کتاب
:
ڈاکٹر مہر عبدالحق
مصنف
:
ڈاکٹر شفیق انجم
شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد
صفحات
:
100 قیمت:280روپے
ناشر
:
ڈاکٹر راشد حمید۔ ڈائریکٹر جنرل ، ادارہ فروغ قومی زبان۔ ایوان اردو اسلام آباد
ڈاکٹر راشد حمید تحریر فرماتے ہیں:
’’ادارہ فروغِ قومی زبان نے چند برس پہلے اپنی معمول کی ذمہ داریوں کے علاوہ یہ محسوس کیا کہ اردو کے بنیاد گزاروں کی غیر معمولی خدمات اور کارناموں سے آئندہ نسلوں کو روشناس کرانے کے لیے ’’مشاہیر اردو‘‘ سلسلے کا آغاز کیا جائے۔ اس عنوان سے لکھوائی جانے والی کتابوں میں مذکورہ شخصیات کے سوانحی کوائف، علمی و ادبی کارناموں اور اردو کے لیے خدمات جیسی معلومات شامل کی جائیں۔ چند شخصیات کے بارے میں ’’مشاہیر اردو‘‘ سلسلے کی کتابیں شائع ہوئیں اور انہیں غیر معمولی پذیرائی ملی۔ یہ مختصر کتابیں بلاشبہ تعارفی نوعیت کی ہیں لیکن اردو زبان و ادب کے طلبہ و طالبات نے تحقیقی مقاصد کے لیے ان سے بھرپور استفادہ کیا۔ جامعات کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ شخصیات کے بارے میں اس طرح کی کتابیں لکھوائی جائیں۔
ڈاکٹر مہر عبدالحق اردو اور سرائیکی کے لسانی و ادبی محقق، نقاد، مؤرخ، مترجم، مفسر، سیرت و سوانح نگار اور مفکر ہیں۔ کم و بیش نصف صدی سے زائد عرصہ مذکورہ بالا شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اردو لسانیات و ادب کے میدان میں بیش بہا اور گراں قدر اثاثہ عطا کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو کے آغاز و ارتقا کے موضوع پر تحقیق کی، اور اپنے مؤقف کے حق میں گراں قدر دلائل فراہم کیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو لسانیات کا باب ڈاکٹر صاحب کے وقیع کام کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر شفیق انجم اردو کے نوجوان استاد، افسانہ نگار، محقق اور نقاد ہیں۔ انہوں نے ادارہ فروغِ قومی زبان کے سلسلے ’’مشاہیر اردو‘‘ کے لیے ڈاکٹر مہر عبدالحق کی حیات و خدمات کے موضوع پر کتاب لکھ کر اردو کی بیش قیمت خدمت انجام دی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ تشنگانِ علم و ادب کے لیے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر شفیق انجم نے ڈاکٹر مہر عبدالحق کا تعارف کرایا ہے، لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر مہر عبدالحق پاکستان میں اردو اور سرائیکی زبان و ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات (باقی صفحہ 41پر)
متنوع اور مختلف الجہات ہیں۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ایک شاعر کی حیثیت سے کیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ترجیحات بدلتی رہیں۔ آغاز سے آخر تک ان کے کام کو دیکھا جائے تو واضح طور پر درج ذیل زمرے بنتے دکھائی دیتے ہیں:
-1 بطور لسانی محقق: (اردو اور سرائیکی زبانوں کی تحقیق، لسانی و تاریخی مطالعہ)
-2 بطور ادبی محقق و نقاد: (قدیم و معاصر سرائیکی ادب کی تحقیق، تفہیم اور توضیح و تنقید)
-3 بطور مؤرخ: (خطۂ ملتان اور گردو نواح کی تاریخ، تھل و سرائیکی وسیب کی تاریخی بازیافت)
-4 بطور مترجم: (مذہبی و ادبی متون کے تراجم)
-5 بطور مفسر: (مذہبی متون کی تفاسیر)
-6 بطور سیرت و سوانح نگار: (مذہبی و ادبی شخصیات کی سوانحات)
-7 بطور مفکر: (مذہبی، تہذیبی و ثقافتی افکار)
ان زمروں میں ڈاکٹر مہر عبدالحق 1950ء سے 1995ء (تقریباً نصف صدی) تک مصروفِ عمل رہے۔ اس دورانیے میں ان کے عظیم و مہتم بالشان کاموں کی فہرست بنائی جائے تو کم و بیش ہر زمرے میں ایک سے بڑھ کر ایک کام موجود ہے، اور ان میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ تاہم بغور مطالعے اور مشاہدے کے بعد میرے نزدیک بطور لسانی محقق اُن کی خدمات ایسی ہیں جہاں وہ بڑی شان اور تمکنت سے اپنی انفرادیت کا لوہا منواتے نظر آتے ہیں‘‘۔
انہوں نے حافظ محمود شیرانی کے پنجاب میں اردو کے نظریے کو نیا جغرافیہ اور نئی تاریخ دی۔ وہ لاہور کی مرکزیت سے پہلے ملتان کی مرکزیت اور پنجابی زبان سے پہلے ملتانی زبان کے نظریے کے علَم بردار ہیں۔ تمام عمر وہ درس و تدریس میں مصروف رہے۔ کتاب میں ان کی حیات و خدمات کا جامع تذکرہ کیا گیا ہے۔
کتاب نے ڈاکٹر مہر عبدالحق کو حیاتِ نوبخشی ہے۔