!کہیں بخارملیریا سے تو نہیں

”متلی، الٹی، تیز بخار، چڑچڑاپن، شدید سردی، کپکپاہٹ، سردرد“۔
”ایک دن بخار اور ایک دن نہیں“۔
کئی دن سے بخار ہے اور بس بالکل ڈھیلا پڑ گیا“۔
”کہیں بخار ملیریا سے تو نہیں ڈاکٹر صاحب؟ دیکھیں تو کیسا پیلا پڑ گیا ہے“۔
بچوں کے کلینک میں روز ہزاروں بچے بخار کی وجہ سے لائے جاتے ہیں۔
اگر علامات کی بات کریں تو ہر قسم کی بیماری میں ملتی جلتی علامات۔
دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ملیریا کا شکار ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ بیمار۔ پاکستان میں بھی لاکھوں لوگ ملیریا کا شکار ہوتے ہیں، اور اس میں سب سے زیادہ تعداد پانچ سال سے کم عمر اور 13-14 سال کے بچوں کی ہوتی ہے۔
پاکستان دنیا کے اس خطے میں شامل ہے جہاں ملیریا بہت عام ہے۔ گرمی کے موسم اور بارشوں کے فوراً بعد ملیریا بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔
مچھر، اور ایک خاص قسم کی مادہ مچھر اس جراثیم کو انسانی جسم میں داخل کرتی ہے جسے پلازموڈیم کہا جاتا ہے۔ اس مادہ مچھر کے انسانی جسم کو کاٹنے کے اوقات غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ آفتاب کے درمیان ہوتے ہیں، یعنی رات کے اوقات میں ملیریا کے جرثومے مچھر سے انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔
ملیریا کے جرثومے پلازموڈیم کی زندگی کے چکر کے دو حصے ہیں، ایک مچھر کے جسم میں اور دوسرا انسانی جسم میں۔،
ویسے تو کئی قسم کے پلازموڈیم ہوتے ہیں، مگر انسانی جسم میں بیماری پیدا کرنے والی اقسام صرف پانچ ہیں۔
پاکستان کے علاقوں میں دو اقسام بہت کامن ہیں: پلازموڈیم فیلسیپرم (Plasmodium Falciparum) اور پلازموڈیم واویکس (Plasmodium Vivax)۔ جب مادہ مچھر انسان کو کاٹتی ہے یا خون چوستی ہے تو دراصل وہ اپنے تھوک کے ذریعے پلازموڈیم کو انسانی جسم میں داخل کرتی ہے، اور وہ جراثیم وہاں سے خون کے ذریعے سفر کرتے ہوئے انسانی جگر میں پہنچتے ہیں جہاں ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ وہاں سے یہ واپس خون کے خلیات (Cells) میں داخل ہوتے ہیں، اور ان کی مزید افزائش خون کے خلیات میں ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں خون کے خلیات جراثیم سے بھر جاتے ہیں اور پھٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان تیز بخار، کپکپاہٹ اور شدید سردی محسوس کرتا ہے۔
اسی چکر کے دوران کچھ خلیات میں جراثیم ایک خاص شکل اختیار کرلیتے ہیں، اور جب وہ مادہ مچھر دوبارہ اس انسان کا خون پیتی ہے تو وہ خاص شکل کے خون کے خلیات مچھر کے پیٹ میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک حصہ مچھر کے پیٹ میں مکمل کرتے ہیں، جس کے بعد وہ مادہ مچھر کے تھوک میں شامل ہوجاتے ہیں، اور جب وہ مادہ مچھر کسی دوسرے شخص کا خون چوستی ہے تو اُس کے جسم میں منتقل ہوکراسے ملیریا کا شکار بنادیتے ہیں۔ اس پورے عمل میں مادہ مچھر صرف سہولت کار ہے، اور پلازموڈیم کی تیاری کا کام کرتی ہے، یعنی ایک شخص سے دوسرے شخص تک۔
مچھر کے کاٹنے کے بعد چند دن سے لے کر ہفتوں مہینوں تک وہ درمیانی وقفہ ہے جس میں انسان بیماری کا شکار ہوسکتا ہے۔ Vivax اور Falciparum پاکستانی بچوں میں بہت کامن ملیریا ہیں، جو کہ گرمی کے دنوں میں اور بارشوں کے فوراً بعد بہت تیزی سے پھیلتے ہیں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔
عموماً جمع شدہ پانی، گندے پانی کے جوہڑوں اور نالوں کے آس پاس ان مچھروں کی افزائشِ نسل ہوتی ہے، اس لیے معاشی طور پر کمزور طبقات کے علاقوں میں ملیریا صفائی کے فقدان، کم جگہ پر زیادہ افراد کی رہائش کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
علامات کا ذکر دوبارہ کرلیتے ہیں:
چونکہ بچوں میں بخار اور اس کی وجہ سے علامات خاصی بیماریوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں، اس لیے ابتدا میں یہ جانچنا خاصا مشکل کام ہے کہ اس بخار کی وجہ کیا ہے اور اس کو ملیریا سمجھا جائے یا نہیں؟
