کاروبار کی کامیابی کاراز کسی کو دھوکا نہ دیں، ایمان داری کو اپنائیں

جاوید اقبال صاحب دردِ دل رکھنے والے بزنس مین اور پاک لائٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ آپ کی کمپنی ”پاک لائٹ“ لائٹنگ فکسچر اینڈ بلاسٹس تیار کرنے کے شعبے میں ایک اہم کمپنی ہے جو آپ نے1986ء میں قائم کی، اور اپنی محنت و لگن سے اسے ایک اہم مقام دلایا۔ آج کمپنی ترقی کے مراحل سے گزر کر جس مقام پر ہے اُس میں صرف جاوید صاحب کی ٹیم کی محنت نہیں بلکہ ایمان داری کا بھی بڑا دخل ہے۔ جاوید صاحب یہ انٹرویو دینا نہیں چاہتے تھے کیونکہ خودنمائی سے بھاگتے ہیں، لیکن پھر ہم نے اس بات پر قائل کیا کہ آپ کے تجربے اور کاروبار کے منفرد طریقے سے لوگوں کے اندر کاروبار کرنے کا اصل فن سیکھنے اور کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا، تب کہیں جاکر بات بنی اور بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بات چیت میں جاوید صاحب کے ساتھ ان کے فرزند خالداقبال بھی موجود تھے جو ڈائریکٹر ہیں اور خود بھی منجھے ہوئے اور تربیت یافتہ کاروباری فرد ہیں، اور کاروبار کی اونچ نیچ خوب جانتے ہیں۔ آج کل کراچی کی مارکیٹ پر نظر ہے اور کام کو منظم انداز میں پھیلانے کے مشن پر ہیں۔ ویسے بھی پاک لائٹ کا مشن پاکستانی صارفین کو کم قیمتوں پر معیاری مال دینا اور ملٹی نیشنل استحصال سے بچانا ہے، لیکن معیار بین الاقوامی ہی ہوگا۔ جاوید اقبال سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: نئی حکومت آنے کے بعد کاروبار کے راستے کھلے ہیں یا مفقود ہوئے ہیں؟
جاوید اقبال: میرے حساب سے حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ وہ اس وجہ سے کہ اس حکومت نے بہت ساری درآمدات پر پابندیاں لگائی ہیں، ڈیوٹیز میں اضافہ کیا ہے، جس سے مقامی پیداوار کو تحفظ ملا اور آسانیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ٹیکس کے حوالے سے جو چیزیں بجٹ میں شامل کی گئی ہیں اسے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جاوید اقبال: ایسی کوئی بات نہیں جس پر بہت زیادہ شور مچایا جائے۔ تھوڑی بہت تبدیلیاں تو ہر بجٹ میں آتی ہیں۔ اس بجٹ میں بھی آئی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: گوجرانوالہ میں کاروباری حضرات کو کن بنیادی مسائل کا زیادہ سامنا ہے؟
جاوید اقبال: بنیادی جو چیزیں ہیں وہ یہ کہ آپ کے پاس ہنر مندمزدور نہیں ہے، اور پڑھے لکھے لوگ اس فیلڈ کی طرف نہیں آتے۔ اور یہ چیز شروع سے ہے۔ یہ اہم مسئلہ ہے جس سے ہم دوچار ہیں۔ اور یہ ایک آدمی کا کام نہیں کہ وہ اس قسم کے کورسز ڈیزائن کرے جس سے آپ کو صنعتوںمیں کام کرنے کے لیے ہنر مند لوگ مل سکیں۔ ٹریفک کے وہی مسائل ہیں جو پورے پاکستان میں سالہا سال سے ہیں۔ تو بنیادی چیز جو ہم کہہ سکتے ہیں یہ ہے کہ تعلیم میں اضافہ نہیں ہوا، صحت میں اضافہ نہیں ہوا، ذرائع آمدورفت کے نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
فرائیڈے اسپیشل: گوجرانوالہ شہر کے انفرااسٹرکچر میں درستی کی کتنی گنجائش موجود ہے، اور اس کے کاروباری نظام پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
جاوید اقبال: میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت صرف سڑک بنادے اور لوگوں کو صنعتیں لگانے کے لیے جگہ دے دے تو صنعتیں خودبخود بننا شروع ہوجائیں۔ بجلی مہیا کردے اور لوگوں کو رئیل پلاٹس آسان اقساط پر دے دے تو صنعتیں بے تحاشا ترقی کرسکتی ہیں۔ یہ کسی بھی حکومت نے نہیں کیا، اِس حکومت نے بھی نہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اگر ہم بیس، پچیس سال پہلے کے کاروبار کی بات کریں اور آج سے اُس کا موازنہ کریں تو آپ کیا کہیں گے؟
