(چوتھا باب) موسمی آفتیں ہم بجلی کیسے پیدا کریں؟

(تیسرا حصہ)
سورج اور ہوا بجلی پیداوار کے مستقل ذرائع نہیں ہیں۔ یہ چوبیس گھنٹے بجلی پیدا نہیں کرتے، 365 روز مسلسل کام نہیں کرتے۔ مگرہمیں ہروقت بجلی چاہیے۔ اگر سورج اور ہوا سے ہمیں وافر بجلی چاہیے، اگر ہم بجلی کے بڑے بڑے بریک ڈاؤن سے گریزکرنا چاہتے ہیں تو کچھ ایسے طریقے اختیار کرنے ہوں گے، کہ جب سورج نہ چمک رہا ہو، اور ہوا نہ چل رہی ہو، تب بھی بجلی متواتر مل رہی ہو۔ ہمیں اضافی بجلی بیٹریوں میں ذخیرہ کرنی ہوگی جو بہت مہنگی پڑسکتی ہے، اور قدرتی ایندھن بھی بطور معاون استعمال کرنا ہوگا۔ دونوں طرح، یہ معاشی طور پر ہمارے لیے خوشگوار نہ ہوگا۔ جب ہم سو فیصد صاف ستھری بجلی پیدا کررہے ہوں گے، اس میں تعطل بڑا اور مہنگا مسئلہ بن جائے گا۔
اس تعطل کی سب سے واضح مثال سورج کا ڈوب جانا ہے، کہ جب شمسی توانائی سے بننے والی بجلی یکسر منقطع ہوجاتی ہے۔ فرض کیجیے ہر گھنٹے کلو واٹ کی اضافی بجلی پیدا کی جائے اور اسے ذخیرہ کرلیا جائے، اور پھر اسے رات میں استعمال کرلیا جائے۔ اس طرح ہمارے بجلی کے بل میں کتنا اضافہ ہوجائے گا؟ اس کا انحصار دو عوامل پر ہے: بیٹری پر کیا لاگت لگتی ہے، اور کتنا عرصہ یہ بیٹری چلتی ہے۔ یہ لاگت ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک کلو واٹ گھنٹہ کی بیٹری ہم 100 ڈالر میں خریدتے ہیں۔ اب ہم قیاس کرتے ہیں کہ یہ1000 چارج ڈسچارج سائیکل مکمل کرلیتی ہے۔ یوں اس 1000 سائیکل پر ہمیں 100 ڈالر خرچہ آئے گا، یعنی یہ رات میں 10 سینٹ فی کلو واٹ پڑے گی۔ یہ تو اُس بجلی کی ابتدائی لاگت ہوگی جو ہم اس طرح پیدا کریں گے۔ جب کہ سورج کی براہِ راست توانائی دن میں 5 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ پڑے گی۔ باالفاظِ دیگر ہم یہ کہیں گے کہ رات کے لیے ذخیرہ کی گئی بجلی تین گنا زائد مہنگی پڑے گی۔
میں جانتا ہوں کہ محققین کا خیال ہے کہ وہ پانچ گنا زیادہ بہتر بیٹری بناسکتے ہیں۔ انھوں نے ابھی تک ایسا کچھ کیا نہیں ہے، لیکن اگر وہ صحیح ہیں تو پریمیم 10 سینٹس سے2 سینٹس پر چلا جائے گا، جو ایک مناسب بات ہوگی۔ بہرصورت رات کو بجلی کی فراہمی کا مسئلہ آج قابلِ حل ہے۔ اگر تم بڑا پریمیم دینے کے لیے تیار ہو، اور ساتھ ہی ایجادات پربھی کام کررہے ہو تو مجھے یقین ہے کہ ہم یہ پریمیم گھٹا سکیں گے۔
بات صرف اتنی نہیں کہ رات میں بجلی کی فراہمی ہی ایک مسئلہ ہے، بلکہ سردیوں اور گرمیوں میں موسم کی بدلتی حالتیں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ کئی طریقوں سے یہ رکاوٹ دور کی جاسکتی ہے، جیسے نیوکلیئر پلانٹ یا پھر گیس پلانٹ سے ضرورت کی بجلی مہیا کی جاسکتی ہے، یہ ایسے پلانٹ ہوں گے جن میں کاربن اخراج جذب کرنے والی ڈیوائسز نصب ہوں گی۔ ایسی کوئی بھی ضروری صورت حال اختیار کی جاسکتی ہے۔
موسم کی بدلتی حالتوں میں بیٹریاں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایک کلو واٹ بجلی ایک دن کے لیے نہیں بلکہ پورے ایک سیزن کے لیے ذخیرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسے گرمیوں میں پیدا کریں گے اور سردیوں میں استعمال کریں گے۔ اس مرحلے پر بیٹری کی زندگی کا چکر کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ ہم اسے سال میں بس ایک بار چارج کررہے ہیں۔ مگرجان لیجیے کہ ہمیں اب بیٹری کی خریداری کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
