر سے لے کر باہر تک، عوام سے لے کر حکمراں تک سب دشمن بن گئے۔ حتیٰ کہ انہیں ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے آگ میں ڈال دیا، جس سے اللہ نے انہیں بخیریت یہ کہہ کر بچالیا کہ قُلْنَا یَانَارِ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلاَمَا عَلیٰ اِبْرَاھِیْم۔ اس کے بعد آپؑ سب کچھ خدا کے لیے چھوڑ کر اپنے ملک سے نکل گئے اور اس مہاجرت (Migration) میں آپ نے شام و فلسطین اور مصر وغیرہ کا چکر لگایا تاکہ لوگوں کو جھوٹے خدائوں کی قید اور گمراہیوں کی دلدل سے نکال کر خدائے واحد کا بندہ بنائیں۔
اس مسافرت میں آپ کی پوری جوانی بیت گئی اور ساتھ ہی اولاد سے محرومی بھی رہی۔ بالآخر رحمتِ الٰہی آئی اور محرومیٔ اولاد کے بادل چھٹ گئے۔ اولاد پیدا ہونے کے بعد آپ پر جو سب سے بڑا وقت آن پہنچا وہ یہ تھا کہ اس قول و قرار کا امتحان لیا جائے جو آپ نے اللہ سے ’’اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کہہ کر کیا تھا۔ چنانچہ اس غرض کے لیے یہ امتحان لیا گیا کہ لختِ جگر کو خدا کی راہ میں قربان کرو۔ اس کے پیش نظر آپ نے بیٹے سے کہا کہ ’’اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں‘‘ (الصافات۔ 102)۔ پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی غرض سے دونوں نے سرِ تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہْ لِلْجَبِیْنِ
غور کیجیے کہ ایک بوڑھے باپ نے اپنی اس اکلوتی اولاد کے، جو لاکھوں ارمانوں کی رہی ہوگی، معصوم حلقوم پر چھری پھیرنی شروع کی ہوگی تو اس کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔ زمین و آسمان تھرا گئے ہوں گے، لیکن اس عظیم اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط انسان کے ہاتھ میں لرزہ تک نہ طاری ہوا۔ کیونکہ ان کی اللہ سے محبت اتنی شدید تھی کہ اس نے ہر چیز کو شکست دے دی۔ بالآخر آواز آئی ’’(اے ابراہیم) تُو نے خواب سچ کر دکھایا‘‘ (الصافات 105)۔
’’ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دی‘‘ (اسے چھڑانے کے لیے) (الصافات 107)
اسے ’’ذبح عظیم‘‘ کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ ابراہیمؑ نے جو قربانی پیش کی تھی وہ ایک بیٹے کی تھی جس کے سامنے دنیا کی ہر طرح کی قربانی ہیچ تھی، اور دوسرے اس عمل کو قیامت تک کے لیے صاحبِِ حیثیت مسلمانوں پر فرض کردیا گیا کہ وہ اس کے ذریعے سے سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کریں۔ اس لیے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ فرما دیا ہے کہ ’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے‘‘۔
مقاصدِ قربانی قرآن کی روشنی میں
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے جو مقاصد بیان کیے ہیں وہ تین طرح کے ہیں:
پہلا ہے: ’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے جس میں تمہارے لیے بھلائی ہے‘‘۔ (الحج 36)
بھلائی سے مراد بہت طرح کی بھلائیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ انسان ان سے طرح طرح کے فوائد اُٹھاتا ہے۔ ان کے گوشت، ان کے دودھ، ان کے بال، ان کی کھال، ان کی ہڈیوں کو استعمال میں لاتا ہے، ان سے کھیتی باڑی کے کام لیتا ہے وغیرہ۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ ان فوائد کے پیش نظر شکرانے کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت کو تسلیم کرنے کے لیے عملی طور پر قربانی پیش کی جائے۔