روزانہ بخار یا وقفے سے بخار، یعنی ایک دو دن کا وقفہ، سر درد، متلی، الٹی، کپکپاہٹ، سردی، چڑچڑاپن، نزلہ، موشن، نیم غنودگی، چہرے کا پیلا پن، کبھی کبھی جھٹکے اور بے ہوشی، جسم پر سرخ دھبے… یہ سبھی ملیریا کی علامات ہیں۔ اس لیے کسی بھی بچے میں جب یہ علامات موجود ہوں تو لازمی طور پر اس کا تفصیلی معائنہ ضروری ہے تاکہ بیماری کے تعین میں مدد مل سکے۔ کپکپاہٹ اور سردی ضروری نہیں کہ صرف ملیریا کی علامات ہوں۔
جب آپ کسی بچے میں ملیریا محسوس کریں تو بہت ہی سادہ سا خون کا معائنہ ضرور کرانا چاہیے جو کہ لیب کا کوئی بھی ماہر بندہ چند منٹوں میں آپ کو کرکے بتا سکتا ہے۔
یہ ٹیسٹ خون کے ایک قطرے کی سلائیڈ بناکر مائیکرو اسکوپ کے ذریعے کیا جاتا ہے، اور ملیریا کا سب سے آسان اور سستا ٹیسٹ ہے۔ اس کے علاوہ جو ٹیسٹ دستیاب ہیں ان کے کنفرم ہونے میں شبہات ہوتے ہیں۔ اسی لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور CDC اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خون کے قطرے سے Thick and Thin Flim کی سلائیڈ بناکر پلازموڈیم اور اس کی تشخیص ہی سب سے بہتر طریقہ ہے ملیریا کو جانچنے کا۔
ایک مرتبہ ملیریا کی تشخیص ہوجائے تو پھر اس کا علاج فوراً شروع کردینا چاہیے، تاکہ جلد از جلد اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔
ملیریا کی ادویہ عام طور پر خاصی سستی ہوتی ہیں اور چند دن کی خوراک سے مرض میں افاقہ ہوجاتا ہے۔
کبھی کبھی ملیریا خراب صورت حال پیدا کردیتا ہے اور دماغ پر اثر کردیتا ہے۔ اس کو دماغی ملیریا (Cerebral Malaria) کہتے ہیں، جس میں بچہ کوما کا شکار ہوجاتا ہے، اور خاصے لمبے علاج کے باوجود اعصابی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔
ملیریا کی کچھ اقسام سرخ ذرات کو توڑ کر انسانی جسم میں پیلیا بھی پیدا کردیتی ہیں، اور مریض بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کے باعث شاک (Shock) میں بھی چلا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسا کم کم ہوتا ہے، مگر اس مشکل کو ضرور یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی حاملہ خاتون کو ملیریا ہو تو اس کے نومولود بچے کو آنول (Umblical Cord) کے ذریعے ملیریا منتقل ہوسکتا ہے، یعنی بچہ ملیریا کے جرثومے کے ساتھ پیدا ہوسکتا ہے، یا نومولود بچوں میں بھی ملیریا مل سکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا، دنیا میں کروڑوں لوگ ملیریا کے سبب بیمار پڑتے ہیں، اور اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اور ہمارا ملک ملیریا کے خطے میں شامل ہے، اس لیے ہمیں بیماری کے علاج سے زیادہ اس سے بچاؤ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند چیزوں کا خیال رکھیں تو بہتر ہے:
٭پانی کو جمع نہ ہونے دیں۔
٭گندے پانی کی نکاسی کا بہتر انتظام کریں۔
٭ملیریا کے سیزن میں لباس لمبی آستین کا رکھیں، خاص طور پر مغرب سے فجر تک۔
٭گھر کے دروازوں، کھڑکیوں پر جالیاں لگائیں۔
٭رات کو کمرے میں ایسی مچھر مار ادویہ کا استعمال کریں جو چھوٹے بچوں کے لیے الرجی کا سبب نہ بنیں، یعنی کوائل اور دھواں دینے والی چیزوں سے پرہیز کریں۔
٭مچھر دانی کا استعمال کریں۔
٭مچھر سے بچاؤ کے مرہم جو بچوں کے لیے مناسب ہوں، جسم پر لگائیں۔
ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر آپ کے خیال میں بچہ ملیریا میں مبتلا ہوگیا ہے تو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں، کیونکہ ملیریا میں جہاں تیز بخار، الٹی، متلی، جسم میں درد وغیرہ ہوتا ہے، وہیں خون کے سرخ ذرات اور سفید ذرات یعنی پلیٹ لیٹس بھی کم ہونے کا امکان ہوتا ہے، اور اگر پلیٹ لیٹس ایک خاص مقدار سے کم ہوجائیں تو خون بہنا شروع ہوسکتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک خاص بات: ملیریا آپ کے جسم میں ہفتوں، مہینوں اور بعض اوقات سالوں خاموش رہ کر دوبارہ بیمار کرسکتا ہے۔
ملیریا کی کوئی اینٹی باڈیز نہیں ہوتیں، اس لیے ایک ہی شخص کو بار بار ایک ہی پلازموڈیم یا کسی دوسرے پلازموڈیم سے بھی ہوسکتا ہے۔
اس لیے ملیریا سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
صفائی کا خیال رکھیں، بچوں کو پوری آستین کی قمیص اور پاجامے/ پینٹ پہنائیں۔