جاوید اقبال: میں سمجھتا ہوں کہ اس میں حکومتوں کا موازنہ کرنا درست نہ ہوگا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایوب خان کے دور میں بہت تیزی کے ساتھ صنعتی ترقی ہورہی تھی۔ اس سے عام آدمی کا طرزِ زندگی بھی بہتر ہورہا تھا۔ جس کے پاس زیادہ پیسے آرہے تھے وہ زیادہ خرچ کررہا تھا۔ اس کے بعد نیشنلائزیشن کا دور آیا۔ بعد میں اگر کچھ کیا ہے تونجی شعبے ہی نے کیا ہے۔ ہمارے ملک میں ظاہر ہے ہر آدمی کو اپنے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا ہے۔ نجی شعبے کی وجہ سے ہی تھوڑی بہت ترقی پاکستان میں تجارت اور صنعت میں ہورہی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: گوجرانوالہ ایک بڑا صنعتی شہر ہے، اس کی اپنی ضروریات بھی ہوں گی۔ آپ کی طرف سے کوئی تجاویز دی گئیں، یا کوئی بات ہوتی رہی ہے ؟
جاوید اقبال: تجاویز بھی دی ہیں، بات بھی کرتے رہے ہیں، لیکن لوگوں میں ایک مایوسی ہے کہ ”کوئی نہیں سنتا، کوئی اثر نہیں ہوتا“۔ اس لیے لوگوں نے ایسی بات کرنا بھی چھوڑ دی ہے۔ لیکن ہمارے چیمبر آف کامرس کے لیڈر بہت اچھا کام کررہے ہیں اور بہت سے پروپوزل بھی حکومت کو دیتے رہتے ہیں، اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ بھی نکلتا رہتا ہے، لیکن بہت زیادہ اثر نہیں ہے۔ ایک طرح سے آپ 19،20 کا فرق کہہ سکتے ہیں گزشتہ حکومت اور اِس حکومت میں۔ کیونکہ جس طرح میں نے پہلے کہا کہ جو کچھ کررہا ہے وہ پرائیویٹ سیکٹر خود ہی کررہا ہے۔ کوئی ایسا اقدام حکومت کی طرف سے نہیں کہ جسے سراہا جائے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تجارت میں درآمد پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اس سے مقامی صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: بجلی کے نظام پر کاروبار کا بہت زیادہ دار و مدار ہے۔ اس نظام کی گوجرانوالہ میں کیا صورتِ حال ہے؟
جاوید اقبال: ہمارے گوجرانوالہ کی حد تک لوڈشیڈنگ نہیں ہے لیکن بریک ڈائون بہت زیادہ ہے۔ بار بار بجلی کا جانا، جس سے آپ کی تمام پیداوارمتاثر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا سارا نظام بہت پرانا ہے، اسے اَپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ اور گوجرانوالہ کیا… سارے ملک کا ہی یہ حال ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کا کام بنیادی طور پر لائٹس کے حوالے سے ہے۔ یہاں چائنا کی لائٹس کی بھرمار ہے، پاک لائٹس کا کام دوسروں سے کس طرح مختلف ہے؟
جاوید اقبال: ہماری مینوفیکچرنگ بہت حد تک اپنی ہی ہے سوائے اُن چیزوں کے جو پاکستان میں نہیں بن سکتیں۔ مسابقت کا جہاں تک تعلق ہے چین نے بہت سا مال اچھے معیار کا بھی مارکیٹ کیا ہے اور بہت خراب بھی، لیکن ہمارا ٹریڈر زیادہ سستا مال لے کر آتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معیار کو مارکیٹ میں بہتر اور معیاری سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم چونکہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کو سیل سروس و گارنٹی دے سکتے ہیں، اس طرح ہم مقابلہ کرسکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: لائٹس کے علاوہ آپ پائپس میں بھی کام کرتے ہیں۔ اس کی کیا تفصیل ہے؟
جاوید اقبال: جی ہاں! ہم پائپس اور پی وی سی پائپ بناتے ہیں۔ یہ خوش قسمتی سے چین سے نہیں آتے، لیکن اس میں بھی مقامی طور پر مقابلہ بہت زیادہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کی بڑی مارکیٹ ملک کے کون سے شہر میں ہے؟
جاوید اقبال: تمام بڑے شہروں میں ہماری اچھی مارکیٹ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروبار تو سب ہی لوگ کرتے ہیں، آپ کی کامیابی کا کیا راز ہے؟
جاوید اقبال: میں سمجھتا ہوں کہ اگر آدمی ایمان داری سے کام کرے، کسی کو دھوکا نہ دے، تو اللہ تعالیٰ برکت عطا فرما دیتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروبار میں اونچ نیچ تو ہوتی ہے۔ کبھی کوئی مشکل حالات پیش آئے؟
