ہفتہ بھر ہونے کو آتا ہے، رحیم یار خان، پاکستان سے مجاہد عباس تبسم کا سوال آیا:
’’لفظ مبغوض کا کیا مطلب ہے؟کیا یہ بغض سے نکلا ہے؟‘‘
مجاہد میاںکو فوری کمک تو اُسی وقت پہنچا دی گئی، تاکہ اُن کا جہاد جاری، عَلَم اونچا اورمُسکراہٹ برقرار رہے۔
مگرجب انھوں نے ایک حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم کا حوالہ دیا، جس کی رُو سے جھگڑالو آدمی سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے اور بتایا کہ دراصل انھوں نے اس حدیث کی تفہیم کے لیے یہ سوال اُٹھایا تھا، تودل میں ایک درد سا اُٹھنے لگا۔ ہمارے بچوں کو پیدا ہوتے ہی انگریزی زبان … اور فقط انگریزی زبان … میں تعلیم دی جارہی ہے۔ سو، اکبرؔ کی وہ پیش گوئی تو پوری ہوچکی کہ
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی
لغاتِ مغربی بازار کی بھاشا سے ضم ہوں گے
مگر اب شاید یہ پیش گوئی بھی پوری ہوئی کہ ’عقائد پر قیامت آئے گی ترمیمِ ملّت سے‘۔ کل ہی ایک پی ایچ ڈی پروفیسر صاحب، کہ وفاقی دارالحکومت کی ایک جدید جامعہ میں طبیعات کے اُستاد ہیں، اس ناہنجار کالم نگار سے ’مکروہِ تحریمی‘ کا مطلب پوچھ رہے تھے۔
اِکّاون، باون برس پہلے کی بات ہے، سرکاری تعلیمی اداروں کی ثانوی جماعتوں میں، ہم اختیاری مضمون کے طور پر عربی پڑھا کرتے تھے۔ بچوں کو اپنی دینی زبان سے کاٹ کر رکھ دیا گیا تو نسل کی نسل ڈیڑھ ہزار برس کے قیمتی علمی خزانوں سے محروم و مفلس ہوگئی۔ یہ خزانے قرآنی، نبویؐ اور فقہی اصطلاحات کے علمی گنجینے تھے۔ ثانوی جماعتوں میں فارسی بھی اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی۔ فارسی پڑھانا بند کیا گیا تو پوری قوم کا اپنی سیکڑوں برس کی تہذیبی میراث سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ حافظؔ و عُرفیؔ، رومیؔ و سعدیؔ اور قدسیؔ و جامیؔ ہی کا نہیں، اب تو غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری کا بھی بہت بڑا اور بہت شان دار حصہ ہماری نئی نسل کے لیے ردّی کا ڈھیر بن چکا ہے۔
مگر عربی و فارسی کا کیا رونا؟ یہاں تو منہ میں موجود زبان بھی کاٹی جارہی ہے۔ بچے اگر قومی زبان پڑھیں نہ سنیں، نہ سمجھیں نہ بولیں تو اس قوم کے بچے اس قوم کے نہیں رہیں گے، کسی اور قوم کے کام آئیں گے۔کام آئیں گے کیا مطلب؟ کام آرہے ہیں۔ قوم کی گود میں پلنے والے بچے گوروں کی زبان میں تعلیم پاکر وطن سے ولایت چلے جاتے ہیں اور گوروں کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ ذہانت کا اس ملک سے رضا کارانہ انخلا مسلسل اور متواتر جاری ہے۔ ہمارے لڑکپن میں تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ معاشرتی علوم، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، علمِ مثلث، علمِ ہندسہ، حیاتیات، حیوانیات، نباتیات، کیمیا، طبیعات، جوہری طبیعات اور صوبہ بلوچستان کے نصاب میں شامل مضمون سمکیات، (سمکیات مچھلیوں کا علم ہے)۔ انگریزی کو ایک الگ مضمون کے طور پر چھٹی جماعت سے پڑھانا شروع کیا جاتا تھا۔ اب سارا نظام سر کے بل اُلٹ گیا ہے۔ تمام مضامین گوروں کی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ اسلامیات بھی۔ اور قومی زبان کو ایک الگ مضمون کے طور پر مارے باندھے پڑھا دیا جاتا ہے، وہ بھی محض امتحان پاس کرانے کی حد تک۔ اردو کے اساتذہ ملتے ہی نہیں۔ جن اساتذہ کو اردو پڑھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، ان میں سے اکثرکو خود اردو پڑھنے کی حاجت ہے۔ یہ بات ہم بربنائے بغض نہیں کہہ رہے ہیں، اساتذہ ہمارے مبغوض تھوڑا ہی ہیں۔ ارے لو! ان باتوں میں تو بغض و مبغوض کا موضوع ہی رہا جاتا ہے۔ معذرت:
رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے
لہٰذا دردناک باتیں ہی ہوتی رہ گئیں۔ ہم بھی کیا کرتے؟بات جھگڑالو آدمی سے شروع ہوئی تھی، اُسی سے نیا جھگڑا کھڑا ہوگیا۔
