مولانا عبدالحق بلوچ سے میری پہلی ملاقات ڈاکٹر محمد ابراہیم کے کلینک پر ہوئی۔ وہ قراقلی پہنے ہوئے تھے۔ یہ سرسری ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب وہ امیر جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان بنائے گئے تو اُن سے زیادہ نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ اُن سے پہلے عبدالحمید مینگل تھے جو پہلے بلوچ امیر تھے۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے بلوچ علاقوں میں خاصی پیش رفت کی۔ وہ بلوچستان کے مسائل سے آگاہ تھے۔ ان کے دور میں افغان جہاد کا آغاز ہوا، سوویت یونین اور مجاہدین کے درمیان تاریخی کش مکش شروع ہوئی، اور ایران میں اسلامی انقلاب بھی انھی کے دور میں برپا ہوا۔ وہ انقلاب کے زبردست حامی تھے۔ ان کی سوچ فرقہ وارانہ کش مکش سے بہت بلند تھی۔ عمر کے آخری حصے میں مولانا عبدالحمید مینگل بیماری کی زد میں آگئے اور اُن کی جگہ مولانا عبدالحق بلوچ امیر بنادیئے گئے۔ ان کا دورِ امارت 15 سال پر محیط تھا۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ صوبائی امیر اور ضلعی امیر زیادہ سے زیادہ دو دفعہ امیر بن سکتے ہیں، اس لیے مولانا عبدالحق کو جانا پڑا۔ اس دستوری تبدیلی کا بہت فائدہ ہوا۔ لیکن اب پھر دستورِ جماعت میں تبدیلی کی گئی، اور اب ایک فرد زیادہ سے زیادہ تین بار منتخب ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ تبدیلی بہتر نہیں تھی۔ اس سے نئی قیادت کو آنے سے روک دیا گیا۔
مولانا عبدالحق بلوچ کی شخصیت مجلسی تھی۔ اُن سے کئی بار کہا کہ آپ صاحبِ علم ہیں، آپ کی سوچ بہت بہتر ہے، اور عالم، علما سے بہت مختلف ہے، اس لیے تحریر کی دنیا میں آئیں۔ لیکن انہوں نے میری اس گزارش پر کوئی توجہ نہیں دی، اور یوں اپنے علم کو ضائع کیا۔ آج اُن کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے، اب اُن کی زندگی کا کُل اثاثہ چند انٹرویو اور چند خطابات ہیں۔ اُن کے گرد کوئٹہ میں جماعت کے عام لوگ تھے، ان میں اکثریت کا تعلق علمی دنیا سے نہ تھا، نہ مولانا ان کو علمی دنیا میں لے گئے اور نہ ان میں علمی ذوق پیدا کیا۔
مولانا کا تعلق تربت سے تھا، اپنے دور کے علما سے اُن کے تعلقات بڑے گہرے تھے۔ یہ علما بھی مولانا کا بڑا احترام کرتے تھے۔ مولانا نے کراچی کے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی اس لیے اُن کا ذہن وسیع تھا۔ ان کا علمی سفر جاری رہا اور اس دوران وہ امیر صوبہ بنے، پھر اس کے بعد قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں مرکزی نائب امیر بن گئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، اُس وقت وہ صوبائی امیر نہ تھے۔ میں نے عبدالحمید مینگل سے کہاکہ مولانا کو قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دینی چاہیے۔ میری رائے تھی کہ قومی اسمبلی میں بڑے بڑے پارلیمنٹیرین موجود ہیں، مولانا ان کے درمیان گم ہوجائیں گے، جبکہ صوبائی نشست اُن کے لیے فائدے مند ہوگی، اور وہ نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ صوبے اور اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔ لیکن مولانا اونچی پرواز کے قائل تھے۔ ایک فائدہ انہیں یہ ہوا کہ بین الاقوامی دوروں پر گئے، اس سے اُن کے ذہن میں وسعت پیدا ہوگئی، اور انہوں نے سیاست دانوں کو قریب سے دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ مکران ڈویژن سے جب باقی بلوچ نے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تو وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ ان پر گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان عرف کالا باغ کے دور میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے اور انہیں خون کی ضرورت تھی، اُس وقت لاہور کے طالب علم ہزاروں کی تعداد میں خون دینے کے لیے کھڑے تھے۔ باقی بلوچ کا یہ دور عروج کا تھا۔ جب ان دونوں کا موازنہ کرتا ہوں تو باقی بلوچ مجھے مولانا عبدالحق بلوچ سے بہت آگے نظر آتے ہیں، سیاسی لحاظ سے… علمی لحاظ سے نہیں۔
مولانا عبدالحق بلوچ پر ان کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد سلیم نے کتاب مرتب کی ہے۔ اس میں مولانا کی تقریروں کو یک جا کرکے شائع کیا گیا ہے، اس کے علاوہ علما کے تاثرات بھی ہیں، جن سے اُن کی علمی شخصیت کے بعض پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ مولانا عبدالحق بلوچ کی طبیعت میں مزاح تھا، لطیفہ گوئی میں مولانا کا جواب نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں وہ قومی اسمبلی میں تھے، اس دورِ میں انہیں کئی ممالک کے دوروں کا موقع ملا۔ مولانا ایران کے انقلاب کے زبردست حامی تھے، انہوں نے ایران نہیں دیکھا تھا، خانۂ فرہنگ کے ڈائریکٹر سے دوستی تھی۔ فروری میں ایرانی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر کئی مہمان ایران بلائے جاتے ہیں، ہم سے کہا گیا کہ کوئی نام بتائیں جن کو ہم دورے کی دعوت دیں، تو میں نے مولانا عبدالحق بلوچ کا نام دے دیا۔ انہوں نے دورہ کیا۔ اس کے بعد بھی وہ کئی دفعہ انقلاب کی سالگرہ میں شریک رہے۔ ایک موقع پر ہم دونوں اکٹھے تھے۔
اس دوران خانہ فرہنگ نے انقلاب کی تقریبات کے لیے کچھ اور علما کے نام طلب کیے تو میں نے انہیں مولانا عبدالحق کے علاوہ مولانا محمد خان شیرانی کا نام دیا، اس پر انہوں نے کہاکہ یہ تو بڑا متعصب شخص ہے، اس لیے کہ ملاقات کے دوران ان کے سوالات شیعہ مسلک کے حوالے سے زیادہ تھے۔ میں نے ان سے کہاکہ یہ ان علما میں روشن فکر ہے تو خانہ فرہنگ کا ڈائریکٹر خوب ہنسا، لیکن آمادہ نہیں ہوا۔ میں نے اس سے کہا کہ مولوی ہے، امام کو دیکھے گا، علما کو دیکھے گا، ان سے ملے گا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا، اس طرح مولانا شیرانی کو دعوت دی گئی، اور مولانا کو اسلامی انقلابِ ایران نے متاثر کردیا۔ آگے کی دلچسپ داستان ہے، اس کو صرفِ نظر کرتے ہوئے مولانا عبدالحق بلوچ کے ذکر کی طرف آتا ہوں۔ ان کا موازنہ باقی بلوچ سے کررہا تھا، اب جب لکھ رہا ہوں تو ان کے بیٹے کی مرتب کردہ کتاب پڑھ چکا ہوں، اور میرے سامنے مولانا کا قومی اسمبلی میں کیا گیا خطاب اس کتاب میں موجود ہے۔ ان کی تقاریر کو بڑے غور سے پڑھا تو اس میں کہیں بھی بلوچستان کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ کتاب میں 14 تقاریر ہیں، لیکن کسی تقریر میںبلوچستان موجود نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا علم مجھے نہیں ہے۔ مجھے اب بڑی حیرت ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے ان کی دیگر تقاریر میں اس کا ذکر ہو۔ مولانا عبدالحق اپنی تقاریر میں بلوچستان کا ذکر بلوچ قوم پرستوں سے زیادہ زورِ بیان اور دلائل سے کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے جبکہ وہ امیر صوبہ اور مرکزی نائب امیر تھے، ان کا یہ زورِ بیان بعض لوگوں کو شاید ناگوار گزرا ہو۔ مولانا کی وفات پر پہلا تعزیتی جلسہ بی ایس او نے کیا، یہ شاید بی ایس او آزاد کا جلسہ تھا۔ خوشی ہوئی کہ بلوچ طلبہ نے انہیں یاد کیا۔ ان دنوں میں جماعت اسلامی بلوچستان کا ذمہ دار تھا۔ اس کے بعدمولانا کے لیے جماعت اسلامی نے تعزیتی ریفرنس بلوچی اکیڈمی میں رکھا۔ یہ بھرپور ریفرنس تھا، ہال بھرا ہوا تھا، مقررین اور دانشوروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مجھے یاد نہیں کہ میری تقریر کے کیا نکات تھے، بس اتنا یاد ہے کہ مولانا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میں نے کہاکہ عبدالحق بلوچ کی شخصیت سید جمال الدین افغانی جیسی تھی۔ ایرانی کہتے تھے کہ وہ ایرانی ہیں، افغان کہتے تھے کہ وہ افغانی ہیں۔ وہ ان دو قوموں کے درمیان نکتہ اتفاق ہیں۔ مولانا کی مثال دیتے ہوئے میں نے کہاکہ مولانا عبدالحق بلوچ جماعت اسلامی میں بلوچوں کے ترجمان تھے اور بلوچ قوم پرستوں میں جماعت کے ترجمان تھے۔ اگر مولانا عبدالحق (مرحوم) جماعت اسلامی میں نہ ہوتے تو وہ ایک عام مولوی ہوتے اور گوشہ گمنامی میں موت سے ہمکنار ہوجاتے، لیکن جماعت اسلامی نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا، کاش وہ علمی دنیا میں صاحب ِکتاب کی حیثیت سے قدم رکھتے۔
آیئے ان کے افکار کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔
ایک روزنامہ کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’قوم پرستی کی اصطلاح کے حق میں نہیں ہوں۔ ہمارے نزدیک ایک پیشانی ہوتی ہے، پھر پرستش بھی ایک کی ہوسکتی ہے، پیشانی کو ہرجائی بنانے کا قائل نہیں ہوں جس کو میں نے خدا کے حوالے کردیا ہے۔ قوم دوستی، وطن دوستی، خاندان دوستی اور علاقہ دوستی… یہ فطرتِ انسانی کے حصے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حضرات اپنے لیے قوم پرستی کی جو اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ اپنی اس اصطلاح کو خدا پرستی سے متصادم بناتے ہیں۔‘‘
’’حالانکہ انسانی معاشرے کی تشکیل افراد، خاندان، قبائل، علاقے اور قوم سے ہوتی ہے۔ خاندان، قبائل، چاردیواری اور قوم سے پوری عمارت بنتی ہے۔ ہر یونٹ کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اللہ نے بیان کیا کہ ہم نے خاندان و قبائل بنائے تاکہ ایک دوسرے سے جڑے رہو اور انسانیت کا حصہ بن جائو۔ تو میں اسی قومیت کا قائل ہوں، اسی کو مانتا ہوں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ میں خاص طور پر اپنے آپ کو بلوچ قوم پرست حضرات سے زیادہ بلوچ سمجھتا ہوں۔ زبان ،کلچر سے لے کر اپنی پوری زندگی کے معاملات میں بلوچست کی تعریف مجھ پر صادق آتی ہے۔‘‘
صورت خان مری کے افکار کے حوالے سے کہتے ہیں ’’صورت خان ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں، ان کی بعض تحریریں ہمارے اور ہمارے جیسے بہت سوں کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ لیکن انہیں پڑھنے والے بہت ہیں۔ اور بلوچ قوم اس وقت ایک قوم کے بجائے چند متصادم قبائل کا مجموعہ بن گئی ہے، اب اس پر قوم کی تعریف صادق نہیں آتی۔ میں مدعیانِ قوم پرستوں سے گزارش کرتا ہوں کہ جس معبود کا نام قوم رکھا ہے اس کو ٹکڑوں میں تقسیم نہ کریں، اور ان کے بعض حصوں کو دوسرے حصوں سے نہ ٹکرائیں، یہی قوم پر بڑا احسان ہوگا‘‘۔
اب جماعت اسلامی اس حوالے سے قحط الرجال کا شکار ہے۔ اس مصرع پر بات ختم کرتا ہوں:
دِگر دانائے راز آید کہ ناید؟