بجلی کی فراہمی، موسمی رکاوٹیں، اور بھاری لاگت بڑے صارف کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنے رہیں گے۔ زمین کیوں کہ اپنے مدار میں گردش کرتی ہے، اور سورج کہیں کبھی کم پڑتا ہے اور کہیں کبھی کرنیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہ چاروں موسموں میں مختلف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایکواڈور میں سورج کی کرنیں سارا سال ایک سی رہتی ہیں۔ سیاٹل امریکہ میں جہاں میں رہتا ہوں، چھوٹے بڑے دونوں دنوں میں سورج کی کرنیں وافر ملتی ہیں۔
اس قسم کی موسمی حالتیں کیوں اہم ہیں؟ ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں۔ تصور کیجیے سیاٹل کے قریب ایک قصبہ ہے، ہم اسے سن ٹاؤن کا نام دیتے ہیں، یہ قصبہ سال بھر میں سورج کی توانائی سے ایک گیگا واٹ بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیا صورت حال بنے گی؟ ایک صورت تو یہ ہوگی کہ کافی پینل نصب کیے جائیں تاکہ گرمیوں میں ایک گیگا واٹ بجلی ذخیرہ کرسکے۔ مگر سردیوں میں یہ قصبہ سورج کی کرنوں سے نصف مقدار میں شمسی توانائی حاصل کرسکے گا، جس سے قصبے کے گرین پریمیم میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ سن ٹاؤن کی مثال ایک مفروضہ ہے۔ جرمنی میں فی الواقع قصبات کے لیے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر کام ہورہا ہے، جو2050ء تک مکمل ہوجائے گا۔ جرمن حکومت نے گزشتہ دہائی میں اربوں ڈالر اس مد میں خرچ کیے ہیں۔ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کا دائرہ بڑھایا گیا ہے، شمسی توانائی کے لیے گنجائش میں دو سال کے اندر650 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ جرمنی نے جون2018 ء کی نسبت دسمبر2018ء میں دس گنا زائد شمسی توانائی پیدا کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جرمنی گرمیوں میں اتنی زیادہ شمسی اور ٹربائن بجلی پیدا کررہا ہے کہ ملکی ضرورت سے بھی زائد ہے۔ یہاں تک کہ وہ پڑوس میں پولینڈ اور چیک ری پبلک کو بجلی برآمد بھی کررہا ہے، ان ملکوں کے رہنما شکایت کررہے ہیں کہ جرمنی خطے میں بجلی کی قیمتوں پر اثرانداز ہورہا ہے۔
ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ طوفانی موسموں میں بجلی کا تعطل دور کرنے کے لیے ’’صاف ستھری توانائی‘‘ کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ تصور کیجیے کہ مستقبل کا ٹوکیو اپنی ساری بجلی ٹربائن سے حاصل کرتا ہے۔ (باقی صفحہ 41 پر)
اگست میں جب یہاں طوفانی موسم جوبن پر ہوتا ہے، شدید طوفان سے شہر تتربتر ہوجاتا ہے، ٹربائن ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ٹوکیو کے حکام فیصلہ کرتے ہیں کہ ٹربائن بند کردیے جائیں۔ ذخیرہ شدہ بجلی بیٹریوں سے مہیا کی جائے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹوکیو کو کم از کم تین دن کی بجلی مہیا کرنے کے لیے کتنی بیٹریاں درکار ہوں گی؟ جواب ہے:1 کروڑ40 لاکھ سے زائد بیٹریاں چاہیے ہوں گی، جبکہ پوری دنیا ایک دہائی میں اس سے بھی کم گنجائش کی کاربن فری بجلی پیدا کرتی ہے۔ اس ذخیرے کی لاگت400 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ٹوکیو کی یہ مثال مکمل مفروضہ ہے، کوئی بھی ایسا نہیں سوچ رہا کہ کبھی ٹوکیو کو بجلی کے لیے بیٹریوں پر اس طرح انحصار کرنا پڑے گا۔ یہاں جو نکتہ میں اٹھانا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ: بجلی کی ذخیرہ اندوزی نہایت مشکل اور انتہائی مہنگا کام ہے، مگر یہ اُن ذرائع میں سے ایک ذریعہ ضرور ہے جن سے ہم آنے والے سالوں میں بجلی کی ضرورت پوری کریں گے۔ اور ہمیں آنے والے سالوں میں واقعی بہت ساری صاف ستھری توانائی درکار ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ آنے والے سالوں میں بجلی کی عمومی ضرورت بھی تین گنا بڑھ جائے گی، شاید ایسا 2050ء تک ہوجائے۔
(جاری ہے)