بلاشبہ جھگڑالو آدمی کسی کو محبوب نہیں ہوتا۔ سب اُس سے بھاگتے پھرتے ہیں۔ اُسے دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔ بالکل ہی سر پر آجائے تو فوراً کوئی ایسا ضروری کام یاد آجاتا ہے، جو اس سے پہلے کبھی یاد نہیں آیا تھا۔ بھلا جھگڑالو آدمی سے مل کر جھگڑا کون مول لے؟ صلحِ کُل قسم کے لوگ بھی اُس کے شر سے ڈرکر اُس سے عداوت کرتے اور دشمنی رکھتے ہیں، مگر اس عداوت یا دشمنی کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ دل میں چھپائے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ظاہر کرنے پر بھی جھگڑا شروع ہوسکتا ہے۔ یہی چھپی ہوئی دشمنی یا عداوت ’بغض‘ کہلاتی ہے۔ جس شخص سے بغض رکھا جائے وہ ’مبغوض‘ ہوجاتا ہے۔ کسی سے بغض رکھنا کوئی اچھی بات نہیں، لیکن بعض اوقات بغض اچھے جذبے کے تحت بھی رکھا جاتا ہے۔اگر خلقِ خدا میں شر انگیزی کرنے والے کسی شریر کے شر کا، طاقت یا زبان سے مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہو، توصاحبانِ ایمان اُسے دل میں بُرا جانتے ہیں۔ اُس سے پوشیدہ نفرت رکھتے ہیں۔گو کہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ نیک لوگوں کے اس بغض کو ’بغضِ لِلَّہی‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ واسطے کا بغض۔ چوں کہ اس قسم کا بغض کسی ذاتی عناد یا نفسانی جذبے کے زیرِ اثر نہیں ہوتا، چناں چہ بے سبب بغض رکھنے کو بھی طنزاً ’بغضِ لِلَّہی‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ نہیں کہنا چاہیے۔ کسی سے اللہ کی خاطر محبت رکھنا اور کسی سے صرف اللہ کی خاطر بغض رکھنا تکمیلِ ایمان کی نشانیوں میں سے ہے۔ بے وجہ کے بغض کو آپ ’بے وجہ کا بغض‘ ہی کہہ لیا کیجیے۔
مبغوض کا ذکر آئے تو مغضوب کا ذکر کیوں نہ آئے؟ جس پر غضب ڈھایا جاتا ہے، یا جس پر آسمان سے غضب نازل ہوتا ہے، وہ مغضوب کہلاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اللہ کی محبوب قوم تھے، مگر اپنی انھی حرکتوں کی وجہ سے مغضوب ہوئے جن میں آج بھی مبتلا ہیں۔ آج بھی یہ مغضوب قوم دنیا کی ہر قوم سے بغض رکھتی ہے اورجہاں تک بس چلے خلقِ خدا پر طرح طرح کے غضب ڈھاتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ کی یہ مغضوب قوم دیگر اقوام کی مبغوض قوم بھی بن ہے۔
بغض میں بھی وہی تین حروف ہیں جو غضب کے ہیں۔ حروف کو ملانے سے الفاظ کیسے بنے؟ کس طرح وجود میں آئے؟ اس کی مختلف صورتیں بنیں۔ ان تمام صورتوں پر مولانا ابوالجلال ندویؒ کی بڑی دلچسپ تحقیق ہے۔ غضب اور بغض کے وجود میں آنے کی حقیقت پر بھی انھوں نے اپنی ایک طویل تقریر بعنوان’’انسان نے لکھنا کیسے سیکھا‘‘ میں ’انسان نے بولنا کیسے سیکھا‘ کے تحت روشنی ڈالی ہے۔ اس دلچسپ تحقیق کو ہم اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مولانا فرماتے ہیں کہ کچھ الفاظ انسان نے اپنی ذہانت سے بھی ایجاد کیے۔مثلاً جب نوالہ، لبوںکو چھوتا ہوا، زبان سے لپٹتا ہوا، حلق سے نیچے اُتر گیا تو اس پورے سفر کی رُوداد ہونٹ، زبان اور حلق سے نکلنے والے تین حروف کی مدد سے بیان کردی گئی:’’ بَلَعَ‘‘ (نگل گیا)۔
اسی طرح کی ایک اور مثال لے لیجیے۔ غصے میں آدمی چیختا چلّاتا یا غرّاتا ہے، حلق سے آواز نکالتا ہے (غ)۔ دانت پیستا ہے (ض)۔ ہونٹوں کو چبانا شروع کردیتا ہے یا ہونٹ بھینچ لیتا ہے (ب)۔ ان تینوں حالتوں میں نکلنے والی آوازوں کے علامتی حروف ملا لیجیے۔ پوری کیفیت (باقی ‘صفحہ 41 پر)
کے اظہار کے لیے ’غضب‘ کا لفظ ایجاد ہوگیا۔ دھیان دیجیے کہ ’غضب‘ کا لفظ بولتے ہوئے آواز بتدریج اندر سے باہر کو آرہی ہے۔
اب اس کے برعکس دیکھیے۔ لبوں کو ملاکر آواز نکالنے کی کوشش کی (ب)۔ ہمت نہیں پڑی اپنی آواز کو حلق ہی میں گھونٹ دیا (غ)۔ دانت پیس لیے (ض)۔ گویا بغض وہ غضب ہے جسے آدمی اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ یاں یوں کہہ لیجیے کہ بغض دبے ہوئے غضب کا نام ہے۔ یہاں پھر دھیان کیجیے کہ بغض کا لفظ بولتے ہوئے آواز بھی باہر کی طرف سے منہ کے اندر جاکر گُھٹ رہی ہے۔
پس اگر آپ کسی شخص کو ایسی کیفیت میں مبتلا دیکھیں کہ اُسے کسی شخص پر غصہ آرہا ہے، مگر جس پر غصہ آرہا ہے، اُس سے ڈر بھی لگ رہا ہے، اور ڈر کے مارے اپنے غصے یا غیظ و غضب کا کھل کر اظہار بھی نہیں کر پا رہا ہے، تو ایسی کیفیت میں مبتلا شخص کی حالت دیکھنے کے بعد آپ کو بغض کا مفہوم سمجھنے کے لیے لغت دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