جاوید اقبال: ہر آدمی کا اپنی اپنی فیلڈ میں اپنا اپنا تجربہ ہوتا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام ہی کاروبار منافع بخش ہوتے ہیں اور تمام ہی کاروبار اچھے ہوتے ہیں بشرطیکہ آپ ایمان داری اور دیانت داری اپنائیں۔ ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہم گاہک سے جو پیسہ لیتے ہیں اس کا بہترین نعم البدل اُسے دینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اُس سے زیادہ پیسے لے لیں اور نعم البدل کم دیا جائے۔ اس میں کوئی خاص فن تو نہیں ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب یہاں تشریف لائے، اور مجھ سے کہا کہ آپ تنخواہ کون سے دن دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم 7 تاریخ کو دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کبھی تاخیر بھی ہوجاتی ہے؟ میں نے کہا: ہاں! کبھی تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ پوچھنے لگے: کتنی تاخیر ہوجاتی ہے؟ میں نے کہا کہ کبھی دو تین دن تاخیر ہوجاتی ہے۔ کہنے لگے: آپ پہلی تاریخ کو تنخواہ کیوں نہیں دیتے؟ یہ سوال میں نے پہلی بار سنا تھا، کیونکہ ایک کلچر چلا آرہا ہے کہ سات تاریخ کو تنخواہ دینی ہے۔ میں نے کہا: جی حساب کتاب کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے وقت چاہیے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو تاریخ کو دے دیں، تین تاریخ کو دے دیں۔ وہ تو یہ بات کرکے چلے گئے، لیکن میں نے دل میں سوچا کہ ہم پہلی تاریخ کو تنخواہ کیوں نہیں دیتے؟ تو میں نے اپنے اکائونٹنٹ کو بلایا اور اس سے کہا کہ ہم پہلی تاریخ کو تنخواہ نہیں دے سکتے؟ کہنے لگا: نہیں! میں نے کہا: کیوں؟ تو اس نے بھی یہی جواب دیا کہ حساب کرنا ہوتا ہے۔ تو میں نے سوال کیا کہ دو تاریخ کو دے سکتے ہیں؟ کہنے لگا کہ تین تاریخ کو دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ چلیں آپ کوشش کریں تین تاریخ کو دینے کی، پھر کوشش کرکے اس کو دو تاریخ پر لے آئیں۔ تو پہلے ہی مہینے کوشش کرکے انہوں نے پہلی تاریخ کو ہی تنخواہ دے دی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی اور اس کی برکت اتنی ہوئی کہ ایک تو ہمارے ورکر خوش ہوگئے، کیونکہ انہوں نے ادھار اشیا لے رکھی ہوتی ہیں۔ اپنی ضروریات کا اکثر سامان ادھار ہی لیتے ہیں اور دکان دار پہلی تاریخ کے بعد روزانہ ہی ان سے پوچھ رہا ہوتا ہے، کیونکہ اسے بھی یہی خطرہ ہوتا ہے کہ یہ کہیں میرے پیسے مار نہ جائیں۔ تو پہلی تاریخ سے سات تک ان بیچاروں کا دل بڑی پریشانی میں ہوتا ہے، کیونکہ یہ دکان داروں سے روز وعدہ کررہے ہوتے ہیں کہ کل دے دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ پہلی کی کبھی دو نہیں آئی۔ تیس تاریخ کے اختتام پر ہی ہم سب ورکرز کو تنخواہیں دے دیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اللہ تعالیٰ نے آپ کے کاروبار میں جو برکت عطا کی ہے اس کی وجہ پہلی تاریخ کو تنخواہ دینے کا فیصلہ بھی ہے۔ تو کیا مزید بھی ورکرز کو کوئی ریلیف دینے کا ارادہ ہے؟
جاوید اقبال: ایک زمانے میں ہم کوشش کررہے تھے کہ ورکرز کو یہاں پر کھانا دیں بغیر نفع نقصان کے۔ تو میں حساب لگا رہا تھا کہ دال اتنے کی آئے گی، تندور اتنے کا آئے گا، گوشت اتنے کا آئے گا۔ بہت دن ہوگئے تو میرے بیٹے نے پوچھا کہ آپ کیا حساب کررہے ہیں؟ دیں ان کو۔ تو ہم نے ورکرز کو فری کھانا دینا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اُس دن سے آج تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ اللہ کی راہ میں جتنا خرچ کیا جائے اللہ تعالیٰ اتنی ہی برکت عطا کرتا ہے۔ یہ بات سب کو پتا بھی ہے اور سب نے مشاہدہ بھی کیا ہے۔ ہمت کرنی پڑتی ہے، اور اللہ جسے توفیق دے۔
فرائیڈے اسپیشل: کاروبار کرنے والوں کو عمومی طور پر آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟
جاوید اقبال: دو ہی مشورے ہیں۔ ایمان داری کو اپنائیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ اپنے ورکر کو خوش رکھیں۔ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے جب لوگ ورکر کو گالیاں دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ کلچر نہیں ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ لوگ مارتے بھی ہیں، ان کو بے عزت بھی کرتے ہیں، ان سے کام بھی لیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جس کو کام نہیں کرنا وہ نہ کرے۔ زبردستی تو ہم کو کام نہیں لینا۔ گالیاں دے کر اور مار پیٹ کرکے کام لینے کا کیا فائدہ! ہمارے یہاں ورکر کام چھوڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن پھر واپس بھی آجاتے ہیں۔