دوسرا یہ ہے کہ قربانی کے گوشت وغیرہ سے بہت سارے انسانوں کے لیے خوراک مہیا ہوجاتی ہے، کیونکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں صحت بخش غذائیں برسوں نہیں مل پاتی ہیں۔ اس لیے قربانی میں پڑوسیوں، رشتے داروں، دوستوں، غریبوں، قناعت کرنے والوں اور حاجت پیش کرنے والوں سبھی کے حقوق رکھے گئے ہیں: فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُو الْبَائِسُ الفقیر وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (الحج: 36)
تیسرا یہ ہے کہ اس قربانی سے انسان اللہ کی قربت حاصل کرنے کے ساتھ بخل کا مرض دل سے نکالتا ہے اور سخاوت کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اور پھر غیر مذاہب میں مختلف طرح کے جو شرکیہ طریقے قربانی کے تعلق سے ہیں اُن پر بھی ایک ضرب پڑتی ہے کہ دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں ان کی قربانی صرف اللہ کے نام سے ہوتی ہے جو اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے، اور دوسرے جو کرتے ہیں وہ کہیں اور منسوب ہوتی ہے۔ اس طرح سے ایک صحیح پیغام بھی ہمارا ان تک پہنچتا ہے۔
چوتھا یہ ہے کہ قربانی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ جانوروں کی افزائش میں توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔ حلال جانوروں کی پیداوار زیادہ ہے۔ اگر اللہ نے ان جانوروں کو انسان کے لیے غذا کے طور پر نہ بنایا ہوتا تو یہ جانور انسان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتے۔ وہ جانور جو حرام ہیں ان کا توازن خدا خود قائم رکھتا ہے کہ کسے کتنا پیدا کرنا ہے، کسے کم عمری ہی میں ختم کردینا ہے، کسی کی بڑھوتری برائے نام کرنی ہے، کسے کسی کے لیے غذا بنا دینا ہے، اور کسے انسانی آبادی سے دور رکھنا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ حلال و حرام دونوں جانوروں کو طرح طرح سے کنٹرول نہ کرتا تو یہ جانور انسان کے لیے، ان کے معاش کے لیے، ان کے گھر بار اور کھیت کھلیان کے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن جاتے۔
یہ تھا قرآن کے لفظ ’’خیر‘‘ کا مفہوم
قربانی کا دوسرا مقصد قرآن بتاتا ہے:’’ان کو ہم نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے تا کہ تم شکر ادا کرو‘‘۔ (الحج: 36) )
یعنی ہم نے جو عظیم الشان نعمت غذا اور کام کاج کے لیے تمہارے لیے مسخر کرکے تمہیں دی ہے اس پر اپنے ربّ کا شکر ان کو قربانی کرکے پیش کرو۔
قربانی کا تیسرا مقصد قرآن بتاتا ہے:
’’اس نے تمہارے لیے ان کو اسی طرح مسخر کیا ہے تاکہ تم اللہ کی تکبیر کرو اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر‘‘۔ (الحج: 37)
یعنی قربانی محض اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس نے جن حیوانات کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرو۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ تمہیں ہر سال یہ بات یاد رہے کہ ایک تو تم نے انہیں مسخر نہیں کیا ہے، بلکہ مالکِ کائنات نے کیا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ سب تمہاری متاع نہیں ہیں، بلکہ اُس مالک کی ہیں جو اس کائنات کا خالق، حاکم اور رازق ہے۔ لہٰذا تم اس کا اعتراف قولاً و عملاً دونوں طرح سے پیش کرو۔ یہ تو تھے قربانی کے مقاصد قرآن حکیم کی روشنی میں۔ لیکن پورے قرآن کے مطالعے سے قربانی کا جو اصل مقصد، اس کا حقیقی مفہوم اور تحقیقی پہلو ہمارے سامنے آتا ہے وہ بہت سارے نقاب اُٹھاتا ہے جسے مختصر الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مومن کی پوری زندگی ہی قربانی ہے۔